ایٹم بم کے متعلق آیت اللہ علی خامنہ ای کا فتویٰ
ایران کے سپریم لیڈر آیت العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران نے کبھی کوئی جوہری ہتھیار بنانے یا بنانے کے بعد اس کے ممکنہ استعمال کی کوئی خواہش نہیں کی،جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال اسلام میں منع ہے،ایران کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے بیان میں سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایٹمی اسلحہ تیار کرنا اور اسے ذخیرہ کرنا مذہبی طور پر حرام ہے، ایران کے پاس جوہری ٹیکنالوجی تو ہے،لیکن اس نے خود کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے ہمیشہ دور رکھا۔
اگرچہ سید علی خامنہ ای ماضی میں بھی متعدد بار اس طرح کے فتاویٰ جاری کر چکے ہیں اور بار بار اس پر زور دیتے رہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات جوہری اسلحہ کی تیاری سے روکتی ہیں،اِس لئے ایران ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا نہ صرف اعلان کرتاہے،بلکہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ نہ تو جوہری اسلحہ بنائے گا اور نہ ہی اس کا استعمال کرے گا تاہم اس کے پاس جوہری ٹیکنالوجی موجود ہے،لیکن اسرائیل اور دُنیا بھر میں اس کے مُربی ّ اور حامی ممالک دُنیا کو نہ صرف اس ایرانی ایٹمی اسلحے سے ڈراتے رہتے ہیں، جو ابھی وجود میں نہیں آیا،بلکہ اُنہیں یہ خوف بھی دامن گیر رہتا ہے کہ ایران کو جوہری اسلحہ کی ٹیکنالوجی سے بھی دور رکھا جائے،کیونکہ اگر اُس نے یہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی تو پھر وہ لازماً جوہری اسلحہ بھی بنائے گا اور اگر بنا لیا تو اس کا استعمال بھی کرے گا،یہ پروپیگنڈہ اتنے وسیع پیمانے پر کیا گیا کہ اس کے زیر اثر وہ معاہدہ بھی امریکہ نے منسوخ کر دیا، جو ایران اور امریکہ سمیت چھ دوسرے ممالک کے درمیان ہوا تھا۔
اس معاہدے کے لئے کئی سال تک سفارتی کوششیں کی گئیں،جس میں امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں ایرانی سفارت کاری کے جوہر بھی کھلے اور بالآخر جو معاہدہ ہوا اس کی ہر کسی نے تحسین کی۔اگرچہ ایران کے اندر بعض عناصر ایسے تھے جنہیں یہ معاہدہ پسند نہیں آیا تھا اور انہوں نے صدر حسن روحانی کے خلاف مظاہرے بھی کئے تھے، مظاہرین میں سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے حامی بھی شامل تھے تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد ایران میں اطمینان کا سانس لینے والوں کی تعداد زیادہ تھی، جو اقتصادی پابندیوں سے متاثر ہو رہے تھے، نتیجے کے طور پر ڈالر بہت مہنگا ہو گیا تھا اور افراطِ زر کی وجہ سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گیا، جونہی یہ معاہدہ ہوا تمام یورپی ممالک تیزی سے تجارت کے لئے ایران سے رابطے کرنے لگے۔ایرانی سول ایوی ایشن کی صنعت پابندیوں سے بہت متاثر تھی،پرانے طیارے فالتو پُرزے نہ ملنے کی وجہ سے گراؤنڈ ہو رہے تھے اور پابندیوں کی وجہ سے نئے طیارے مل نہیں رہے تھے،اِس لئے ایران نے تیز رفتاری کے ساتھ بوئنگ اور ایئر بس کے ساتھ معاہدے کئے،لیکن ابھی شاید جہازوں کی ڈیلیوری کا وقت نہیں آیا تھا کہ صدر ٹرمپ امریکہ میں تشریف لائے اور انہوں نے آتے ہی اس معاہدے میں کیڑے تلاش کرنے اور نکالنے شروع کر دیئے، جو تین سال کی سفارتی کوششوں سے وجود میں آیا تھا اور جس پر صدر اوباما سمیت پورے یورپ کی قیادت خوش تھی،لیکن صدر ٹرمپ کو تو اسرائیل کی خوشنودی مطلوب تھی،اِس لئے انہوں نے پہلے معاہدے کے خلاف فضا ہموار کی اور چھوٹے موٹے اقدامات کرتے کراتے بالآخر معاہدہ منسوخ کر دیا اور اب دوبارہ ایران کو اقتصادی پابندیوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
صدرٹرمپ نے یہ اقدام ایرانی رہبر سید علی خامنہ ای کے اس فتوے کے باوجود اٹھایا کہ ایران نہ تو ایٹمی ہتھیار بنانے کا خواہاں ہے اور نہ اس راستے پر گامزن ہے۔اس کی یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت بھی بہت محدودہے،جوادویات وغیرہ کی تیاری اور دوسرے سائنسی پراجیکٹس میں تو کام آ سکتی ہے،لیکن ”بم گریڈ یورینیم“ ابھی تک نہ تو ایران نے بنایا ہے اور نہ ہی یہ صلاحیت حاصل کی ہے،لیکن بعض یہودی یورپی دانشور یہ بے بنیاد دعویٰ کرتے ہیں کہ موقع ملے تو ایران شام سے پہلے ایٹم بم بنا سکتا ہے،حالانکہ بم گریڈ یورینیم دُنیا کی مارکیٹ میں کہیں دستیاب نہیں اور اسے اپنے ہی وسائل سے بنانا پڑتا ہے،لیکن پروپیگنڈے کا طوفان تھمنے میں نہیں آ رہا اور اب بھی، جبکہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار پھر اس سلسلے میں فتویٰ دے دیا ہے یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آتا،کیونکہ مغرب کے آزاد خیال اذہان ایرانی علما اور ان کی حکومت کو سخت گیر تصور کرتے ہیں اور ان کا خیال تھا کہ جس طرح انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی سیاسی مخالفین کو پھانسیاں لگانا شروع کر دی تھیں اسی طرح اگر اُن کے پاس ایٹم بم ہوا تو وہ اسے چلانے سے بھی گریز نہیں کریں گے، حالانکہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد جن جرنیلوں یا شاہ کے ساتھیوں کو پھانسیاں دی گئیں اُن کے جرائم کی فہرست لمبی تھی اور انہوں نے ساواک کے ذریعے جس طرح زندہ انسانوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا اس کی ایک جھلک دیکھ کر ہی انسانی جسم میں جھرجھری آ جاتی ہے۔
اتنے سنگین جنگی جرائم میں ملوث لوگوں سے رحم اور درگزر کیا جاتا تو وہ انقلاب مخالف عناصر سے مل کر جوابی انقلاب لے آتے اور یوں شاہ کے مخالفوں کی ساری جدوجہد اکارت چلی جاتی۔ پھانسیوں کے فیصلوں کا ایٹم بم سے کوئی موازنہ نہیں ہو سکتا،لیکن دُنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس راستے پر بگٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں اور ہر حالت میں ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کے لئے ہر حربہ اختیار کرنے کو جائز تصور کرتے ہیں، حالانکہ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کوئی دوسرا ملک نہیں خود رہبر انقلاب کا یہ فتویٰ ہے،جس کا اعادہ انہوں نے کیا۔البتہ جس طرح دُنیا کے ہر ملک کو اپنی سلامتی کے دفاع کا حق حاصل ہے اسی طرح ایران کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ جو اس سے چھینا نہیں جا سکتا،اگر ایران اپنی سالمیت کو خطرے میں محسوس کرے گا اور اسرائیل ایسی دھمکیاں دیتا رہے گا تو وہ کچھ اقدام توکرے گا،جس سے اسرائیلی حملے کو روکا جا سکے،اِس لئے ایرانی لیڈرکے فتوے کو اہمیت دینی چاہئے اور اس کی روشنی میں دُنیا کو ایران کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔