مسجد قرطبہ سے بادشاہی مسجد لاہور تک
گذشتہ ایک دو ماہ کے دوران جناب خالد محمود نے یورپ کے متعدد ممالک کادورہ کیا اور زبان حال سے مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان کہنے والے ملک سپین میں خصوصی وقت گذارا۔ غرناطہ اور قرطبہ کے علاوہ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد والے شہربارسیلونا میں بھی پہنچے۔ انہوں نے اپنے اس دورہ سپین کے تاثرات مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کی ہفتہ وار نشست میں بیا ن کئے۔ اس نشست میں جناب مجیب الرحمن شامی کے علاوہ رانا امیر احمد خان، روف طاہر، تاثیر مصطفے، نسیم کوثر،مشکور صدیقی، صدیق ریحان، ڈاکٹر غلام شبیر بلوچ اور سرفراز علی نے بھی اظہار خیال کیا۔
جناب خالد محمود: نے کہا: بنو امیہ کے دور میں طارق بن زیاد کے فتح ہسپانیہ کے بعدسات سو سال تک یہاں مسلمانوں کی حکومت رہی۔ اس دور میں یہ پورے یورپ میں بہترین حکومت تھی، جس میں رواداری، انصاف اور امن و امان کے علاوہ علم و فن، سائنس اورتمدن کو بہت عروج حاصل ہو ا غرناطہ اور قرطبہ کے شہر پوری دنیا میں اپنی مثال آپ تھے…… لیکن پھر اس سلطنت کا زوال شروع ہوا، اور اس کے ہاتھ سے مختلف شہر ایک ایک کرکے جاتے رہے۔ آخری دو سو سال میں یہ حکومت صرف غرناطہ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ جب غرناطہ کا آخری مسلمان حاکم عبداللہ ایک معاہدے کے مطابق غرناطہ شہر اور اپنا شاندار محل عیسائیوں کے سپرد کرکے اپنی والدہ کو ساتھ لئے محل سے نکلا تو اس وقت شام کا وقت تھا، سورج پہاڑی کے پیچھے غروب ہورہا تھا۔
پہاڑی کے سب سے اونچے مقام پر موجود شاندا ر الحمرا محل چھوڑتے ہوئے عبداللہ کا دل پاش پاش تھا۔ وہ بار بار رک کر حسرت سے اپنے محل کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آخر ایک جگہ رک کر محل کی طرف دیکھتے ہوئے زار و قطار رونے لگا۔ اس پر اس کی ماں نے وہ الفاظ کہے جو تاریخ کا حصہ بن گئے۔ اس نے کہا: ً بیٹا جس محل کا تم مردوں کی طرح دفاع نہیں کرسکے، ا ب اس کے لئے عورتوں کی طرح آنسو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں ً۔ غرناطہ اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنا تین سو سال تک دنیا بھر کے لوگوں میں بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی رہی ۔ عبداللہ نے شہر کا اقتدار عیسائیوں کے سپرد کرتے ہوئے ان سے ایک جامع معاہدہ کیا ۔ جس کی پہلی شرط یہ تھی کہ اس میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی، وہ اپنے رسم و رواج اور مذہبی اقدار کے مطابق زندگی بسر کرسکیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کو عیسائی بننے کا حکم دے دیا۔ ان کو غلام بنا بنا کر جنوبی ا مریکہ میں سپین کی نوآبادیوں میں بھیجا جانے لگا۔
مسلمانوں کی لائبریریاں جلا دی گئیں۔ تاہم ان سے طبی کتب کو باقی رکھا گیا۔ یہاں کے بہت سے مسلمانوں نے علما سے یہ فتوے حاصل کرلئے کہ وہ اپنے مذہب کو بچانے کے لئے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کر سکتے ہیں، شراب پی سکتے ہیں، سور کھاسکتے ہیں۔ ایک طویل عرصہ تک سپین میں موجو د مساجد اور مسلمانوں کے محلات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ جنوبی سپین میں جہاں یہ مقامات موجود ہیں وہاں آمد ورفت کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی، لیکن حال ہی میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر ان علاقوں پر توجہ دی جانے لگی ہے۔ مسجد قرطبہ کو چرچ بنا لیا گیا، اس میں مسلمانوں کے لئے نماز اد ا کرنے پر سخت پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے تو یہاں موجود پولیس فورا حرکت میں آجاتی ہے۔ مسجد قرطبہ اور اَلحمرا محل کی کشادگی اور وسعت مسلمانوں کی وسیع الظرفی کی علامت ہیں۔ اب ایسے مقامات سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر سپین کی حکومت مسلمانوں کی ان شاندار عمارتوں کو محفوظ رکھنے اور ان کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بنانے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ اب مسجد قرطبہ کو دیکھنے کے لئے ٹکٹ بھی لگادیا گیا ہے۔
اسے دیکھنے اتنے لوگ آتے ہیں کہ ایک دن میں ایک خاص تعداد ہی کو اسے دیکھنے کے لئے ٹکٹ ملتا ہے۔ بعض اوقات ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے بیس بیس دن انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان مقامات کو دکھاتے ہوئے ٹورسٹ گائیڈز کبھی اسلام یا مسلمانوں کا نام نہیں لیتے، بلکہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ عمارتیں مورحکمرانوں نے بنوائی تھیں۔ اسی طرح بھارت کے ٹورسٹ گائیڈ بھی لال قلعہ یا تاج محل دکھاتے ہوئے یہ کبھی نہیں بتاتے کہ یہ عمارتیں مسلمان حکمرانوں نے بنوائی تھیں۔ سپین کی کل آبادی ساڑھے چار کروڑ ہے جس میں چودہ پندرہ لاکھ مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں میں پاکستان سے گئے ہوئے لوگ بھی ہیں۔زیادہ تر مسلمان بارسیلونا شہر میں رہتے ہیں۔غرناطہ و قرطبہ یا بارسیلونا کے شہروں کی آبادی میں عرصہ دراز سے کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ بارسیلونا میں رہنے والے پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت یہاں سمگل ہوکر غیر قانونی ذرائع سے پہنچی ہے۔ ان کی اکثریت بے روز گار ہے اور چوری چکاری کے کاموں میں مصروف ہے یہ لوگ کوئی ملازمت کر بھی نہیں سکتے۔
انتظامیہ کو ان کے متعلق سب معلوم ہے، اس طرح یہ لوگ پاکستان اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث ہیں۔ ہماری حکومتوں نے انہی وطن میں روزگار فراہم کرنے کا فرض پورا نہیں کیاجس وجہ سے وہ اس دیار غیر میں خوار ہورہے ہیں۔
جناب مجیب الرحمن شامی: نے کہا کہ خالد محمود صاحب نے ہمیں تاریخ کا سفر کرایا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ ً ہم لوگوں کے دن پھیرتے رہتے ہیں ً کبھی برطانیہ کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، آج یہ سلطنت ایک دو جزائر پر مشتمل ملک کی صورت میں باقی ہے۔ ہمیں زیادہ توجہ اس بات پردینی چاہئیے کہ پاکستان کے اندر مسلمانوں کی کیا حالت ہے؟ یہ سوچنا چاہئیے کہ جن مقاصد کے لئے یہ ملک بنایا گیا تھا کیا ہم ان پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم اس کی حفاظت کا حق اداکر رہے ہیں؟ ہمیں عام طور پر دوسرے ملکوں کی پریشانی ہوتی ہے اپنے ملک کے حالات کی نہیں۔
اللہ نے جو ملک ہمیں دیا ہے، ہمیں اس کی خبر لینا چاہئیے۔ جو قومیں اصولوں پر چلتی ہیں وہ پھلتی پھولتی ہیں۔ جو اصولوں کو نہیں اپناتیں وہ سمٹ جاتی ہیں۔ امریکہ اس وقت چین کے مقابلے میں سمٹ رہا ہے۔ چین پھیل رہا ہے۔ ہمیں اپنی سطح پر وہ سب طریقے اختیار کرنے چاہئیں جن سے قومیں آگے بڑھتی ہیں نہ کہ وہ جن سے پیچھے جاتی ہیں۔ خالد صاحب نے مسجد قرطبہ کا ذکر کیا، میں لاہور کی بادشاہی مسجد کی بات کروں گا جس کی حالت بہت خستہ ہوچکی ہے۔ میں نے نواز شریف صاحب کے عہد حکومت میں ان کی توجہ اس طرف دلائی تھی۔ ایک کمیٹی بنا دی گئی، ایک ماہرین کی کمیٹی بھی بنائی گئی جس نے مسجد کا جائزہ لے کر اس کی انتہائی خستہ حالت کی رپورٹ دی اور چھت سے بارش کا پانی دیواروں اور بنیادوں میں اترنے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ اگر مسجد کی مرمت اب نہیں کی گئی تو پھر یہ مرمت کے قابل نہیں رہے گی، لیکن یہ مرمت نہ ہوسکی میں نے وزیر اعظم عمران خان کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرائی ہے۔ ابھی تک مرمت کا کام شروع نہیں ہو سکا۔ اگر ہم لاہور میں موجود اپنے اس عظیم تاریخی ورثہ کی حفاظت نہیں کرسکتے تو مسجد قرطبہ کے سلسلے میں کیا کرسکتے ہیں۔؟