گوہر نایاب عبدالغفار عزیز!
حکیم عبدالرحمن عزیز جماعت اسلامی کے بزرگ رکن تھے۔ ان کا تعلق ضلع قصور سے تھا، مگر وہ اپنے پیشے حکمت کے تجربات کرتے ہوئے سندھ کے قصبہ مورو ضلع نوشہرو فیروز میں کچھ عرصہ مقیم رہے۔ وہاں حکیم صاحب کے آنگن میں ایک منفرد پھول 22مئی 1962ء کو کھلا۔ اس کا نام عبدالغفارعزیز رکھا گیا۔ حکیم صاحب اپنی حکمت کے ساتھ ٹھیکے پر باغات لے کر ان سے بھی کچھ آمدنی حاصل کرتے تھے۔ جماعت اسلامی سندھ کے امیر مولانا جان محمد بھٹو نے حکیم صاحب کو اپنا بھائی بنا لیا تھا۔ حکیم صاحب کے گھر میں اللہ نے کئی کلیاں اور غنچے کھلائے۔ یہ غنچہ جس کا تذکرہ آج ہو رہا ہے عالم اسلام کا ہونہار سپوت، امت مسلمہ کے مظلومین کا ترجمان اور عالمی اسلامی تحریکوں کا رہنما بن کر دنیا بھر میں مشہور ہوا۔
عبدالغفار عزیز خود فرمایا کرتے تھے کہ ابتدائی تعلیم کے دوران انھیں تعلیم سے زیادہ کھیل کود کا شوق تھا۔ کرکٹ ان کا پسندیدہ میدان تھا۔ وہ اچھے اور تیز باؤلر تھے۔ میٹرک کا امتحان بمشکل پاس کیا۔کون جانتا تھا کہ اس ہونہار بچے کو جب تعلیم و تعلم کا شوق پیدا ہو گا، تو یہ ہر میدان میں ریکارڈ قائم کرے گا۔ بڑے بھائی سیف الرحمن صاحب تعلیم کے بعد قطر میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ انھوں نے اپنے بھائی کے لیے وہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کا اہتمام کیا۔ عبدالغفار سکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے قطر گئے۔ وہاں عالم اسلام کی معروف شخصیت اور اخوان المسلمون کے رہنما علامہ یوسف القرضاوی نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک تعلیمی ادارہ المعہد الدینی قائم کر رکھا تھا۔ اس ادارے کو مخیر حضرات اور قطر حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ ادارے کے اساتذہ عالم اسلام کے عظیم ترین اہل علم تھے۔ عبدالغفار عزیز نے کبھی عربی پڑھی نہیں تھی۔ یہاں عربی زبان میں تعلیم حاصل کرنا ایک بڑا امتحان تھا۔ اب کھلنڈرے نوجوان کو تعلیم سے محبت ہو گئی۔ ایک سال کے عرصے میں عربی زبان پر ایسا عبور حاصل ہوا کہ اساتذہ بھی حیران رہ گئے۔ اس تعلیمی ادارے کی خوبی یہ تھی کہ یہاں دینی علوم کے ساتھ سائنسی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔
ادارے کے پوزیشن ہولڈرز کو وزارت تعلیم قطر کی طرف سے ہر سال انعامات دیے جاتے تھے۔ عبدالغفار کے بقول پہلے سال میں، میں نے دیکھا کہ دو پاکستانی طالب علم جو میری ہی کلاس میں پڑھتے تھے، مگر ان کے سیکشن الگ الگ تھے اول آئے۔ دونوں نے اول انعام حاصل کیا۔ اس سے مجھے مہمیز ملی کہ یہ پاکستانی اول انعام لے سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بڑے لوگ ایسی ہی منزلوں سے گزرتے ہیں۔ اگلے سال عبدالغفار عزیز مرحوم نے اپنی کلاس میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ دل میں تہیہ کر لیا کہ اگلے سال اپنی پوزیشن کو بہتر بنانا ہے۔ اس سال تیسری پوزیشن پر آ گئے۔ اپنے سے آگے والے طالب علم سے صرف ڈیڑھ نمبر کم تھا۔ حوصلہ ملا اور یقین ہو گیا کہ اب منزل زیادہ دور نہیں۔اگلے سال واقعتا اول پوزیشن حاصل کی اور پھر اس کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گزرا کہ اول پوزیشن حاصل نہ کی ہو۔ اس معہد سے فارغ ہونے والے طلبہ دنیا بھر سے تعلق رکھتے تھے۔ افریقہ کے طالب علم تعداد میں زیادہ تھے۔ ان میں سے اکثر اپنے اپنے ممالک میں وزراء و سفرا اور اہم مناصب پر فائز ہیں۔ان سب سے عبدالغفار بھائی کے قریبی تعلقات تھے۔
عبدالغفار عزیز چاہتے تو وہ بھی ایسا مقام حاصل کر سکتے تھے، مگر انھوں نے جو مقام حاصل کیا اس کے مقابلے میں وزارت و سفارت اور عہدے و منصب کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ وزراء و سفرا تو کئی ہیں، کسے دنیا جانتی ہے؟ عبدالغفار عزیز پورے عالم میں ایک منفرد شخصیت ہے۔یہ تو دنیاوی لحاظ سے ان کا مقام ہے۔ انھوں نے جس جذبے، اخلاص اور للہیت کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ کے دین کے لیے وقف کیا اس کا انعام یہاں تو نہیں مل سکتا۔ وہ تو وہیں ملنا ہے جہاں جلدی جلدی سفر کرتے ہوئے یہ مسافر ہم سب کو غم زدہ چھوڑ کر جا بسا ہے۔ امید واثق ہے کہ اللہ کی رحمتوں نے اسے ڈھانپ لیا ہو گا اور وہ انبیاء و صدیقین کے قدموں میں خوش و خرم ہو گا۔
برادر عزیز عبدالغفار عزیز کے ساتھ پہلی بار قطر ہی کے ایک سفر میں 1980ء کی دہائی کے آخر میں ملاقات ہوئی۔ اس وقت وہ قطر یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ مجھے اس زمانے میں کئی بار قطر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کا ہمارا حلقہ احباب بہت منظم اور فعال تھا۔ نوجوانوں کے اندر بالخصوص ایک اچھا نظم قائم تھا اور نوجوانوں کے تربیتی کیمپ کھلے میدان میں ساحل سمندر کے کنارے لگا کرتے تھے۔اس میں تربیتی اور دعوتی موضوعات پر خطابات کے علاوہ نوجوانوں کے کھیل کود کے مقابلے بھی ہوتے تھے۔ عبدالغفار عزیز اس زمانے میں علامہ یوسف القرضاوی اور دیگر اہل علم کی آنکھوں کا تارا تھا۔ اسی دور میں قاضی حسین احمد صاحب سے پاکستان میں ملاقات ہوئی۔
عبدالغفار عزیز نے بتایا کہ یہ ملاقات ایک ولیمے کی تقریب میں ہوئی تھی، جس میں اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے عرب اساتذہ کی ایک تعداد بھی شریک تھی، جو قاضی حسین احمد صاحب کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ گفتگو میں کچھ دقت محسوس ہو رہی تھی، تو میں نے خود ہی آگے بڑھ کر ترجمان کی خدمت پیش کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ عرب اساتذہ بھی مجھ سے بہت مانوس ہوئے اور قاضی صاحب نے تو بڑی خوشی کا اظہار کیا اور میرا تعارف پوچھا۔اس کے بعد میرے والد صاحب سے رابطہ کر کے فرمایا کہ عبدالغفار تعلیم سے فارغ ہو جائیں، تو میں چاہتا ہوں کہ آپ کی اجازت کے ساتھ میرے ساتھ کام کریں۔
عبدالغفار عزیز نے قطر یونیورسٹی میں ایم اے کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ عربی زبان اور جرنلزم میں انھوں نے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوئے تو مارچ 1991ء میں پاکستان آ کر امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ قاضی صاحب نے ان کو اپنا معاون خصوصی مقرر کیا اور عالمی دوروں میں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔ آپ کی ذہانت، قابلیت اور عربی پر مکمل عبور کی وجہ سے قاضی صاحب کو ان پر بہت زیادہ اعتماد تھا۔ وہ عربی بولتے تو خود عرب حیران رہ جاتے۔ عبدالغفار ہمیشہ بتاتے تھے کہ انھوں نے المعہد الدینی میں جو عربی میں مہارت حاصل کی وہ اتنی بہترین تھی کہ بعد میں یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
قطر یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ چھٹیوں کے دوران پاکستان آنے پر کسی دوست کے مشورے سے مرحوم نے وفاق المدارس کا فائنل امتحان دیا اور پورے وفاق میں اول آئے۔ یہ ڈگری ایم۔ اے کے برابر ہے۔ اس کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے۔
عبدالغفار عزیز کی ذاتی خوبیاں اس قدر زیادہ تھیں کہ جو شخص بھی ان سے ملا خواہ ان سے بڑی عمر اور مرتبے کا ہو یا معمولی مزدور اور ڈرائیور، سب ان کے حسنِ اخلاق کے گن گاتے ہیں۔ راقم الحروف کو مرحوم کے ساتھ ملک کے اندر اور بیرونی ملکوں میں سفرکا موقع ملا۔ ایک ایک لمحہ یادگار ہے۔ ترکی، قطر، ملائیشیا اور سعودی عرب کے سفروں کے دوران اللہ کے اس بندے نے جس انداز میں خدمت کی، اس کے بیان کرنے کے لیے سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔