کیا یہ حُب الوطنی ہے؟

کیا یہ حُب الوطنی ہے؟
کیا یہ حُب الوطنی ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پانامہ لیکس سامنے آئی تھیں تو سب چونکے تھے لیکن اب پنڈورا لیکس سامنے آئی ہیں تو اتنا شور نہیں مچا۔ وجہ ایک ہی ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری محکموں اور اداروں میں کرپشن‘ سرکاری وسائل کے نا جائز استعمال] اقربا پروری اور اختیارات کے غیر قانونی استعمال کے اتنے سکینڈل سامنے آ چکے ہیں کہ اب یہ روٹین کا معاملہ لگتا ہے۔ لوگ سکینڈلز کے بارے میں سنتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ زمانہ اور تھا جب کسی کے رشوت لینے پر بھی لوگ دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے تھے اور اگر کبھی وہ باہر نکلتا تو اس کی طرف انگلیاں اٹھتی تھیں۔ اب تو جیسے کرپشن ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ عدالتیں ایسے مقدمات سے بھری پڑی ہیں حتیٰ کہ کرپشن پر قابو پانے کے لئے نیب کے نام سے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا گیا‘ لیکن کرپشن کا طوفان ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ نہ کسی کو قومی وسائل بھوکے کتوں کی طرح نوچتے شرم آتی ہے اور نہ ہی نا جائز ذرائع سے حاصل کی جانے رقوم اور دولت کے ڈھیر دوسرے ممالک میں جمع کرتے ہوئے۔ یہ بات سو فیصد واضح ہو چکی کہ جو کوئی بھی عوام کی دولت لوٹ کر بیرون ملک بینکوں میں رکھے یا آف شورکمپنیوں میں محفوظ کرے وہ محب وطن اور عوام دوست کبھی نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے یہ الفاظ پڑھ کر آپ کا ذہن کچھ لوگوں کی طرف جائے] لیکن میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں، جن کے خلاف کرپشن ثابت ہو چکی ہے، جن پر کرپشن ثابت نہیں وہ ظاہر ہے کہ اس الزام اور اس تہمت سے جرم ثابت ہونے تک مبرا ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق پنڈورا پیپرز میں وفاقی وزرا سمیت سات سو پاکستانیوں کے نام شامل ہونے پر وزیراعظم عمران خان نے تحقیقات سیل قائم کر دیا ہے، جس کی معاونت ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر کرے گی، جبکہ یہ سیل  پنڈورا پیپرز میں کمپنیوں کے قانونی ہونے یا نہ ہونے کی تحقیقات اور کمپنیوں کے سرمائے کی قانونی حیثیت کی انکوائری کرے گا تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس سیل کو حکومت کی جانب سے یہ ذمہ داری سونپی جا رہی ہے اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں، چنانچہ یہ سیل تحقیقات کر کے محض سفارشات پیش کر سکے گا اور اس کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ وزیراعظم معائنہ کمیشن کے پاس قانون کے تحت ایسی تحقیقات یا نگرانی کا کوئی قانونی مینڈیٹ نہیں ہو گا، جس کو وہ نافذ بھی کر سکے، چنانچہ یہ واضح ہے کہ ایسی کوئی بھی کارروائی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہو سکتی ہے اور ممکن ہے ہو ہی جائے۔ پھر اگر تحقیقات کے بعد یہ کمیشن کچھ سفارشات پیش کر بھی دے گا تو کیا ہو گا؟ کسی کمیشن یا کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات کا ہمارے ہاں کیا حال ہوتا ہے، اس سے کوئی بھی غیر واقف نہ ہو گا۔ قانونی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ایف بی آر کو معاملہ بھیجنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا، کیونکہ اس ادارے نے پانامہ پیپرز کے حوالے سے بھی معمولی نوعیت کا نوٹس بھیجا تھا اور اس کے بعد کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ 


وزیراعظم عمران خان کا کہنا کافی حد تک درست ہے کہ کرپشن سے کئی ممالک غریب ہیں، پیسہ غریب ممالک کے عوام پر خرچ ہونے کے بجائے آف شور جاتا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی بالکل ٹھیک ہے کہ کرپشن کی وجہ سے غریب ملکوں کی کرنسی بے قدر ہو چکی ہے غربت کی وجہ سے غریب ممالک میں ہزاروں لوگ ناحق جان سے جاتے ہیں، لیکن اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اگر آپ ان ممالک سے کہیں کہ غیرقانونی طریقے سے اپنے ہاں آئی ہوئی دولت واپس کر دیں تو کون اپنے ہاں آئے ہوئے سرمائے کو اپنی سرحدوں سے باہر نکالنے جیسی بے وقوفی کرے گا؟ اس لئے اس مسئلے کا حل اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ اپنے ہاں کرپشن کو کم کیا جائے۔کبھی کسی نے سوچا کہ کیا وجہ ہے کہ جس سرکاری محکمے یا ادارے کے معاملات کی چھان بین کی جاتی ہے، اسی میں بد عنوانیاں اور بد معاملگیاں نکلتی ہیں؟ میرے خیال میں اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی: جن لوگوں کو بھارری ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں‘ وہ ایمان دار نہیں ہیں۔ لوگ پہلے سرکاری نوکری تلاش کرتے ہیں اور ان کی یہ امید بر آتی ہے تو وہ کرپشن شروع کر دیتے ہیں۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ کا خوف یا روز قیامت کی باز پرس اور احتساب لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو چکے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ محب ِ وطن بھی نہیں ہیں، جہاں جس کا داؤ چلتا ہے‘ وہ چلاتا ہے۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے میں ایک دفتر میں کسی کام سے گیا۔ میرے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے جو کامن پن کے ذریعے نتھی کئے گئے تھے۔ جن صاحب کو میں نے کاغذات پیش کئے وہ ساٹھ سال سے زیادہ کے تھے۔

میں نے دیکھا کہ انہوں نے کاغذات استعمال کر لئے، لیکن اس میں موجود کامن پن نکال کر علیحدہ رکھ لی۔ میں نے اس احتیاط پر حیرت کا اظہار کیا تو کہنے لگے کہ یہ بھی پاکستان کی دولت ہے،اسے بچانا اور ہر ممکن حدتک استعمال کرنا ہماری ذمہ داری،بلکہ فرض ہے۔ آج کل کون ہے ایسی سوچ والا؟ اب تو جس کے ہاتھ میں جو کچھ آتا ہے لوٹ لے جاتا ہے۔ تیسری وجہ سرکاری اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کا مناسب انتظام کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ من مانی کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ سرکاری منصوبوں اور ٹینڈروں میں کمیشن پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔یہ بھی تو کرپشن ہے۔ جب آپ اپنی پیش کی گئی خدمات  کی تنخواہ لیتے ہیں تو سرکاری منصوبوں پر کمیشن کیسا؟ چنانچہ جب تک ایمان داری اور دلوں میں خوفِ خدا پیدا نہیں ہوتا،جب تک حب الوطنی بیانات سے نکل کر جان و تن میں سما نہیں جاتی اور جب تک سرکاری ٹھیکوں میں فیصدکمیشن کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا‘ کرپشن کا راستہ روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ تب تک پانامہ اور پنڈورا جیسے سکینڈلز بھی لیک ہوتے رہیں گے اور ہم عوام اپنے خون پسینے کی کمائی لٹتے دیکھتے رہیں گے۔  

مزید :

رائے -کالم -