تحریک انتشار ؟

 تحریک انتشار ؟
 تحریک انتشار ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کاکول ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر کہا ہے کہ کسی کو ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا نہیں کرنے دیں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیک نیوز اور پراپیگنڈے پر توجہ نہ دیں، ملک کی حفاظت مضبوط ہاتھوں میں ہے، دنیا بدل چکی ہے اس لئے ہمیں بھی بدلنا ہو گا ورنہ جمود کی قیمت ہم سب کو مل کر ادا کرنی ہو گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ باتیں بہت حوصلہ افزا ہیں کیونکہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے آٹھ نو سال سے تحریک انصاف نے ملک کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار بنایا گیا ہوا ہے۔ وہ جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو لگاتار نظام کو مفلوج کئے رکھنے کی سیاست کرتے ہیں اور جب وہ حکومت میں ہوتے ہیں تو تب بھی وہ یہی کام دوسرے طریقہ سے کرتے ہیں اور اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے یا بات کرنے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ملک کا نظام چلانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے، لیکن سیاسی ڈیڈلاک پیدا کردینے سے نظام چل ہی نہیں سکتا، یہ تو عمران خان ہی بہتر جانتے ہوں گے کہ پاکستان کو اس عذاب میں وہ اپنے طور پر لگاتار دھکیل رہے ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور محرکات بھی ہیں، اور یہ کہ جو عناصر یا ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرکے مکمل طور پر اپاہج کردینا چاہتے ہیں ان کے اصل عزائم کیا ہیں اوران کا اصل ٹارگٹ کیا ہے؟ پاکستان کا ایٹمی پروگرام یا سی پیک... یا پھر دونوں؟؟


عمران خان ایک بار پھر اسلام آباد پر لشکر کشی کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور ہو سکتا ہے جلد ہی وہ ایک اور لانگ مارچ کریں جسے بجا طور پر انتشار مارچ ہی کہا جا سکتا ہے۔ پچھلے آٹھ سال سے لگاتار عمران خان کا ٹارگٹ پاکستان کو سیاسی اور معاشی انتشار میں دھکیلنا ہے جس میں وہ اس حد تک کامیاب ضرور ہوئے ہیں کہ اس وقت پاکستان جو ایمرجنگ اکانومی تھا، اب بہت پیچھے رہ گیا ہے۔دنیا کی چار ایمرجنگ اکانومیز میں شمار کئے جانے والے پاکستان کو اب اپنی معاشی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں یہ سب جانتے ہیں کہ  پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ 2013 کے الیکشن کے بعد سے ہی عمران خان پاکستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بلا جواز 2014 میں اسلام آباد پر چڑھائی کی اور 126 دن تک نظام کو مفلوج کئے رکھا۔ اس دوران چین کے صدر شی جن پنگ کو پاکستان کا دورہ ملتوی کرنا پڑا جو سی پیک کے آغاز کے لئے ہونے جا رہا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سی پیک کے آغاز میں ایک سال کی تاخیر ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں 2018 تک سی پیک پر پوری رفتار سے کام ہو رہا تھا لیکن عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی یہ دانستہ طور انتہائی سست روی کا شکار کر دیا گیا۔ یورپی ممالک، خاص طور پر جرمنی، ناروے اور برطانیہ جو پاکستان میں زیادہ سرمایہ کاری کر رہے تھے، وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اسی طرح امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان سے سرمایہ کاری صفر ہو گئی۔ پاکستان کے انتہائی قریبی ترین عرب دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ امارات اورقطر بھی پاکستان کی بجائے بھارت کی طرف چلے گئے۔

سعودی عرب نے مہاراشٹر میں رتناگری آئل ریفائنری میں 34 ارب ڈالر اور جام نگر، گجرات میں 75 ارب ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور متحدہ عرب امارات نے مختلف منصوبوں پر بھارت میں 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ پاکستان کا ایک انتہائی دیرینہ دوست ترکی بھی عمران خان کے دور میں پیچھے ہٹ گیا کیونکہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی وجہ سے ایک طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان سے ناراض ہوئے اور دوسری طرف طیب اردوان اور مہاتیر محمد نے بھی اعتماد کرنا چھوڑ دیا۔ عمران خان کا دور حکومت نہ صرف سیاسی اور معاشی انتشار کا دور تھا جس میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے نظر آرہا تھا بلکہ پاکستان امریکہ، یورپ، چین، جاپان، سعودی عرب، کوئت، قطر، ایران، ترکی، ملائشیاسمیت دنیا کے تمام ملکوں اور اہم عالمی بلاکوں میں مکمل سفارتی تنہائی کا شکار ہو گیا تھا۔ وہ تو عمران خان کی حکومت چلی گئی اور اب وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شبانہ روز کوششوں سے پاکستان کی نہ صرف عالمی تنہائی دور ہو رہی ہے، اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے اور پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں سے تعلقات دوبارہ بحال ہو گئے ہیں بلکہ دوست ممالک سے بھی سرمایہ کاری چار سال کے وقفہ کے بعد دوبارہ آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس وقت بھی وزیر خارجہ جرمنی میں ہیں اور اس اہم ترین یورپی اقتصادی طاقت کے ساتھ مثبت مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اگر عمران خان حکومت میں رہتے تو اس وقت تک پاکستان اقتصادی اور سفارتی طور پر مکمل دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔ 


عمران خان نے پچھلے آٹھ سال میں جتنے لانگ مارچ کئے ہیں یا دھرنوں اور شہروں کو بند کرکے وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں نظام مفلوج کیا ہے، ان میں کسی بھی مارچ یا دھرنے کا کوئی جواز نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ اگر اب وہ پھر ایک یا دو صوبائی حکومتوں کی مدد سے وفاقی دارالحکومت آتے ہیں تو اس کا مقصد سوائے ملک میں انتشار کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو تحریک انصاف کی بجائے تحریک انتشار کہنا زیادہ مناسب ہو گا اور یہ اسی طرح کا ہے جس کا سامنا اسلام کے ابتدائی دور میں یا حسن بن صباح کی صورت میں نازل ہوا تھا۔ پاکستانی قوم ان کے اصل عزائم سمجھ چکی ہے اس لئے وہ ملک میں انتشار پھیلانے کے فتنہ میں چارہ نہیں بنے گی۔ پی ڈی ایم نے مشکل فیصلے کرکے اپنی سیاست داؤ پر لگا کر ریاست بچائی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ کسی کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا نہیں کرنے دیں گے۔ عمران خان عدالتوں اور اداروں پر دباؤ ڈال کر فیصلے اپنے حق میں کرانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے صاف نظر آرہا ہے کہ یہ تحریک انتشار اپنی سیاسی طبعی موت آپ مر جائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -