وفاقی وزارت داخلہ نے سابقہ قبائلی علاقہ جات میں بنائی گئی جماعت پختون تحفظ موومنٹ (پی ڈی ایم) پر پابندی لگا دی ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوق کے مطابق اس جماعت سے تعاون اور ساتھ دینے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔پی ٹی ایم کے خلاف غیر ملکی امداد سے تخریبی اور ملک دشمن کارروائیوں کا الزام ہے، سرکاری طور پر کہا گیا کہ اس تنظیم یا جماعت کا تعلق ٹی ٹی پی والوں سے بھی ہے اور ان کے لوگوں نے بیرونی ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں اور سفارتی عملے پر حملے کئے اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی۔اس جماعت کی تشکیل ایک نوجوان منظور پشتین کے ذمہ ہے جو کراچی میں بھی رہا اور وہاں بھی غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہوا،جب ریاستی اداروں کی نظر میں آیا تو فرار ہو کر قبائلی علاقے میں پہنچ گیا اور یہاں پختونوں کے حقوق کے نام پر لوگوں کو جمع کیا۔بتایا گیا ہے کہ اس جماعت کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی اور عام انتخاب میں بھی حصہ لیا اور علی وزیر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وہ زیر حراست ہیں۔ان کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں اور تقریروں کا الزام ہے جبکہ منظور پشتین کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
حکومت کی طرف سے یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا، جب ملک میں پہلے ہی محاذ آرائی جاری رہے اگرچہ پابندی کے حوالے سے جو موقف اختیار کیا گیا اس میں وزن ہے کہ پی ٹی این نے اپنا متبادل عدالتی نظام بنانے کا اعلان کر دیا تھا اور اس کے مقاصد میں ”آزاد پختونستان“ بھی شامل ہے یہ امر باعث تقویت ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے پابندی کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر قانونی حرکات کا نوٹس لیا جائے گا اور کارروائی ہو گی۔اس حوالے سے صوبائی حکومت نے روایتی محاذ آرائی کی آڑ میں ملک دشمنی کے الزام کے باعث کوئی تردد نہیں کیا۔
یہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ منظور پشتین اور علی وزیر پر مخالفانہ تقریریں کرتے رہے ہیں اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے، تاہم حکومت کی طرف سے پہلے ایسے الزامات سامنے نہیں لائے گئے تھے جو اب پابندی کا باعث بنے ہیں۔عام خیال یہی ہے کہ مطالبات اور مختلف ایشوز پر ایسی کارروائیوں کی نسبت مذاکرات کا عمل بہتر ہوتا ہے۔اس موقف کی تائید وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوق کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ مطالبات اور ایشوز پر بات چیت ہو سکتی ہے،لیکن متوازی عدالتی نظام کسی طور بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔محسن نقوی کے مطابق جہاں تک متبادل جرگہ منعقد کرنے کا اعلان ہے تو جرگہ قبائلی روایات میں شامل ہے، لیکن جرگہ قبا ئل کے معززین کا ہوتا ہے یہ نہیں کہ اعلان جرگہ کا کیا جائے اور اس میں شمولیت کے لئے سب کو مدعو کیا جائے۔ یہ کوئی جلسہ عام نہیں ہوتا۔
رموزِ مملکت حکمران ہی جانتے ہیں اور اس حوالے سے جو تفصیل بیان کی گئی وہ یقینا خوشگوار نہیں اور اس سے ”بغاوت“ کی بو تو آتی ہے،اس کے باوجود تقاضہ عدل یہ ہے کہ ان الزامات کو باقاعدہ تحریری شکل دے کر سامنے لایا جائے تاکہ عام پاکستانی کو بھی علم ہو جائے کہ کیا کیا گیا، یوں بھی میرا خیال ہے کہ یہ مسئلہ بھی عدالت میں جائے گا اور مدت کا تعین عدالت کی توثیق ہی سے ممکن ہے اس لئے کیس مضبوط ہونا چاہئے کہ کوئی بھی شہری ملک دشمن سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتا۔
دوسری طرف وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک گرینڈ جرگہ بلایا ہے جس میں خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال پر غور کے بعد سفارشات مرتب کی جائیں گی۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی بھی شریک ہوں گے۔یہ اقدام اچھا ہے اور اس جرگہ میں امن و امان کے حوالے سے اور پی ٹی ایم کے بارے میں بھی اظہار رائے ہو سکتا ہے کہ اس اثناء میں پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی این کو گرینڈ جرگہ منعقد کرنے سے روک دیا ہے۔
یہ مسئلہ نظر بظاہر عام سا نظر آتا ہے لیکن اس کے اثرات بہت گہرے ہیں،حکومت کے بیانیہ کے مطابق پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی میں ملک دشمن اتحاد ہے اگر ایسا ہو تو پھر پی ٹی ایم کے بھی حمایتی ٹی ٹی پی والوں کے سہولت کار گردانے جائیں گے۔پابندی کے بعد خدشہ ہے کہ مذکورہ جماعت والے اب کھل کر ٹی ٹی پی والوں کا ساتھ دیں گے اور ان علاقوں میں تخریبی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ توقع کی جانا چاہئے کہ وزیراعلیٰ کی طرف سے بلائے گئے گرینڈ جرگہ میں عمائدین اور مشران کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے معززین کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی تاکہ جو بھی فیصلے ہوں وہ وسیع تر حمایت کے ساتھ ہوں۔
ہمارا موقف تو ابتدا ہی سے یہ ہے کہ وسیع تر قومی اتفاق رائے ہو اور یہ بھی قومی امور پر ہونا چاہئے۔ ملک جن حالات میں گِھر چکا ہے اسے اس سے نکالنے کے لئے ایسے ہی وسیع تعاون کی ضرورت ہے اِس سلسلے میں میری تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مجموعی طور پر فیصلہ کر لیں کہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور الزام تراشی نہیں ہو گی۔مسائل پر بات کرنے کے لئے صوبائی اور قومی اسمبلیاں موجود ہیں، ان تمام مسائل پر انہی اسمبلیوں میں بحث ہونا چاہئے اور اراکین کو کھلے طریقے سے مہذب انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہئے،شور شرابے اور بائیکاٹ وغیرہ سے گریز کیا جائے۔سپیکر حضرات حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف والوں کو قواعد کے مطابق بولنے کی اجازت دیں۔پارلیمانی روایات کے حوالے سے یہ عرض کروں گا کہ پارلیمان وہ فورم ہے جہاں عوام کے مسائل سامنے آتے اور ان کے حوالے سے بات بھی کی جاتی ہے اگر ایوانوں کی کارروائی ہونے دی جائے اور ہر کوئی سکون سے اپنا نقطہ نظر بیان کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ اجلاس پرسکون نہ ہوں اور مسائل پر تفصیلی بات کے بعد ان کے حل سامنے نہ ہوں،اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ ایوانوں میں ہر دم احتجاج کے منظر نظر آتے ہیں اور کارروائی یہیں تک محدود ہو جاتی ہے،حالانکہ یہ فورم عوامی مسائل کا ہے۔ وقفہ سوالات اور تحاریک التواء کے ذریعے ضروری عوامی مسائل سامنے آتے اور ان کے حوالے سے جواب ملتے ہیں، جبکہ ماحول پرسکون ہو تو قانون سازی بھی یکطرفہ طور پر نہیں ہو گی اور ایوانوں میں تفصیلی بات ہو کر فیصلہ ہو گا، اللہ ہمارا محافظ و نگہبان ہو۔