مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:50
میں نے لندن ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ میں کام ہوتے دیکھا ہے۔ ایک تو میں نے وہاں یہ محسوس کیا کہ اگر کوئی وکیل اپنے دلائل دے رہا ہے اور جج اُس سے کوئی سوال پوچھنا چاہتا ہے تو وہ اُسے اشارہ کر کے خاموش کراتا ہے اور مختصر سوال پوچھتا ہے حقیقتاً یہ کسی نقطہ کی وضاحت ہوتی ہے جو کہ اس کے ذہن کے مطابق مقدمہ کے لئے ضروری ہے اور یہی طریقہ کار بڑی عدالتوں اور چھوٹی عدالتوں میں رائج ہے۔ وہاں کوئی وکیل عدالت میں غیر ضروری جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی جج کسی وکیل کے دلائل دینے کے عمل میں خواہ مخواہ مداخلت کرتا ہے۔ برطانیہ کے مشہور جج لارڈ Denningجو کہ برطانیہ کی عدلیہ کی تاریخ میں ایک بہت بڑا نام جانا جاتا ہے جو کورٹ آف اپیل میں طویل عرصہ تک ماسٹر آف رول (چیف جسٹس) بھی رہے ہیں۔ انہوں نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب Due Process of Law میں لکھا ہے کہ ہمارے پاس کورٹ آف اپیل میں ایک خاتون کی اپیل آئی جس میں اس نے بتایا کہ اس کی ایک رٹ پٹیشن ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھی۔ جج نے ایک گھنٹہ کی سماعت کے دوران اس کے وکیل کے دلائل توجہ سے سننے کی بجائے بار بار اُسے روک کر 100سوالات کئے جو کہ اس خاتون کی درخواست کے ساتھ درج تھے۔ خاتون کا مؤقف تھا کہ جج نے اس کے وکیل کے دلائل پر توجہ دیئے بغیر ہی کیس کا فیصلہ اس کے خلاف کر دیا۔ خاتون نے لکھا کہ براہ کرم اس کا مقدمہ دوبارہ سُنا جائے اور میرٹ پر فیصلہ ہونا چاہئے۔ جسٹس لارڈ Denningنے کہا کہ میں نے اس پر اپنے ساتھی ججوں سے بات کی معاملہ اُن کے سامنے رکھا یہ بالکل درست ہے کہ جج کو وکیل کے دلائل غور سے سننے چاہئیں تھے اور بلاوجہ مداخلت بلاجواز تھی۔ اس خاتون کی اپیل منظور کر لی گئی اور ہائی کورٹ کے جج کے متعلق نوٹ لکھا کہ اُس کے اتنے سوال پوچھنے کی وجہ سے مقدمہ کی سماعت درست نہیں ہو سکی۔ اس جج کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر دوبارہ سماعت کے لئے نئے جج کے سامنے پیش کر دی گئی ہے جس پر ہائی کورٹ کا وہ جج یہ کہہ کر مستعفی ہو گیا کہ کورٹ آف اپیل کی نظر میں میں جج رہنے کے قابل نہیں ہوں۔ جسٹس لارڈ Denning نے لکھا کہ اس کے بعد ہمارے پاس ایسی کوئی اور شکایت نہیں آئی جس سے یہ محسوس ہو کہ ججوں نے ایسا کوئی موقع وکلاء اور سائلوں کو دیا۔ جبکہ ہمارے ملک میں میں نے بطور وکیل اور جج یہ محسوس کیا ہے کہ مقدمہ کی سماعت یوں ہو رہی ہوتی ہے گویا وکیل اور جج میں کوئی ذاتی تنازعہ یا لڑائی ہو رہی ہے اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ وکیل کی حتی الوسع کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر قیمت پر فیصلہ اپنے حق میں حاصل کرے خواہ اُسے حقائق مسخ کر کے غلط بیانی کرنا پڑے۔ اور یہ صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ وکیل ہونے کے باوجود وہ صرف اپنے مقدمہ میں ہی دلچسپی رکھتا ہے جبکہ اُس کا پیشہ ورانہ تقاضہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ مقدمہ کا بالکل درست اور صحیح فیصلہ کرنے میں عدالت کی معاونت کرے نہ کہ اپنے مقاصد کے لئے عدالت کو گمراہ کیا جائے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔