مہذبانہ زبان میں صاف مطلب تھا کہ”بابو ہو گے تو اپنی گاڑی کے، یہاں میری جان پر بن آئی ہے اور تم سماج کی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے ہو“
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:275
ابھی وہ ٹھیک طرح فارغ بھی نہیں ہوتا کہ پیچھے نمکو، ٹافیاں، سونف سپاری اور علم غلم بیچنے والا بھی چلا آتا ہے اور اپنے حصے کا شور مچا کر اور حسب توفیق رزق کما کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ سرمہ اور عطر فروش بابا جی بھی اچانک کہیں سے نمودار ہو جاتے ہیں جو صرف ایک سلائی اور ننھی سی سرمے دانی سے ہر بگڑی تگڑی نظر کی واپسی کی ضمانت دیتے ہیں۔ایک دو لوگوں کی آنکھوں میں سلائی پھیرنے اور اس سرمے سے پڑی ہوئی ٹھنڈک کی گواہی لینے کے بعد وہ دو چار سرمے دانیاں بیچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تب ہی وہ اپنے اگلے آئٹم کو میدان میں اتار دیتا ہے۔ اس نے عطر میں ڈوبا ہوا روئی کا ایک پھا ہا بھی آس پاس ہی کہیں چھپا رکھا ہوتا ہے۔ اس کی تیز خوشبو زبردستی سنگھا کر وہ اپنا انتہائی قیمتی عطر،کمپنی کی مشہوری کے لیے 20 کے بجائے صرف 5روپے میں دینے پر رضامند ہو جاتا ہے۔
اس کا پیچھا کرتا ہوا ایک منجن فروش بھی آ دھمکتا ہے اور اب وہاں دندان سازی کی کلاس شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ ان کی باتوں پر ایمان لے آتے ہیں مگر اکثر مسافر ان کی نا پسندیدہ اور بیزار کر دینے والی مارکیٹنگ سے آوازار ہو کر باہر جھانکنے لگتے ہیں۔ اور یہی واحد طریقہ ہے جس سے ایسے ماحول میں تھوڑا بہت سکون ملتا ہے۔
ٹی ٹی بابو کی آمد
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔ اور پھروہ شیر دھم کرکے یکدم ڈبے میں کود آتا ہے۔ یہ گاڑی کا ٹکٹ چیکر یا ٹی ٹی بابو ہوتا ہے۔ جس کو دیکھ کر ہر طرف ایک ہا ہا کار مچ جاتی ہے لوگ سنبھل کر بیٹھ جاتے ہیں حتٰی کہ وہ بھی،جن کے پاس ٹکٹ موجود ہوتا ہے، لمحے پھرکو پریشان سے ہو جاتے ہیں اور اپنی جیبیں ٹٹولنے لگتے ہیں۔ غرض سارا عالم ہی ا س سے خوفزدہ رہتا ہے اور اگر کوئی نہیں ڈرتا تھا تو وہ بالو ماہیا کی عشقیہ داستان کی ہیروئن ”بالو“ تھی جو اپنے محبوب کو ڈبہ ڈبہ ڈھونڈتی پھرتی تھی، پھرنجانے کہاں سے نصیبوں مارا ٹی ٹی بابو اس کے سامنے آگیا اور اس کی تلاش کا سلسلہ لمحے بھر کو منقطع ہوا تو تب ہی اس نے وہیں کھڑے کھڑے یہ شاندار شعر گھڑا تھا،
گڈی آ گئی ٹیشن تے
پراں ہٹ مر بابو
سانوں ماہیا ویکھن دے
جس کا کچھ مہذبانہ زبان میں صاف صاف مطلب تھا کہ”بابو ہو گے تو اپنی گاڑی کے، یہاں میری جان پر بن آئی ہے اور تم سامنے سماج کی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے ہو“۔
بات ہو رہی تھی ٹی ٹی بابو کی۔ دودھ کی طرح دْھلے ہوئے سفید یونیفارم میں ملبوس اس شخص کو دیکھ کر کچھ لوگ ادھر اْدھر کھسکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اگر وہ پکڑے جاتے ہیں تو وہ ان سے ٹکٹ کی رقم وصول کرتا ہے اور اگر کوئی بے ٹکٹا مسافر حجت بھی کرتا ہے اور ان کی عملداری کو للکارتا بھی کرتا ہے تو وہ اس سے اچھا خاصہ جرمانہ بھی نکلوا لیتا ہے۔ یہ سب اس کی صوابدیدپر منحصر ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
