دفتر میں پری چہرہ نازنین بھی موجود تھی دیکھ کر میں پہلے ڈگمگا یا پھرگرتے بچا، حسینہ کی معنی خیز مسکراہٹ مجھے شرمندہ کر گئی، کافی نہ پینا حماقت تھی یا میرا شرمیلا پن
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:316
میرے پی ایس کی تو کوئی بات نہیں سنتا؛
ایک روز قاسم نون وزیر لیبر(ملتان)، ملک احمدخاں ایم پی اے(قصور)(آج کل وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر ہیں) مشتاق کیانی وزیر ہاؤسنگ(صاحب کے گرائیاں پنڈی کے رہنے والے تھے۔ائیر فورس کے سابق افسر)،ملک سعید احمد ایم پی اے(قصور)اور رشید بھٹی ایم پی اے(لاہور) صاحب سے ملنے آئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ٹی ایم او قصور ملک احمد خاں اور ملک سعید خاں کی بات نہیں سنتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہاں کا ناظم حکو متی پارٹی کے مخالف تھاور اس کا بھائی فوج میں بڑا افسر تھا۔صاحب نے ٹی ایم او کو اگلے روز صبح 10 بجے بلانے کا کہا۔ قاسم نون کہنے لگے؛”شہزاد صاحب!آپ کے کہنے پر وہ آ جائے گا کیا؟“ ایسی ہی بات ملک احمد خاں نے بھی کی۔ میں نے جواب دیا؛”سر! کل دس بجے یہاں ہو گا۔“ قاسم نون کہنے لگے؛”یار! میرے پی ایس کے کہنے پر تو کوئی افسر بات ہی نہیں سنتا۔“ مشتاق کیانی صاحب بھی ایسی ہی شکایت کر نے لگے۔ صاحب مسکراتے رہے۔ میں نے جواب دیا؛”سر! میں پیسے نہیں لیتا۔ دوسرا سر! فیلڈ افسروں کو علم ہے کہ یہاں بلائے جانے پر کوئی وگار نہیں ڈالی جائے گی۔“
خیر اگلے روز وقت مقررہ پر ٹی ایم او میرے دفتر پہنچ گیا۔ افسوس مجھے اس کا نام بھول گیا اچھا افسر تھا۔ کہنے لگے؛”سر! کیوں بلایا ہے۔“ میں نے وجہ بتائی۔ بولا؛”سر! ناظم صاحب ان لوگوں کے کام نہیں کرنا چاہتے۔“ اتنی دیر میں سبھی لوگ آ گئے۔ میں نے صاحب کو بتایا؛”سر! ٹی ایم اوآ چکے ہیں۔“ انہیں بلایا؛”صاحب نے پوچھا؛”ان کے کام کیوں نہیں کرتے۔ یہ منتخب نمائندے ہیں۔“ اس کاوہی جواب تھا جو مجھے بتا چکا تھا۔ خیر صاحب نے اسے سمجھایا؛”یہ دونوں عوامی نمائندے ہیں۔ ان کو ان کی due respect دینا آپ کا فرض ہے۔ چند دن بعد ناظم کو بھی بلا کر ایسا ہی پیغام دے دیا گیا تھا۔ ان کے معاملات ٹھیک ہو گئے تھے۔
قصہ ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کا؛
ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک ڈاکٹر امجد اور رشید بھٹی ایم پی اے کے درمیان زمین کے لین دین کا جھگڑا تھا۔ ڈاکٹر امجد نے ایک بڑی رقم رشید بھٹی کو دینی تھی۔ بات بہت آگے بڑھ کر لڑائی تک جا پہنچی تھی جس کی بھنک سی ایم کو بھی ہو گئی تھی۔ سی ایم نے صاحب کو بلا کر یہ تنازعہ ختم کرانے کا کہا۔ صاحب کی کوشش سے یہ تنازعہ باخوبی سلجھ گیا۔ صاحب نے مجھے ڈاکٹر امجد کے پاس کچھ دستاویزات دے کر بھیجا اور وہاں سے رقم کا چیک وصول کرکے لانے کا کہا۔ ”جیکسن ہائیٹ“مین بلیو وارڈ گلبرک ڈاکٹر امجد کے دفتر پہنچا۔ وہ شاید میرے انتظار میں تھے۔ ان کے دفتر میں ایک پری چہرہ نازنین بھی موجود تھی جسے دیکھ کر میں پہلے ڈگمگا یا پھرگرتے بچا اور ڈاکٹر امجد اور اس حسینہ کی معنی خیز مسکراہٹ مجھے شرمندہ کر گئی۔ میں نے دستاویزات ان کے حوالے کیں، سر بمہر لفافہ لیا اور اُن کے اصرار کے باوجود کافی پیئے بغیر دفتر سے یوں نکل گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں کافی نہ پینا حماقت تھی یا میرا شرمیلا پن۔ڈاکٹر امجد کی بیگم ڈاکٹر انجم امجد نہایت جاذب نظر خاتون(یہ سابق آئی جی پولیس سردار خاں کی صاحب زادی تھیں۔) ایم پی اے تھیں۔ بعد میں صوبائی وزیر بھی بنی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
