قائداعظم: شیعہ یا سنّی؟

Sep 11, 2012

قائداعظم محمد علی جناح کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے 63سال بعد پاکستان میں ان کے حوالے سے یہ بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ وہ شیعہ تھے یا سنّی ۔ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کی ٹارگٹ کلنگ پر آبدیدہ ہوکر ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھنا چاہیے ،بانی ءپاکستان شیعہ مسلمان تھے۔ان کا کہنا تھا کہ قائد نے باقاعدہ عدالت میں جا کر اپنے آپ کو اثناءعشری شیعہ کے طور پر رجسٹر کرایا تھا۔ان کی میت کو بھی ایک شیعہ غسال نے غسل دیا تھا اور ان کی رہائش گاہ پر ایک شیعہ مولوی صاحب نے نماز جنازہ بھی شیعہ طریقے کے مطابق پڑھائی تھی(جسے چند گنے چنے افراد نے ادا کیا تھا) ۔اس سب کا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ قائداعظم شیعہ تھے،اس لئے شیعہ حضرات کا قتل قائداعظم کا قتل ہے، اور(ظاہر ہے) قائداعظم کا قتل پاکستان کا قتل ہے۔ اس میں تو دورائیں نہیں ہو سکتیں کہ مسلک کی بنیاد پر جو لوگوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے، وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔اس کے لئے قائداعظم کو شیعہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قرآن کریم تو کسی بھی انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور اس کے مرتکب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی وعید سناتا ہے۔شیعہ اور سنّی تو ملت اسلامیہ کی دو آنکھیں ہیں، ان کو نشانہ بنانا تو کسی بھی مسلمان معاشرے میں دوہرا قتل قرار دیا جا سکتا ہے۔ خون ناحق پر غم و غصے کا اظہار ہم پر پاکستانی کے طور پر بھی واجب ہے اور انسان ہونے کے ناتے بھی لازم۔جناب الطاف حسین نے اس حوالے سے جو آواز بلندکی ہے، وہ ہم سب کے دل کی آواز ہے۔انہوں نے قومی جذبات کی بہت موثر انداز میں ترجمانی کی ہے، ان سے پہلے کسی سیاسی رہنما کو اس مسئلے کو اس شدت سے اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔اس پر ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے اور ان کو داد بھی دی جانی چاہیے۔شیعہ سنی کے نام پر پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے، اسے مسالک کا ٹکراﺅ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ معاشرے میں کسی بھی سطح پر ان کے درمیان کوئی تصادم دیکھنے میں نہیں آ رہا۔جو کچھ ہورہا ہے، وہ دہشت گردی ہے اور اس کے ذمہ دار خفیہ ہاتھ ہیں۔ان تک پہنچنا اور ان کو روکنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ شیعہ حضرات کے حق میں آواز اٹھانے کے لئے انہیں قائداعظم کا ”رشتہ دار“ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، پاکستان پر ان کا اتنا ہی حق ہے جتنا جناب الطاف حسین یا مجھ جیسے عاجز کا ہے۔ قائداعظم کے مسلک کے حوالے سے کوئی بات کہنا جس قدر مشکل ہے، اسی قدر آسان یہ ہے کہ انہیں وہی کہا جائے جو وہ خود کو کہتے اور جو کہلوانا پسند کرتے تھے۔وہ لفظ ایک ہی ہے ،مسلمان۔ قائد کی کسی ایک تقریر اور کسی ایک اقدام سے ان کا کوئی فرقہ یا مسلک متعین نہیں کیا جا سکتا۔ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں تو انہوں نے جواباً سوال کیا، رسول اللہ کیا تھے؟اور سوال کرنے والے چھینپ کر رہ گئے۔انہوں نے جب بھی نماز ادا کی،شہر کی جامعہ مسجد میں گئے عید پڑھنے عیدگاہ میں گئے۔نماز ادا کرتے ہوئے ان کی تصاویر موجود ہیں، سینے پر ان کے بندھے ہوئے ہاتھ صاف نظر آ رہے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ ان کا آبائی تعلق آغا خانی مسلک سے تھا، لیکن انہوں نے شاید اس لئے اس سے علی الاعلان ناتہ توڑاکہ آغا خانی حضرات اپنے زندہ امام کے پیروکار ہیں۔انگریزوں کے عہد میں آغا خان اگرچہ مسلمانوں کے حقوق کے حصول کے لئے قائدانہ کردار ادا کررہے تھے، تاہم ان کا ذہنی سانچہ اپنا تھا قائد اس مسلک سے وابستہ رہتے تو ”زندہ امام“ سے اختلاف ممکن نہ ہوپاتا، اس لئے انہوںنے (غالباً) آزادی ءاظہار و عمل کو یقینی بنانے کے لئے اپنا راستہ الگ کرنے کا اعلان ضروری سمجھا۔جہاں تک کوئی دوسرا مسلک اپنانے کی بات ہے تو اس کی کوئی واضح شہادت دستیاب نہیں ہے۔اس لئے کہ عدالت میں جا کر مسلک کی تبدیلی کے اعلان کا کوئی رواج یا روایت برصغیر میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ان کے کسی مستند سوانح نگار نے اس طرح کا کوئی واقعہ بیان نہیں کیا.... لیکن فرض کریں،یہ بات درست ہو تو بھی یہ حیات قائد کے بہت اولین دنوں کی بات بیان کی جاتی ہے،بعد میں ان کی جو سوچ اور جو رویہ سامنے آیا، وہ یہی تھا کہ وہ توڑنے اور کاٹنے پر نہیں جوڑنے اور ملانے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ روایت عام ہے کہ ان کی اہلیہ رتی نے اسلام ایک سنّی عالم کے ہاتھ پر قبول کیا تھا اور یہ بھی واضح ہے کہ ان کا نکاح جب رجسٹر کرایا گیا تو اس کے گواہ شیعہ دوست بھی تھے۔سب جانتے ہیں کہ قائد کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ان کے ذاتی عملے کے بعض افراد کی رائے تو یہ ہے کہ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ قائد کے قریبی احباب اور مسلم لیگ کے سینئرہنماﺅں میں شیعہ اور سنّی دونوں موجود تھے۔کئی اصحاب ایسے تھے کہ خودسنّی ہیں تو بیگم شیعہ اور خود شیعہ ہیں تو بیگم سنّی ....محترمہ فاطمہ جناح کی قریبی دوست بیگم غلام حسین ،ہدایت اللہ شیعہ تھیں، وہ قائد کے انتقال کے بعد گورنر جنرل ہاﺅس پہنچنے والی اولین شخصیات میں تھیں۔انہوں نے ان کے غسل کا اہتمام کیا اور اپنے شناسا غسال کو بلوالیا ہوگا۔بعض شیعہ حضرات نے نماز جنازہ کا الگ اہتمام وہیں کیا تو یہ ان کی مرضی۔قائد تو اس میں بہرحال ”شریک“ ًنہیں تھے۔اگر قائداعظم شیعہ ہوتے تو ان کا جنازہ علی الاعلان اسی مسلک کے مطابق پڑھایا جاتا۔ اس بحث سے یہ مقصود نہیں کہ قائداعظم کو لازماً سنّی ثابت کیا جائے۔وہ شیعہ ہوں یا سنّی ، قائداعظم تو سب کے تھے۔انہوں نے جو ملک بنایا، وہ بھی ان مسلمانوں کے لئے تھا،جن کی بہت بھاری اکثریت سنّی تھی(اور ہے) قائداعظم نے ہمیں مسالک اور فرقوں کی قید سے آزاد کرایا، ان سے اوپر اٹھا کر مسلمان بنایا۔مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک حاصل کرکے دکھایا، ان کو شیعہ یا سنّی کہہ کر پکارنا ان کے ساتھ تو ہے ہی ، اپنے ساتھ بھی زیادتی ہے۔وہ نہ شیعہ تھے ، نہ سنّی ....اور شیعہ بھی تھے اور سنّی بھی۔

مزیدخبریں