نفاذِ اردو کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ (1)

نفاذِ اردو کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ (1)
نفاذِ اردو کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آئینی درخواست نمبران 56/2003 اور 112/2012محمد کوکب اقبال بنام حکومت پاکستان بذریعہ سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن اسلام آباد
جواد ایس۔ خواجہ چیف جسٹس: آئین پاکستان کے آرٹیکل 183(3)کے تحت دائر کردہ ان دو آئینی درخواستوں میں ایک انتہائی اہم مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے جس کا براہ راست تعلق ہر اس عام شخص سے ہے جو پاکستان کا باسی ہے، یعنی آئین پاکستان کے آرٹیکل 251کا نفاذ، جس کا اولین مقصد ’’اردو زبان‘‘ کا بطور سرکاری زبان نفاذ اور قومی زبان کے متوازی صوبائی زبانوں کا فروغ ہے۔ زیر نظر درخواستوں کے درخواست گزاران عدالت میں بذات خود پیش ہوئے۔ جناب محمد کوکب اقبال آئینی درخواست نمبر56/2003اور جناب سید محمود اختر نقوی آئینی درخواست نمبر112/2012میں پیش ہوئے اور آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل 251کے نفاذ کی استدعا کی۔ مذکورہ آرٹیکل ریاست کو حکم دیتا ہے کہ اردو زبان کو ملک کی سرکاری زبان قرار دیا جائے نیز صوبائی حکومتوں کو بھی صوبائی زبانوں کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے کا ذمہ دیا گیا ہے۔ چونکہ دونوں آئینی درخواستوں میں یکساں استدعا تھی لہٰذا دونوں کی سماعت یکجا کی گئی۔


(2)چونکہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 251کے نفاذ سے متعلق ہے لہٰذا بغرض آسانی مذکورہ آرٹیکل کا متن ذیل میں دیا جا رہا ہے:


(۱) ’’قومی زبان:251(1)پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور آغاز سے پندرہ سال کے اندر اندر یہ انتظام کیا جائے گا کہ اس کو سرکاری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔


(۲) ذیلی دفعہ(۱) کے اندر رہتے ہوئے انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری زبان کے طور پر استعمال کی جا سکے گی جب تک اس کے انتظامات نہیں کئے جاتے کہ اس کی جگہ اردو لے لے۔


(۳) قومی زبان کے مرتبہ پر اثر انداز ہوئے بغیر ایک صوبائی اسمبلی بذریعہ قانون ایسے اقدامات کر سکتی ہے جس کے ذریعہ صوبائی زبان کے فروغ، تدریس اور قومی زبان کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کا بھی بندوبست کیا جا سکے۔‘‘



(۳) درخواست گزار جناب کوکب اقبال نے آئینی درخواست نمبر56/2003پر بحث کی اور بیان کیا کہ ریاست جان بوجھ کر آئین کے آرٹیکل 251کے نفاذ سے گریزاں ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں ایک ایسی معاشرتی اور لسانی تفریق پیدا ہو گئی ہے جو نہ صرف معاشرتی استحکام کے قیام کی راہ میں حائل ہے بلکہ معاشرتی نفاق بھی پیدا کر رہی ہے۔ بحث میں مزید بیان کیا گیا کہ اس آئینی شق کو آئین پاکستان کی منظوری کے 15برس کے دوران نافذ کیا جانا چاہئے تھا یہ میعاد 1988ء میں پوری ہو چکی ہے لیکن اب 27برس گزرنے کے باوجود مذکورہ لازمی آئینی شق کا نفاذ ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ دوسرے درخواست گزار سید محمود اختر نقوی نے اپنی آئینی درخواست نمبر112/2012میں بھی بعینہ یہی استدعا کی۔


(۴) اس مقام پر ہم انتہائی اہم معاملے کی آئینی اہمیت اجاگر کرنا چاہتے ہیں جسے مذکورہ درخواستوں میں اٹھایا گیا ہے اور جو مدعا علیہ کی نظر سے اوجھل معلوم ہوتا ہے۔ عدالت ہذا کے بہت سے فیصلہ جات میں قومی زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ تاہم یہاں ایک حالیہ فیصلے بعنوان ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی بنام وفاق پاکستان (آئینی درخواست نمبر12/2010ء وغیرہ کا) جس میں اٹھارویں اور اکیسویں ترامیم پر سوال اٹھایا گیا تھا، حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے میں عدالت نے آرٹیکل 251کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جس کا بخوبی اندازہ درج ذیل متن سے لگایا جا سکتا ہے:


’’یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 251میں درج آئینی تقاضا پورا کرنے کی خاطر اردو میں تحریر کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم آرٹیکل 251کے مندرجات کی اہمیت کی طرف توجہ دلا چکے ہیں اور سرکاری امور میں قومی زبان اور صوبائی زبانوں کی ترویج کی اہمیت کو اجاگر کر چکے ہیں۔ مقدمہ بعنوان حامد میر بنام وفاق پاکستان 2013 SCMR 1880)میں بھی ہم بیان کر چکے کہ ’’عدالتی کارروائی کی سماعت میں اکثر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں کی محنت شاقہ اور کئی بے نوانسلوں کی کاوشوں کے باوجود آج بھی انگریزی ہمارے ہاں بہت ہی کم لوگوں کی زبان ہے اور اکثر فاضل وکلاء اور جج صاحبان بھی اس میں اتنی مہارت نہیں رکھتے جتنی کہ درکار ہے


نتیجہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کے نسبتاً سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابل فہم ہوتے ہیں۔ یہ فنی پیچیدگی تو اپنی جگہ مگر آرٹیکل 251کے عدم نفاذ کا ایک پہلو اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔ ہمارا آئین پاکستان کے عوام کی اس خواہش کا عکاس ہے کہ وہ خود پر لاگو ہونے والے تمام قانونی ضوابط اور اپنے آئینی حقوق کی بابت صادر کئے گئے فیصلوں کو براہ راست سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکمران جب ان سے مخاطب ہوں تو ایک پرائی زبان میں نہیں بلکہ قومی یا صوبائی زبان میں گفتگو کریں۔ یہ نہ صرف عزت نفس کا مطالبہ ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور کا بھی تقاضا ہے۔ ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادر کرنا محض اتفاق نہیں یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔



تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یورپ میں ایک عرصے تک کلیسائی عدالتوں کا راج رہا جہاں شرع و قانون کا بیان صرف لاطینی زبان میں ہوتا تھا، جو راہبوں اور شہزادوں کے سوا کسی کی زبان نہیں تھی۔ یہاں برصغیر پاک و ہند میں آریائی عہد میں حکمران طبقے نے قانون کو سنسکرت کے حصار میں محدود کر دیا تاکہ برہمنوں، شاستریوں اور پنڈتوں کے سوا کسی کے پلے کچھ نہ پڑے۔ بعد میں درباری اور عدالتی زبان ایک عرصہ تک فارسی رہی جو بادشاہوں، قاضیوں اور رئیسوں کی تو زبان تھی لیکن عوام کی زبان نہ تھی۔ انگریزوں کے غلبے کے بعد لارڈ میکالے کی تہذیب دشمن سوچ کے زیر سایہ ہماری مقامی اور قومی زبانوں کی تحقیر کا ایک نیا باب شروع ہوا جو بدقسمتی سے آج تک جاری ہے اور جس کے نتیجہ میں ایک طبقاتی تفریق نے جنم لیا ہے جس نے ایک قلیل لیکن قوی اور غالب اقلیت (جو انگریزی جانتی ہے اور عنان حکومت سنبھالے ہوئے ہے) اور عوام الناس (جو انگریزی نہیں جانتے) کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا کر دی ہے جو کسی بھی طور قومی یکجہتی کے لئے سازگار نہیں۔ آئین پاکستان البتہ ہمارے عوام کے سیاسی اور تہذیبی شعور کا منہ بولتا ثبوت ہے، جنہوں نے آرٹیکل 251اور آرٹیکل 28میں محکومانہ سوچ کو خیر باد کہہ دیا ہے اور حکمرانوں کو بھی تحکمانہ رسم و رواج ترک کرنے اور سنت خادمانہ اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔ آئین کی تشریح سے متعلق فیصلے اردو میں سنانا یا کم از کم ان کے تراجم اردو میں کرانا اسی سلسلے کی ایک چھوٹی سی کڑی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اسی کڑی کو آگے بڑھانے کے لئے ایک شعبہ تراجم بھی قائم کیا ہے جو عدالتی فیصلوں کو عام فہم زبان میں منتقل کرتا ہے ۔‘‘ یہاں اس امر کا اعادہ نہایت ضروری ہے کہ یہ ہماری پسند نا پسند کا معاملہ نہیں اور نہ ہماری تن آسانی کا بلکہ یہ آئینی حکم ہے کہ اردو کو بطور سرکاری زبان اور برائے دیگر امور یقینی بنایا جائے اور صوبائی زبانوں کی ترویج کی جائے۔ اس مختصر تمہید کے بعد زیر نظر مقدمے کی طرف آتے ہیں۔‘‘
(۵)فی الواقع اس معاملے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن جس انداز میں حکومت پاکستان نے اس معاملے کو لیا ہے وہ بہت ہی سرسری اور غیر سنجیدہ ہے۔


(۶) صرف سال رواں کی مدت میں یہ معاملہ عدالت ہذا کے روبرو تقریباً 18مرتبہ سماعت کے لئے پیش کیا جا چکا ہے۔ تاہم عدالت کے اس مسئلے پر اس قدر گراں قدر وقت صرف کرنے کے باوجود کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔حتی کہ مورخہ12-05-2015کو ڈپٹی اٹارنی جنرل جناب عبدالرشید اعوان نے اپنی معذوری بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت پاکستان کے سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری انفارمیشن اور دیگر عہدیداران اس معاملے میں عدالتی احکامات پر توجہ نہیں دے رہے۔ اگرچہ بعدازاں بہت سی رپورٹیں پیش کی گئیں لیکن انتہائی افسوسناک امر ہے کہ مذکورہ رپورٹس اطمینان بخش نہیں ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متعلقہ حکام نے آرٹیکل 251میں مروجہ آئینی احکامات کے نفاذ کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے اور اب تک یہی حال ہے۔


(۷) گزشتہ سات ماہ کے دوران عدالت کی جانب سے جاری کردہ درج ذیل حکم ناموں کے طائرانہ جائزے سے ہی متعلقہ عمال حکومت کی آرٹیکل 251کے نفاذ کے معاملے سے عدم دلچسپی اور غیر سنجیدگی واضح ہو جاتی ہے۔


نمبرشمارحکم نامہ بتاریخ جائزہ


22-01-15 -1جناب عبدالرشید اعوان فاضل DAG نے مختصر بیان جمع کرانے کی استدعا کی۔


10-04-15 -2فاضل لاء افسر کوئی اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر ہے کہ آئینی شق سے کیا گیا انحراف تا حال درست کیوں نہ کیا جا سکا۔ تاخیر کی وجوہات جاننے کے لئے انہوں نے ایک مرتبہ پھر وقت مانگا ہے۔



23-04-15 -3فاضل لاء افسر نے ایک دفعہ پھر مزید جامع بیان داخل کرنے کے لئے وقت مانگا۔


30-04-15 -4فاضل لاء افسر نے ایک مرتبہ پھر مختصر بیان داخل کرنے کی غرض سے وقت مانگا۔


12-05-15 -5فاضل لاء افسر نے بیان کیا کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت پاکستان کے سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری انفارمیشن اور دیگر متعلقہ عہدیداران نے عدالت ہذا کے احکامات پر کان نہیں دھرے۔


13-05-15 -6فاضل اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور یقین دہانی کروائی کہ اگر حکومت کو کچھ اور وقت دیا جائے تو آئین کے آرٹیکل 251کے نفاذ سے متعلق ٹھوس تجاویز پیش کی جا سکتی ہیں۔


20-05-15 -7عدالت نے مشاہدہ کیا کہ وفاقی حکومت کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ فاضل DAGنے اپنی رپورٹ دائر کرنے کے لئے وقت مانگا۔ وفاقی حکومت پر 10,000/- کا ہرجانہ عائد کیا گیا۔


-8 02-06-15 احکامات کے باوجود وفاقی حکومت نے تاحال یہ واضح نہیں کیا کہ گزشتہ 42برس میں آئین کے آرٹیکل 251کے نفاذ کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں اور اگر نہیں تو اس نا اہلی کا ذمہ دار کون ہے؟


-9 05-06-15 عدالت نے مشاہدہ کیا کہ حکومت پنجاب پنجابی زبان کو اس کا مقام دلوانے میں ناکام رہی ہے اور اس زبان کو حصول علم کا ذریعہ بنانے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔


-10 11-06-15 سیکرٹری انفارمیشن نے بیان کیا کہ آئین کے آرٹیکل 251کے نفاذ کے لئے سمری مع تجاویز سیکرٹری کابینہ کو ارسال کی جا چکی ہے۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے رپورٹ جمع کروانے کے لئے مزید وقت مانگا


-11 02-07-15 کابینہ کا فیصلہ زیر تجویز ہے لہٰذا مقدمے کی سماعت ملتوی کی گئی۔


-12 10-07-15 کابینہ کا فیصلہ زیر تجویز ہے لہٰذا مقدمے کی سماعت ملتوی کی گئی۔


-13 11-08-15 سیکرٹری انفارمیشن نے بروئے مراسلہ بتاریخ 06-07-15اطلاع دی کہ حکومت کی جانب سے کچھ ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ جناب سکندر جاوید چیئرمین جی ۔ ای ۔ سی ۔ نے عدالت کو مطلع کیا کہ وزارت قانون نہ تو ان کی جانب سے ترتیب دی جانے والی قانونی لغت کی طباعت میں کوئی دلچسپی لے رہی ہے (جس کا مقصد قوانین کے اردو ترجمے کو آسان بنانا ہے) اور نہ ہی کوئی مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔


-14 18-08-15حکومت کی جانب سے ابھی تک تسلی بخش انتظامات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔


(۸) مذکورہ بالا حکم ناموں سے عیاں ہے کہ آئین کے احکامات کے نفاذ کے لئے زبانی خاطر جمع سے بڑھ کر کوئی ٹھوس عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ جیسے آئین کے آرٹیکل 251پر عمل نہ کرنے کا حق یا اجازت حاصل ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ آرٹیکل 251کی زبان پر غور کریں تو اس بارے میں کسی غلط فہمی کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کے متن میں لفظ ’’shall‘‘ کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس حکم پر عملدرآمد اختیاری یا کسی کی منشا کا پابند نہیں بلکہ یہ ایک لازمی امر ہے۔ لہٰذا آرٹیکل 251کی حکم عدولی کی کوئی گنجائش نہیں۔(جاری ہے)

مزید :

کالم -