امیر افضل اعوان:
اسلام دنیا کو دارفانی قرار دیتے ہوئے انسان کی مکمل راہنمائی کے ساتھ ساتھ اسے دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لئے ایک مکمل ضابطہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ اس دنیا کی کسی بھی چیز یا فرد کو دوام نہیں بلکہ یہاں آنے والے ہر ذی روح کو ایک نہ ایک دن یہاں سے رخصت ہوجانا ہے اور آئندہ آنے والی ابدی زندگی میں یہاں بسر کئے گئے روز و شب ، اعمال و افعال کی بنیاد پر ہی سزا اور جزاء سے نواز جائے گا۔ دنیاوی زندگی کے حوالہ سے قانون قدرت ہے کہ اسی قوم یا ملت کو عروج و کمال سے سرفراز کیا جاتا ہے جو کہ ثابت قدمی سے خود کو اس لائق ثابت کرئے۔ اس حوالہ سے کچھ خاص اسباب و عوامل ہیں کہ جن کا اختیار کرنا کسی بھی قوم و ملت کے لئے ضروی ہے اور ان میں کلمہ طیبہ کی صورت میں کئے جانے والے عہد سے وفایعنی توحید الٰہی اور محمد مجتبیٰؐ کی لائی ہوئی شریعت سے محبت اور اس کا عملی اظہار سرفہرست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ پاک کی مدد و نصرت صرف اسی صورت میں میسر آتی ہے کہ افراد امت توحید پر کاربند ہوجائیں، تعلیمات محمدی ؐ کو شعار بنالیں اور شرک ومعاصی سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی صرف انہی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہوں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کوئی شخص، قوم یا ملت توحید پر کاربند ہوئی تو نصرت خداوندی اس کی ہم رکاب رہی اور جب اللہ پاک کی نصرت و مدد میسر ہو تو پھر دنیا کی ساری قوتیں بھی ایک جانب ہوجائیں تب بھی کوئی آپ کا بال تک بیکا نہیں کرسکتا اور نہ ہی آپ کو کسی چیز کی کمی کا احساس ہوگا۔
قانون فطرت کے مطابق جب کوئی توحید کو اپنا اوڑھنا، بچھونا بنا لے تو قرآنی وعدوں کے مظاہر بھی بچشم خود دیکھے جاسکتے ہیں۔ پھر نہ تو دشمن کے ہتھکنڈے کسی کام کے رہتے ہیں اور نہ ہی اغیار کی شان و شوکت اور رعب ودبدبہ مسلمانوں پر غلبہ پاسکتا ہے۔ نصرت خداوندی کے حوالہ سے قرآن کریم میں فرمایا جارہا ہے کہ
مدد تو اللہ کی طرف سے ہے جو غالب و حکمت والا ہے۔(ال عمران)
یعنی اللہ پاک کے سوا کسی کی مدد کوئی معنی نہیں رکھتی اور مددتو صرف اللہ رب العزت کی طرف سے ہی ہے۔ قرآن مجید میں دنیاوی قوتوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کفارکے حوالہ سے بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا جارہا ہے کہ
(کافر تمہارے خیرخواہ نہیں) بلکہ تمہارا خیرخواہ تو اللہ ہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور مقام پر مزید واضح کردیا گیا کہ اللہ کے سوا کوئی مدد کرنے والا ہے کہ نہیں؟
اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری مدد کیا کریں گے وہ تو اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے۔(الاعراف)
اس معاملہ کی حقیقت سے پردہ کشائی کرتے ہوئے اللہ پاک خود ارشاد فرماہیں کہ
اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، اور اگر وہ تمہیں بے سہارا چھوڑ دے تو پھر کون ایسا ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کر سکے؟ اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا جارہا ہے کہ
بے شک اللہ ان کے ساتھ ہے جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں۔(النحل)
غور فرمائیے کہ ان آیات قرآنی میں ایک آفاقی سچائی اور قانون قدرت کو کس قدر وضاحت کے ساتھ پیش کردیا گیاکہ کہیں بھی کسی شخص کے لئے کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔
دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں اللہ رب العزت نے عہد وفا نبھانے والوں کو ہمیشہ اپنی مدد ونصرت سے سیراب کیااور دونوں جہانوں میں کامیابی وکامرانی ان کا مقدر بن گئی جب کہ اس عہد سے روگردانی کرنے والوں کودنیانے اپنے قدموں تلے روند ڈالا اور ان میں سے بیشتر کا تو نام بھی داستانوں میں باقی نہیں اور جن کا ذکر تاریخ میں موجود ہے انہیں آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اللہ پاک سے عہد وفا نبھانے اور دین پر کاربند رہنے والوں بارے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں جو بھلے کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔(التوبۃ)
اسی باب میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے کہ
اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔(محمدؐ)
اس آیت مبارکہ میں اس ازلی قانون فطرت کی وضاحت کردی گئی کہ اگر دین کے راستے پر ثابت قدمی سے کاربند رہا جائے گا تو نصرت خداوندی کچھ دور نہیں۔ اس حوالہ سے یہ بھی فر مایاگیا ہے کہ
جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے۔(الحج)
اللہ پاک نے اپنی نصرت کے حوالہ سے اہل ایمان اور دیگر اقوام و افراد کی تفریق واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ
بلاشبہ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور پرہیزگاروں کا دوست اللہ ہے۔(الجاثیۃ)
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا جارہا ہے کہ
ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے۔(الروم)
غور فرمائیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے از خود مومنوں کی مدد کو اپنے اوپر لازم قرار دیدیا ہے اور اگر نصرت خداوندی نصیب بن جائے تو بھلا کسی اور بات یا چیز کی ضرورت ہی کب باقی رہتی ہے۔
قرآن پاک میں کامیابی و کامرانی کا نسخہ کیمیا بیان کردیا گیا ہے کہ اللہ پاک کی نصرت کے بغیر کامیابی کا کوئی تصور نہیں اور اللہ پاک کی مدد صرف دین حق پر کاربند رہنے سے ہی میسر آئے گی اور وہ جنہوں نے اس امر کو جھٹلایا ان کے لئے درد ناک عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ اس حوالہ سے اللہ پاک کا فرمان ہے کہ
اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ ان کے لیے کوئی سفارش قبول ہو گی اور نہ اس کی طرف سے بدلہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔(البقرۃ)
اسی حوالہ سے ایک اور مقام پر فرمایا جارہا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز بنا رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ (بھی اپنا ایک) گھر بناتی ہے، بلاشبہ مکڑی کا گھر سب گھروں سے زیادہ بودا ہوتا ہے، کاش انھیں (اس حقیقت کا) علم ہوتا۔(العنکبوت)
اللہ حاکم و خالق حقیقی کی طاقت ، قوت اور اختیار بارے ایک جگہ کہا جارہا ہے کہ
آسمانوں اور زمین کی حکومت اللہ ہی کے لئے ہے وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست اور مددگار نہیں۔(التوبۃ)
روز آخرت میں اللہ تعالیٰ کی نصرت بارے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
یقیناًہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے، اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہونگے۔(غافر)
منکرین کے حوالہ سے بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ
اور انہیں کہا جائے گا کہ آج ہم تمہیں ایسے ہی بھلا دیں گے جیسے تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا اور اب تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور تمہارا کوئی مددگار بھی نہیں۔(الجاثیۃ)
ان آیات مبارکہ میں دنیا و آخرت میں اللہ پاک کی نصرت بارے تفصیلی بیان کردیا گیا تاکہ اس سے راہنمائی لے کر انسان اپنی دنیا و آخرت کو سنوار سکے۔
اسلام میں نصرت خداوندی کو ز مین میں اصلاح اور مومنوں کی امداد سے مشروط کیا گیا ہے۔ اس حوالہ سے ایک حدیث مبارکہ میں مذکور ہے سیدنا انسt سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ
اپنے ظالم یا مظلوم بھائی کی مدد کرو، ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ!میں تو جب کوئی مظلوم ہوتا ہے اس کی مدد کرتا ہوں، تو فرمائیے کہ ظالم کی مدد کس طرح کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ تو اسے ظلم کرنے سے روک دے یہی اس کی مدد ہے۔ (صحیح بخاری)
رسول کریم ؐ نے بارہا مسلمانوں کی امداد پر زور دیا ، ایک اورحدیث پاک میں اسماعیل بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہؓ اور حضرت ابوطلحہ بن سہل الانصاریؓ دونوں کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:
کوئی آدمی ایسا نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو رسوا کرے ایسی جگہ کہ جہاں اس کی عزت و حرمت لوٹی جارہی ہو اور اس کی آبرو کم کی جا رہی ہو مگر یہ کہ اللہ اسے ایسے موقع پر رسوا فرمائیں گے جہاں وہ اس کی مدد چاہتا ہوگا۔ اور کوئی آدمی ایسا نہیں جو کسی مسلمان کی مدد کرے ایسی جگہ جہاں اس کی عزت کم کی جارہی ہو، اور اس کی آبرو لوٹی جارہی ہو مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی ایسے مقام میں مدد فرمائیں گے جہاں وہ اللہ کی مدد چاہتا ہو گا۔ (سنن ابوداود)
غور فرمائیے کہ کسی مسلمان کی امداد کی کس قدر اہمیت بیان کی گئی ہے۔
سیدنا سالم اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ
مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی مشکل کے وقت اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت(شرعی، اخلاقی) پوری کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ اس کی حاجت روائی میں لگے رہتے ہیں اور جو کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کرتا ہے اللہ اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی تکالیف میں سے ایک تکلیف دور فرمائیں گے اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ (سنن ابوداود)
اس حدیث پاک میں بڑی وضاحت کے ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ کسی مسلمان کی تکلیف دور کرنے اور اس کی حا جت روائی کو مقدم رکھنے والے مسلمان کی دنیا و آخرت میں مدد کی جائے گی۔ ایک اور حدیث پاک میں اس حوالہ سے منقول ہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے لہٰذا وہ اس کے ساتھ خیانت کا معاملہ نہ کرے، جھوٹ نہ بولے اور اسے اپنی مدد ونصرت سے محروم نہ کرے۔ ہر مسلمان کی دوسرے مسلمان پر عزت، ومال اور خون حرام ہے، تقوی یہاں ہے یعنی دل (آپؐ نے اشارہ کیا) کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (جامع ترمذی)
ان آیات و احادیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ اللہ پاک کی مدد شامل حال نہ ہو تو دنیا و آخرت میں کامیابی کا کوئی تصور نہیں اور مسلمانوں کا توحید الٰہی کو اپنا کر شریعت محمدی ؐ کو اپنے تمام معاملات میں صحابہ کرام کی طرح اپنانا ہی دونوں جہانوں میں کامیابی کا ضامن ہے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے دین حق پر کاربند رہتے ہوئے صرط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے اور کبھی بھی اپنی مدد سے محروم نہ رکھے۔ آمین!