نندی پور دو افسروں کی لڑائی کی بھینٹ چڑھا

نندی پور دو افسروں کی لڑائی کی بھینٹ چڑھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب میں نیب کی پھرتیوں کی آہٹ شروع تو ہوئی ہے۔ لیکن دبی دبی ہے۔ ویسے تو یہ خبر بھی آئی ہے کہ اپنے رانا مشہود کے خلاف بھی کارروائی شروع ہوئی ہے۔ لیکن خبر میں دم نظر نہیں آیا۔ ایسے ہی اشک شوئی لگ رہی تھی۔ اپنے رانا مشہود بھی ایسے ہی دوبارہ پھنس رہے ہیں۔ حالانکہ اس معاملے میں وہ پہلے کلیئر ہو چکے ہیں۔ امید یہی ہے کہ رانا مشہود اس بار بھی کلیئر ہو جائیں گے۔ جس یٹپ کا ذکر ہے رانا مشہود کے پاس اس کی با قاعدہ فورنزک رپورٹ موجود ہے۔ کہ وہ جوڑ جوڑ کر ٹیمپر کر کے بنائی گئی تھی۔ الفاظ گفتگو میں پکڑ پکڑ کر جوڑے گئے تھے۔ اس کے ساتھ یہ ٹیپ جس کے ساتھ ہے وہ خود بھی مفرور ہے۔ وہ گواہی دینے کے لئے نیب کے پاس نہیں آسکتا۔ وہ تو خود بھی مطلوب ہے۔ اور ملک سے فرار ہے۔ اس لئے ایک عام تاثر یہی ہے کہ رانا مشہود ایک بار پھر بچ جائیں گے۔ بس ذرا مشکل کے چند دن ان کے لئے دوبارہ آگئے ہیں۔


سندھ میں نیب اور د یگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کے بعد دوسری جماعتوں اور دوسرے صوبوں کی جانب سے یہ سیاسی دباؤ ہے کہ پنجاب میں بھی نیب اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاسی کارروائی کریں۔ اسی دباؤ میں رانا مشہود کا نام آیا ہے۔ ان پر یہ الزام نہیں ہے کہ انہوں نے سرکار کو کوئی نقصان پہنچا یا ہے۔ ان پر یہ الزام بھی نہیں ہے کہ انہوں نے سرکاری فنڈز میں خورد برد کی ہے۔ نہ ہی کوئی غلط بھرتی کی ہے۔ نہ ہی کوئی غیر قانونی کام کیا ہے۔ نہ ہی وہ کسی بھی قسم کے جرم میں شریک ہیں۔ نہ کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق ہے۔ نہ ہی انہوں نے منی لانڈرنگ کی ہے۔نہ ہی کسی کالعدم تنظیم سے تعلق ہے۔ ان پر الزام کا نیشنل ایکشن پلان سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی شور بہت ہے۔ جس کے حوالے سے ان پر الزام ہے وہ تو خود مجرم اور مفرور ہے۔ لیکن پھر بھی رانا مشہود پر سختی ہے۔ اس پر مجھے بچپن کے بہت سے واقعات ذہن میں آتے ہیں۔ ہم سب کزن جب اکٹھے ہو تے تھے۔ تو ایک کزن بہت شرارتی تھا۔ اس کی شرارتوں کی وجہ سے اکثر اس کو ڈانٹ اور مار بھی پڑ جاتی تھی۔ لیکن جب اس کو ڈانٹ اور مار پڑتی تھی۔ تو ہم ساتھ والوں کو بے وجہ ہی ڈانٹ پڑ جاتی تھی۔ حالانکہ قصور اس اکیلے کا ہی ہو تا تھا۔ بس بیلنس کرنے اور یہ نہ لگے کہ اس اکیلے کو ڈانٹ پڑی ہے ساتھ والوں کو بھی ڈانٹ دیا جا تا تھا۔ یہ اپنے رانا مشہود کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے کہ جنہوں نے کچھ کیا ہے وہ تو پکڑ ے جا رہے ہیں۔ لیکن رانا مشہود کو بیلنس کرنے کے لئے جکڑا جا رہا ہے۔ اس کو کہا جا تا ہے کہ بس اللہ کی طرف سے آئی ہوئی تھی۔


نندی پور پر وزیر اعظم نے سپیشل آڈٹ کا حکم دے دیا ہے۔ نندی پور پر بھی بہت شور ہے ۔ اپوزیشن کی جماعتیں اسے مسلم لیگ (ن) کے میگا سکینڈل کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ ٹاک شوز اور گفتگو میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ بہت لوٹ کھسوٹ ہوئی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس میگا سکینڈل سے فی الحال بھاگ نہیں رہی۔ شرجیل میمن کی طرح کوئی ملک سے بھی نہیں بھاگ رہا ۔ کسی نے حفاظتی ضمانت بھی نہیں کروائی۔ کسی کو کسی ادارے کی کارروائی پر اعتراض بھی نہیں ہے۔ مخبری اور چڑیا کی خبر تو یہی ہے نندی پور دو اعلیٰ افسران کی لڑائی کی وجہ سے نا کام ہوا۔ دونوں افسران نندی پور کو چلانے کا ٹھیکہ اپنی اپنی من پسند کی کمپنی کو دینا چاہتے تھے۔ بس یہی اختلاف نندی پور کو لے بیٹھا۔ جب چار ماہ تک یہ دونوں اعلیٰ افسران ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ جس کے نتیجہ میں منصوبہ سرخ فیتے کا شکار ہو گیا۔ تو ملک کے حکمران بس تماشہ دیکھتے رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب یہ دونوں افسران پھنس جائیں گے۔ لیکن یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ اس سپیشل آڈٹ اور وزیر اعظم کو اس طرف متوجہ کرنے میں ڈاکٹر مصدق کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے کان بھرے ہیں کہ دیکھیں نندی پور بند پڑا ہے۔ آپ کی حکومت اس سکینڈل میں پھنس جائے گی۔ کچھ کریں ۔ او ر آڈٹ شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر مصدق ملک کو اس کی سزا ضرور ملے گی۔ وہ پہلے بھی لیسکو کے معاملہ میں وزارت پانی و بجلی کے عتاب کا شکار ہیں۔ لگتا ہے عتاب مزید بڑھ جائے گا۔ لیکن شائد وہ بھی کشتیاں جلا چکے ہیں۔ لیکن معاملہ کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی نندی پور پر نیب کو کارروائی کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔
کیسا خوبصورت منظر نامہ ہے۔ کہ نیشنل ایکشن پلان کی مرکزی میٹنگ میں جہاں سب موجود تھے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نیب او ر ایف آئی اے کی شکائت کررہے تھے۔ کہ ان کے صوبے میں یہ ادارے بلا وجہ کارروائی کر رہے ہیں ۔ ان کارروائیوں میں ان کو اعتماد میں نہیں لیا جا تا۔ جبکہ دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے صوبے میں نیب کو آوازیں لگا لگا کر بلا رہے ہیں۔ کہ آؤ کارروائی کرو۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں بار بار کہا کہ میں تو بار بار نیب سے مطالبہ کر رہا ہوں۔ کہ آؤ کارر وائی کرو ۔ مگر وہ کر ہی نہیں رہے۔ دوسری طرف سندھ میں علی نواز شاہ کی سزا نے بھی ہلکا سا زلزلہ پیدا کیا ہے۔ اور اب یہ مطالبہ بھی ہو گا کہ پنجاب میں بھی سزا دی جائے۔ بس سندھ اور پنجاب کے درمیان یہی مقابلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔

مزید :

کالم -