دلی میں امن مذاکرات، پنجاب رینجرز اور بی ایس ایف مصروف؟
تجزیہ : چودھری خادم حسین:
جس روز پنجاب رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل کی قیادت میں رینجرز کا وفد نئی دہلی پہنچا کہ سیز فائر (جنگ بندی) معاہدے کی خلاف ورزیوں پر بات کی جائے، اسی روز اسلام آبادمیں نیو کلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کا اجلاس وزیر اعظم کی صدارت میں ہوا۔ رینجرز کا وفد تو بی ایس ایف (بارڈر سکیورٹی فورس) کے ساتھ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر بات چیت کر رہا ہے، ادھر اسلام آباد کے اجلاس کا پیغام ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے۔ ایٹمی پھیلاؤ میں یقین نہیں رکھتا لیکن ملکی دفاع کے لئے کم از کم اور زیادہ سے زیادہ ایٹمی تحفظ کا اہتمام ضرور رکھے گا اور اسی ضرورت کے مطابق چھوٹے ہتھیار تیار ہوں گے۔ یہ پیغام کھلا اور واضح ہے ۔
دوسری طرف بھارتی مبصرین نے تعصب کے باوجود اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ الزام اور جوابی الزام کے باوجود یہ ملاقات اور مذاکرات بہت زیادہ کامیاب نہ بھی ہوئے تو ناکام نہیں ہوں گے۔ بہرحال حالات کے مطابق ہر دو اطراف سے کشیدگی کم کرنے کی گنجائش موجود ہے اور امکانی طور پر اس کانفرنس سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی میں کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ ان مذاکرات کی کامیابی ہی خطے کے امن کے لئے بہتر ہے کہ اس سے مزید بات چیت کے امکان پیدا ہوں گے۔ امن بہر صورت دونوں کی ضرورت ہے مودی جتنے بھی انتہا پسند ہوں بطور وزیر اعظم ان کی ذمہ داریاں مختلف ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں ۔
یہ جو بیک ڈور ڈپلومیسی ہے یہ بھی عجب شے ہے پہلی مرتبہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے یہ نام اور اس کا کام سامنے آیا لیکن اب یہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی مفاہمت دکھانے لگی ہے، دوبئی میں پیپلزپارٹی کے اہم راہنماؤں کا اجلاس ہونا قرار پایا تو اس سے قبل پارلیمانی استعفوں کی درفنطنی چھوڑ ی گئی اور پھر اجلاس کا اختتام پارلیمنٹ اور جمہوریت کے تحفظ کے اقدامات پر ہوا، پہلی پوزیشن کے حوالے سے لاہور میں بلاول بھٹو نے بھی اپنے ارادے آشکار کئے اور مفاہمت کی جگہ مزاحمت کا اعلان کیا۔ اسی دوران دوبئی اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ تو پھوپھو فریال تالپور دوبئی سے لاہور آ کر بلاول کے بائیں طرف بیٹھ گئیں اور پارٹی کی خارجی اور داخلی حکمت عملی کی تصویر کشی کرنے والی ماہر سابق وزیر اور سفیر شیری رحمان بھی آ گئیں۔ عبدالرحمٰن ملک کی ضرورت شاید اسلام آباد میں زیادہ تھی، البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ پارلیمان کے تحفظ کی بات کرنے والے پاسبان سید خورشید شاہ میڈیا میں تو نظر آئے دوبئی اور لاہور میں نہیں تھے۔ بہرحال وہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کے حق میں ہیں اور آخری فیصلہ انہی کے مطابق ہوا۔
اب بلاول کے لئے ’’مزاحمت‘‘ پھر سے مسئلہ بن گئی کہ بیک ڈور رابطوں نے آگ پر پانی ڈال دیا اور سہ طرفہ نرمی نظر آنے لگی۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ احتساب کے قائل ہوئے اور جنرل راحیل شریف کی کھلم کھلا تعریف کرنے لگے۔ اب بلاول پھوپھو اور مشیران(والد کی طرف سے) کی موجودگی میں ملنے والوں کو تسلی دینے کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔بہرحال ایک بات ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے کرپشن سے برائت کا اعلان کیا تو سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف بھی بول پڑے، کرپشن فری پارٹی کہنے لگے اور یہ مطالبہ داغ دیا کہ پیپلزپارٹی کے راہنماؤں کے خلاف کرپشن کے کیسوں کا جلد فیصلہ کیا جائے۔ ان کو شاید یہ خدشہ ہے کہ اگر الزام رہے تو پارٹی میں گنجائش نہ ہوگی کہ فیصلہ یہی ہونا ہے کہ کرپشن والے پہلے اپنی صفائی کا سرٹیفکیٹ لے آئیں۔ حالانکہ راجہ پرویز اشرف تو اس وقت پیپلزپارٹی (پارلیمینٹرین) کے سیکرٹری جنرل ہیں وہ مخدوم امین فہیم کی شدید علالت کی وجہ سے صدر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی(پارلیمینٹرین) ہی کے ٹکٹ پر اراکین ایوانوں میں ہیں۔بلاول بھٹو کا دورہ لاہور ملاقاتوں اور سننے پر محیط رہا۔ سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب پیپلزپارٹی کی قیادت نے جو نام دیئے ان کو بلایا گیا اور اب سنٹرل پنجاب کے اضلاع کے لئے بھی یہی کچھ ہو گا۔ اب بلاول کیا کریں ان کو ابھی انہی عہدیداروں سے گذارہ کرنا ہے اور یہ تو ایسے ہیں کہ بلاول بھٹو کے مشیر بشیر ریاض کی عدم موجودگی اور جہانگیر بدر کی غیر حاضری بھی محسوس نہیں ہونے دیتے بلاول ابھی تک جہانگیر بدر کے گھر تک نہیں گئے جو اب بحریہ ٹاؤن سے تھوڑے فاصلے پر ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دورہ معلوماتی رہا، اضلاع کے دورے پارٹی کو جگانے کے لئے ہوں گے۔