ایرانی جوہری معاہدے کے 2 خفیہ مسودوں کی موجودگی کا انکشاف
دبئی (اے این این) ایرانی ارکان پارلیمنٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ایران اور مغرب کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے کے دو اعلانیہ مسودوں کے ساتھ ساتھ دو خفیہ مسودے بھی موجود ہیں ،حکومت اور مذاکرات کاروں نے انہیں پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا۔ عرب میڈیا کے مطابق جوہری معاہدے کے آئینی پہلوؤں پر غور وخوض کیلئے پارلیمنٹ کی 15 رکنی کمیٹی نے حال ہی میں پارلیمینٹ کے اجلاس میں گرما گرم تقاریر کے ساتھ کئی ایسے نکات بھی اٹھائے جن پر حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا جاسکا ہے۔ ایران کے جوہری تنازع کے سابق مذاکرات کار اور رکن پارلیمنٹ سعید جلیلی نے اجلاس کے دوران کہا کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے دوران ایران کو ذلیل اور رسوا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی چال بازوں نے ایران پر ایسی ایسی شرائط مسلط کردی ہیں جن پر عمل درآمد تہران کے لیے گھاٹے کا سودا ہے۔ سعید جلیلی نے کہا کہ ایران اور مغرب کے درمیان طے پائے معاہدے میں واضح طور پر عدم توازن موجود ہے۔ صدر حسن روحانی کو بتانا چاہیے کہ معاہدے کے تحت ہمیں کیا ملا اور مغرب کو کیا دیا گیا ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں کچھ حقائق بھی بیان کیے اور کہا کہ ہم نے 20 ہزار سے زائد سینٹری فیوجز تیار کرلیے تھے۔ آراک میں بھاری پانی کے ری ایکٹر پر 86 فی صد کام مکمل ہوچکا تھا، فردو ری ایکٹر یورینیم افزودگی کے مرحلے میں تھا جب کہ تہران میں اٹامک میڈیکل ریسرچ ری ایکٹر سے پیداوار بھی شروع ہوچکی تھی۔ مذاکرات سے قبل ہم نے "ریڈیو آیسوٹوپ" تیار کرلیا تھا۔ اس کے علاوہ 418 کلوگرام یورینیم درجہ 20 اور 7000 کلو گرام کو 5 فی صد تک تیار کرلیا گیا تھا، لیکن حکومت نے مغرب سے مذاکرات کے دوران ان تمام پروجیکٹ سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے بنا بنایا کام بگاڑ دیا ہے۔
سابق مذاکرات کار نے مغرب اور تہران کے درمیان سمجھوتے کا ایک اورنقطہ اعتراض اٹھایا اور کہا کہ ایران کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ 20 فی صد سے زیادہ یورینیم افزودہ نہیں کرسکتا ہے۔ یورینیم کی افزودگی کی حد بیس فی صد مقرر کرکے ایران کے ساتھ کھلم کھلا زیادتی کی گئی ہے کیونکہ دنیا کا اور ایسا کوئی ملک نہیں جس پر اس طرح کی پابندیاں عاید کی گئی ہوں۔ امریکا کی جانب سے تہران کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے بارے میں سعد جلیلی نے کہا کہ امریکا کبھی بھی تہران پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرتا مگر ہماری حکومت امریکی دھمکیوں کے دباؤ میں آگئی تھی۔ امریکا ایران سے جوہری معاہدہ کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہا تھا تاکہ تہران پر عاید اقتصادی پابندیوں کو بتدریج ختم کیا جا سکے۔
ایران کی مجلس شوریٰ میں جوہری معاہدے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے قائم کردہ کمیٹی میں شامل ایک دوسرے رکن محمود نبویان نے دعویٰ کیا ہے کہ مغرب اور ایران کے دورمیان سمجھوتے کے کل چار مسودے تیار کیے گئے ہیں۔ ان میں سے دو کو منظرعام پر لایا گیا جب کہ دو کو سامنے نہیں لایا گیا ہے۔
نبویان نے کہا کہ ہم نے جوہری معاہدے کے خفیہ مسودوں کے بارے میں ایرانی جوہری توانائی ایجنسی کے چیئرمین علی اکبر صالحی اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی سے بات کی تو انہوں نے اعتراف کیا کہ مغرب اور ایران کے درمیان معاہدے کے چار میں سے دو مسودے خفیہ رکھے گئے ہیں۔ یہ دونوں مسودے ابھی تک ایرانی پارلیمنٹ یا اس کی کسی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں کیے گئے ہیں۔