’’صائمہ۔۔۔!‘‘ میں نے زور سے آواز دی۔ خالی گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ ہم دونوں نے سارا گھر دیکھ لیا لیکن صائمہ وہاں نہیں تھی۔ پریشانی سے مریا برا حال تھا۔ میں پاگلوں کی طرح اسے ایک ایک کمرے میں تلاش کر رہا تھا۔ محمد شریف اوپر کی منزل پر دیکھنے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آکر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’محمد شریف ! اب کیا ہوگا، وہ خبیث صائمہ کو کہاں لے گیا؟‘‘
’’آپ فکر نہ کریں مجھے جائے نماز دے دیں میں ایک چھوٹا سا وظیفہ کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس نے کہا۔
میں نے بیڈ روم میں ہی جائے نماز بچھا دی۔ وہ آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے لگا۔ میں سارے گھر میں چکراتا رہا۔ میرا دل بھر آیا۔ وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بار بار صائمہ کا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا۔ بچوں کی وجہ سے میں اسے اکیلا اس لعنتی کے رحم و کرم پر چھوڑ تو گیا تھا اب پچھتاوے مجھے گھیر رہے تھے۔ لیکن میں کیا کرتا اگر بچوں کو اس وقت لے کر نہ جاتا تو ہو سکتا تھا مومنہ کو خدانخواستہ کچھ ہو جاتا۔ وہ بری طرح خوفزدہ ہوگئی تھی۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر85 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’خان بھائی!‘‘ محمد شریف میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے آنسوؤں سے تر آنکھوں سے اسے دیکھا۔
’’وہ صائمہ کو لے کر ایک ہندو پنڈت کی پناہ میں چلا گیا ہے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’وہ بدبخت ضرور صائمہ کو کالی داس کے پاس لے گیا ہوگا‘‘ میں نے خیال ظاہر کیا۔
’’ہاں وہ وہیں گیا ہے۔‘‘ محمد شریف نے تصدیق کی۔
’’اب کیا ہوگا محمد شریف؟‘‘ میں نے پریشانی سے پوچھا۔
’’آپ فکر نہ کریں جناب! اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا۔ آپ کسی طرح ملنگ کو تلاش کرکے اس سے اس جگہ کا پتا پوچھیں میں جب تک گھر سے کچھ ضروری سامان لے آؤں اس کے بعد اس خبیث سے نبٹ لیتے ہیں‘‘ محمد شریف نے مجھے تسلی دی۔ میں خاموشی سے اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ اسے بینک چھوڑ کر میں ملنگ کی تلاش میں نکل گیا۔ اسے تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ میں اسی سڑک پر جا رہا تھا جہاں ایک دوبارہ میری ملنگ سے ملاقات ہوئی تھی۔
’’پریم! کہاں جا رہے ہو؟‘‘ پیچھیسے رادھا کی آواز آئی۔ میں بری طرح اچھل پڑا، جلدی سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ رادھا پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ میں نے گاڑی ایک طرف کرکے روک دی۔ رادھا کے چہرے پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔
’’رادھا وہ خبیث صائمہ۔۔۔‘‘
’’جانتی ہوں پریم! میں یہ بھی جانتی ہوں وہ تمری پتنی کہاں لے گیا ہے؟‘‘ وہ میری بات کاٹ کر بولی۔
’’تم جانتی ہو تو مجھے بتاؤ۔۔۔میں اس حرامزادے کو جان سے مار دوں گا‘‘ طیش سے میرا برا حال ہوگیا۔
’’شانت رہو پریم! میں اوش تمہیں وہاں لے جاؤں گی پرنتو اس سے پہلے کچھ پربند کرنا ہوگا۔ کالی داس نے میری شکتی بارے غلط و چار کیا ہے وہ بھول گیا ہے کہ میں نے اس کی کیا دشا بنا دی تھی؟‘‘ وہ دانت پیس کر بولی۔
’’پریم ! اس نے تمہیں نہیں ۔۔۔مجھے دکھ دیا۔ اس پاپی نے کشٹ تمہاری پتنی کو نہیں مجھے دیا ہے اور جو کوئی رادھا کو کشٹ دیتا ہے رادھا کا شراپ اسے سنسار میں سکھی نہیں رہنے دیتا۔ یدی تم اس سمے اس دھشٹ کو شما نہ کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا‘‘ اس نے کہا۔
’’لیکن تم کہاں چلی گئی تھیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں اس کارن اپنی شکتی بڑھا رہی تھی، جانتی تھی کالی داس چپ نہ بیٹھے گا۔ مجھے کشٹ دینے کا وچار تو وہ اپنے من میں نہیں لا سکتا اور وہ پاپی یہ بھی جانتا ہے کہ میں تمری رکھشا کر رہی ہوں۔ کیول تمری پتنی رہ جاتی ہے۔ مجھے پوراوشواس تھا کہ وہ جرور تمری پنتی کو کشٹ دے گا۔ اسی کارن میں سات دن کا ایک جاپ کر ہی تھی۔ جیسے وہ کھتم ہوا میں آگئی ہوں‘‘ اسنے تفصیل سے بتایا۔
’’رادھا! جلدی سے اس جگہ چلو جہاں وہ خبیث صائمہ کو لے کر گیا ہے‘‘ مجھے وہاں پہنچنے کی جلدی تھی۔
’’موہن! وہ پاپی جان بوجھ کر تمری پتنی کو وہاں لے کر گیا ہے ۔ کالی داس نے اپنے متروں سے بنتی کی ہے کہ وہ اس کی سہائتا کریں۔ سات بچاری اس کی بنتی کو سوئیکار کرکے اس کی سہائتا کرنے پہنچ چکے ہیں۔ باقی سب تو ایسے ہی میں کیول مجھے چنتا ایک پچاری کی ہے۔ اس کا نام وشنوداس ہے۔۔۔جس نے اپنا سمے کڑی تپسیا میں بتایا ہے۔ وہ ادیھک شاستر اور وید(جادوگری) جانتا ہے اس سے یدھ کرنے کے کارن ہمیں بھی کچھ پربند کرنا ہوگا۔‘‘ رادھا نے مجھے سمجھایا۔
’’تم مجھے صرف تسلیاں دے رہی ہو تم نہیں جانتیں میرے دل پر کیا بیت رہی ہے؟ میری بیوی ان حرامزادوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور میں آرام سے یہاں بیٹھا رہوں‘‘ رادھا کی کی بات سن کر میں پھٹ پڑا۔
’’موہن! جانتی تمرے من کا حال۔۔۔پرنتو مجھے واشوس ہے وشنو داس جیادہ سمے کالی داس کیا ستھان پر نہیں ٹک سکتا۔ اسے پوجا پاٹ کے کارن بہت سارے استھانوں پر جانا ہوتا ہے۔ کیول دو دن انتجار کر لو جیسے ہی وشنو داس گیا میں تمہیں کھبر کر دوں گی‘‘ اس نے ناراض ہونے کے بجائے مجھے سمجھایا۔
’’تم جو اتنے سارے جاپ کرتی رہتی ہو ان کا کیا فائدہ؟ اگر تم میری بیوی کو بازیاب کرانے میں میری مدد نہیں کر سکتیں تو مہربانی کرکے مجھے وہ جگہ بتا دو میں خود ہی چلا جاتا ہوں‘‘ میرے جومنہ میں آیا کہتا چلا گیا۔ صائمہ کی جدائی نے میرے ہوش و حواس چھین لیے تھے۔
’’موہن! اس سمے تمرے من کی جو دشا ہے اس کی جانکاری ہے مجھے پرنتو میں یہ بھی جانتی ہوں اس سمے وہاں جانا ٹھیک نہیں ہے۔ کالی داس جانتا ہے تم تر نت وہاں آؤ گے اور اس پاپی کی اچھا بھی یہی ہے کہ تم اس کے جال میں آجاؤ۔ پرنتو اس سمے وہاں جانے سے تم اپنی پتنی کو اور جیادہ کشٹ میں ڈال دو گے‘‘ اس نے رسان سے مجھے سمجھایا۔
’’پھر۔۔۔پھر کیا کروں، کیا صائمہ کو ان حرامیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں؟‘‘ غصے سے میرا برا حال ہوگیا۔
’’یہ میں نے کب کہا؟ پرنتو اس سمے بدھی سے کام لینا ہوگا۔ کالی داس نے یہ سب کچھ اسی کارن کیا ہے کہ تم اپنی پتنی کے کارن بیاکل ہو کر وہاں پہنچ جاؤ اور وہ اپنی شکتی کے جور سے تمرا بلیدان کالی ماتا کے چرنوں میں کر دے‘‘ میں بل کھا کر رہ گیا۔
’’کیول دو دن اور انتجار کر لو اس کے بعد یکھنا میں ان پاپیوں کا کیسے سروناش کرتی ہوں؟‘‘ اس نے ایک بار پھر مجھے نرمی سے سمجھایا۔ میں نے اس کی بات کو کئی جواب نہ دیا۔ مجھے خاموش پا کر وہ بولی۔
’’من تو نہیں کرتا اس کڑے سمے تمہیں اکیلا چھوڑ کر جاؤں پرنتو میرا جانا بہت جروری ہے مجھے کچھ پربند کرنا ہے‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’جاؤ۔۔۔جاؤ۔۔۔تم بھی چلی جاؤ میری بربادی میں اب کوئی کسر نہیں رہ گئی‘‘ میری آواز بھرا گئی۔ اس نے اداسی سے میری طرف دیکھا اورنظروں سے اوجھل ہوگئی۔ میں دوبارہ بینک چلا گیا۔ ہر چیز مجھے کاٹنے کو دوڑ رہی تھی۔ محمد شریف ابھی نہیں آیا تھا۔ عمران اندر آگیا۔ میری حالت دیکھ کر اس نے دروازہ بند کیا اورمیرے سامنے کرسی پربیٹھ گیا۔
’’کیا بات ہے خان بھائی؟خیریت توہے؟‘‘ اس نے آہستہ سے پوچھا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بھرآیا۔ میں نے جلدی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ لیکن اس نے میری آنکھوں میں آنسو دیکھ لیے تھے۔جلدی سے اٹھ کر میرے پاس آگیا۔
’’خان بھائی! آپ بتاتے کیوں نہیں؟ سب خیریت ہے نا؟‘‘ کچھ دیر خود کو سنبھالنے کے بعد میں نے اسے اب تک پیش آنے والے سارے واقعات بتا دیئے۔ وہ حیرت سے منہ کھولے سنتا رہا۔
’’خان بھائی! اتنا کچھ ہوگیا اور آپ نے مجھ کچھ بھی نہ بتایا۔ کیا میں اتنا غیر ہوں آپ کے لئے؟‘ اس نے دکھ سے کہا۔
’’میری تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔اتنے مصائب پڑے کہ میری عقل گم ہوگئی‘‘ میں نے سب کچھ اس لئے عمران کے بتا دیا تھا کہ اگر میں دل کا بوجھ ہلکا نہ کرتا توہو سکتا تھا میری دماغ کی شریان پھٹ جاتی۔ وہ سر جھکائے کچھ دیر بیٹھا رہا۔
’’اب کیا ہوگا خان بھائی؟‘‘ اسنے فکر مندی سے پوچھا۔
’’محمد شریف کا انتظار کر رہا ہوں وہ آئے تو کچھ پتا چلے۔ ملنگ تو نہیں ملا ہاں رادھا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ خبیث جن صائمہ کو کالی داس کے ٹھکانے پر لے گیا ہے‘‘ میں نے کہا۔ ایک بات یہاں واضح کر دوں کہ میں عمران سے کافی ساری باتیں چھپا گیا تھا۔ ورنہ وہ کیا سوچتا میں کتنا بدکار ہوں؟ رادھا کے بارے میں میں نے اسے بتایا تھا کہ وہ اسی گھر میں میری دوست بنی ہے وہ ایسا بھلے مانس تھا کہ زیادہ کریدنا اس کی عادت نہ تھی۔ ہم دونوں خاموشی سے سرجھکائے بیٹھے ہوئے تھے۔ چھٹی ہونے میں تھوڑی دیر رہ گئی تھی۔ مجھے بچوں کی فکر بھی تھی۔ خاص کر مومنہ بہت بری طرح اپ سیٹ تھی۔ محمد شریف چھٹی ہونے کے تھوڑی دیر بعد آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا۔
’’چلیں۔۔۔؟‘‘ میں اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’خان بھائی! آج رات میں آپ کے گھر گزاروں گا مجھے ایک وظیفہ کرنا ہے۔ مراقبے سے معلوم ہوا ہے کہ ان شیطانوں نے اکٹھے ہو کرمقابلہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ باقیوں کی تومجھے اتنی فکر نہیں لیکن ان میں سے ایک شخص جادوکا ماہر ہے اس سے نبٹنا ذرا مشکل ہے۔ اسکے لئے دو راتیں مسلسل پڑھائی کرنا ہوگی‘‘ اسنے کہا۔
رادھا نے بھی یہی کہاتھا کہ وشنو داس نام کاایک پجاری ہے جو اپنے کام میں ماہر ہے۔ وہ چلا جائے تو باقی لوگوں کووہ دیکھ لے گی۔ محمد شریف بھی وہی کچھ کہہ رہا تھا۔(جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر87 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں