الیاس شاکر مرحوم
الیاس شاکر کو ہر معاملہ میں جلد بازی ہوا کرتی تھی۔ حیدرآباد شہر جلد بازی میں چھوڑا، کراچی چلے گئے اور اب دنیا کو بھی جلد بازی میں چھوڑ دیا۔ وہ دھن اورکام کے دھتی تھے۔ شرط یہ ہوتی تھی کہ ان کے دماغ میں کچھ سما جائے۔ اس پر عمل درآمد میں تاخیر نہیں کیا کرتے تھے۔ حیدرآباد سے کراچی جاکر انہوں نے شام کے اخبار آغاز میں ملازمت اختیار کی ۔ کچھ عرصہ بعد لاہور جا کر ضیاء شاہد سے اخبار شائع کرنے کے گر سیکھنا ، جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ تھا ۔ ضیا ء شاہد اس زمانے میں ہفت روزہ صحافت شائع کیا کرتے تھے ۔ الیاس کو کسی بات اور کسی بھی کام کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا تھا بس مقصد کا حصول پیش نظر ہوتا تھا۔ لاہور سے واپس آکر کراچی میں روزنامہ نوائے وقت میں رپورٹر کی حیثیت سے ملازمت صرف اس لئے نہیں کی تھی کہ انہیں روز گار چاہئے تھا۔
ان پر تو بس خبط سوار تھا کہ اپنا اخبار نکال سکیں۔ اپنی اس خواہش کو انہوں نے اس وقت تک اپنے دل کے کسی کونے میں چھپا کر رکھا جب تک قومی اخبار کا ڈیکلیئریشن حاصل نہیں کر لیا۔ نوائے وقت کے دور میں تو اپنا کام کاج ختم کر کے روزنامہ مساوات کے پریس میں جا کر فرش پر اخباری کاغذ بچھا کر سو جانے میں انہیں کوئی تکلف نہیں ہوا کرتا تھا ۔ جب انہوں نے کراچی سے روزنامہ قومی اخبار شائع کرنے کا فیصلہ کیا تو ڈیکلیئریشن کا حصول مشکل ہوا کرتا تھا۔ ڈیکلیئریشن کے حصول کے لئے سفارش پر سفارش کرانا پڑی کیوں کہ فائل گھومتا پھرتا جنرل ضیاء تک جاتا تھا ، ان کی منظوری کے بعد متعلقہ دفاتر دفتری کارروائی کیا کرتے تھے۔ مرحوم پیر پگارو کی پریس کانفرنسوں کے علاوہ ان سے ملاقاتوں کے لئے جانا کار گر ثابت ہوا اور مرحوم پیر صاحب نے سفارش کی تو قومی اخبار کا ڈیکلیئریشن ممکن ہو سکا۔ الیاس کی قمیض میں جیب تو تھی جو سرمایہ سے خالی تھی۔ دوست احباب کے سامنے منصوبہ رکھا اور تعاون حاصل کیا ۔ اخباری صنعت کے گڑھ آئی آئی چندریگر روڈ پر ایک عمارت میں دفتر حاصل کیا۔ ساتھ کام کرنے والوں کو جمع کیا ۔ کراچی کے معروف صحافی انور سن رائے اخبار کے عملاً پہلے مدیر مقرر ہوئے۔
کراچی سے شام کا اخبار نکالنا ، وہ بھی سرمایہ کے بغیر، صلاحیتوں اور تعلقات کا امتحان تھا۔ الیاس کا ذہن خوب کام کرتا تھا۔ انہوں نے ایسے اشتہارات کو جگہ دی جو کوئی شائع نہیں کیا کرتا تھا کہ شائع کرانے والوں کی خواہش کے باوجود ان کے پاس پیسے نہیں ہوا کرتے تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی مصنوعات کو ہینڈ بل کے ذریعہ مشتہر کیا کرتے تھے ۔ الیاس نے ایسے لوگوں کو اخبار کو صرف وہ رقم ادا کرنے کی پیشکش کی جو وہ ہینڈ بل چھپوانے پر خرچ کیا کرتے تھے ۔ دوسری طرف قومی اخبار شائع ہونا شروع ہوا تو اخبارات کو ہاکروں میں تقسیم کرنے والے نیوز پیپر ایجنٹ اس وجہ سے تیار نہیں تھے کہ ان کا قیاس تھا کہ شام کا ایک اور اخبار کیوں کر فروخت ہو سکے گا۔الیاس کو ایجنٹ حضرات کی خوشامد کرنا پڑی۔ حیدرآباد میں کراچی سے اخبار کا بنڈل ریل گاڑی کے ذریعہ آیا تو نیوز پیپر ایجنٹ سید مشتاق علی بنڈل کھولنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔
الیاس کے ساتھ میرا تعلق اس وقت قائم ہوگیا تھا جب حیدرآباد میں لیاقت میڈیکل اسپتال میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کو ناکام بنانے کے لئے ہم نے ساتھ کام کیا تھا ۔ اس کے بعد ہم نے ساتھ مل کر ہفت روزہ منزل شائع کیا۔ یہ ڈیکلیئریشن میرے نام تھا ۔ اس کے دو ہی شماروں کے بعد ہمیں اندازہ ہو گیا کہ حیدرآباد سے اخبار اور کوئی جریدہ بوجوہ شائع کرنا آسان نہیں ہے۔ بہر حال قومی اخبار شائع کرنے کے بعد الیاس نے مجھے کہا کہ مشتاق صاحب سے بنڈل تو کھلوا دو۔ بنڈل آتے تھے جو وہ کھولا نہیں کرتے تھے ۔ مشتاق صاحب کی خوشامد کرنا پڑی تو وہ رضا مند ہوگئے اور انہوں نے اخبار شہر کے اسٹالوں پر رکھ دیا۔ کراچی اور حیدرآباد میں اخبار کو پذیرائی حاصل ہو گئی حالانکہ اس وقت (آج بھی) کراچی میں اخبارات کی دنیا میں قدم رکھنا آسان کام نہیں تھا۔
قومی اخبار اپنی پالیسی کے اعتبار سے سب کا اخبار تصور کیا جاتا تھا، لیکن اخبار بنیادی طور پر کراچی اور حیدرآباد کا ترجمان تھا۔ ایک وقت کے بعد اخبار کے اداریہ والی جگہ پر یہ لکھا جانے لگا کہ’’ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کا وکیل‘‘۔ یہ آج بھی اخبار میں شائع ہوتا ہے۔ اکتوبر 1994 میں ایک دن کی سرخی تھی ’’لیاقت آباد کا محاصرہ، گھر گھر تلاشی‘‘۔ آٹھ کالم کی سرخی تھی اور ذ یلی سرخیاں الگ جن میں صورت حال کا تفصیلی تذکرہ تھا۔ یہ ترجمان ہونے کی ایک معمولی مثال ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ قومی اخبار ہی شہریوں کے اخبار کا درجہ رکھتا تھا۔ یہ وقت وہ تھا جب ٹی وی چینل نہیں ہوا کرتے تھے ۔ قارئین ہر خبر کے لئے اخبار کا انتظار کیا کرتے تھے ۔ اہم خبروں پر مبنی ضمیمہ ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہونا عام سی بات تھی۔ قومی اخبار ان کی رگوں میں پیوست تھا۔ ایک کوتاہی کے پیش نظر اخبار میں غلط خبر شائع ہو گئی تھی۔ کراچی میں اس وقت ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا۔ سزا کے طور پر اخبار کو زبردستی بند کرا دیا گیا۔
ڈان اخبار میں علیم الدین پٹھان رپورٹر تھے، انہوں نے معاملات کو حل کرانے کی کوشش کی تو شرط یہ عائد کی گئی کہ الیاس سر پر ٹوپی رکھ کر حاضری بھریں گے اور ٹوپی قدموں میں رکھ دیں گے۔ الیاس نے یہ بھی کیا ،تاکہ ان کا ’’ قومی اخبار‘‘ شائع ہوسکے۔ قومی اخبار کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے بعد الیاس شاکر نے دوسرے اخبارات اور جرائد بھی شائع کئے ۔ مختار عاقل جو جرأت اخبار شائع کیا کرتے تھے وہ الیاس نے ہی شائع کرنا شروع کیا تھا ۔ روزنامہ جدت، روزنامہ حق پرست، اور جرائد وغیرہ ۔ ابھی بھی قومی اخبار کا ادارہ شام کو ہی ایک اور اخبار ریاست بھی شائع کرتا ہے جس کی فروخت ہوتی ہے اور قارئین موجود ہیں۔ قومی اخبار کی کامیابی کے بعد کراچی کے ایک بڑے اخباری ادارے نے شام کا ایک روزنامہ عوام شائع کرنا شروع کیا۔ الیاس نے جم کر مقابلہ کیا۔ ایک اور تجربہ کار اخباری مالک نے انور سن رائے کی ادارت میں شام کا پبلک اخبار شروع کیا، اس سے بھی قومی اخبار کا مقابلہ ہوا۔ پبلک کے مدیر انور سن رائے مقرر ہوئے تھے، لیکن قومی اخبار کو نقصان نہیں پہنچا سکے۔ ایک اور ادارے نے شام کا اخبار انصاف ٹائمز شروع کیا جسے ادارے نے کچھ عر صے بعد لپیٹ دیا ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اخبار میں بیک وقت 46 کاموں کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ قومی اخبار کا اپنا پریس بھی موجود ہے۔
بحیثیت انسان ان میں خصوصیات اور خامیاں موجود تھیں، لیکن جس کے دوست بن گئے، اس کے ساتھ نباہ کیا کرتے تھے اور جس کے مخالف ہوگئے تو بہت دور تک چلے جایا کرتے تھے۔ خود مجھے تجربہ ہوا۔ حیدرآباد پریس کلب کے ایک دفعہ انتخابات کے موقع پر حیدرآباد میں قومی اخبار بیورو سے وابستہ بعض دوستوں کو میری کسی بات پر غلط فہمی ہوگئی، انہوں نے الیاس کو اتنا کچھ سنا دیا کہ وہ میرے خلاف خبریں شائع کرانے لگے۔ میں وہ شخص تھا جس کے بارے میں اس واقعہ سے قبل انہوں نے اپنے اخبار میں اداریہ کی جگہ ’’ مین آف دی ایئر ‘‘ قرار دیا تھا اور تعریفی الفاظ تحریر کئے تھے ۔ سارے تعلقات پل بھر میں پلٹ گئے۔
انہیں اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کا پاس تھا ، اس لئے ان کی باتوں پر اعتبار کر لیا ۔ بہت مدت کے بعد ہمارے تعلقات بحال ہوئے جو آخری وقت تک قائم رہے۔ وہ بیماری کی وجہ سے گوشہ نشیں اور تنہائی پسند ہو گئے تھے ۔ احباب سے ملنا جلنا ترک کر دیا تھا۔ فون پر جب بھی گفتگو ہوتی تو کہا کرتے تھے کہ دعا کریں ۔ انہیں شائد اپنی دائمی روانگی کا احساس ہو چلا تھا۔ معمولی تجارت پیشہ والدین کی یہ اولاد روزگار کی تلاش سے مبرا ہو کر شناخت کی تلاش میں تھا جو اسے روزنامہ قومی اخبار نکال کر خوب حاصل ہوئی، انہوں نے پیسہ کمایا، نام کمایا، شہرت کمائی ۔ روزنامہ قومی اخبار ان کی نشانی ہے، ان کے اہل خانہ کو اخبار قائم رکھنا چاہئے اور اسے مزید تناور بنانا چاہئے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے ۔