قائداعظمؒ کا آخری سفر
پروفیسر سید وقار عظیم
11اور 12ستمبر کی درمیانی رات تھی۔ کوئی سوا دو بجے کسی نے میرے دروازے پر دستک دی۔ میں گھبرا کر اٹھا اور باہر آیا تو دیکھا کہ میرے ایک ہمسائے کھڑے ہیں۔ ان کے حیران و پریشان چہرے کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ کوئی بری خبر لائے ہیں۔ دل نے کہا کہ الہی خیر۔ دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا اور میرے ہمسائے اب بھی خاموش کھڑے تھے۔ آخر انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنے دل پر قابو پا کر تھرائی ہوئی آواز میں کہا:
’’قائداعظمؒ چل بسے‘‘۔ انا للہ و اناالیہ راجعون
اس چند سیکنڈ کے سکوت نے میرے دل میں طرح طرح کے وحشت ناک خیال پیدا کیے تھے لیکن یہ بھیانک خبر سننے کے لیے تیار نہ تھا۔ آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے۔ تھوڑی سی دیر میں خبر سارے محلے میں پھیل گئی اور ہر عورت‘ مرد اور بچے نے اس خبر کو اس طرح سنا جیسے قائداعظمؒ کی وفات اس کا اپنا غم ہے۔
صبح جاگ کر کاٹی گئی ۔ فجر کی نماز کے بعد سب نے قائداعظمؒ مرحوم کی مغفرت کے لیے دعائیں مانگیں۔ جو لوگ قرآن پڑھ سکتے تھے انہوں نے ثواب کی خاطر تلاوت کی۔ صبح ساڑھے سات بجے ریڈیو پاکستان نے اس غم انگیز خبر کا اعلان کیا اور یہ خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ فوراً شہر کی ساری دوکانیں بند کر دی گئیں اور شہر کے ہر گوشے سے گورنر جنرل ہاؤس کی طرف جانے والی سڑکوں پر لوگوں کی قطاریں نظر آنے لگیں۔ ان قطاروں میں بے جان‘ بے سکت بوڑھے بھی تھے اور کمزور اور ناتواں عورتیں بھی۔ ان میں سے ہر ایک اپنے محبوب قائد کی یاد پر آنسوؤں کے موتی نچھاور کرتا‘ اس کے آخری دیدار کے اشتیاق میں اس طرف جا رہا تھا جہاں انہیں آزادی دلانے والا ان کے حال سے بے خبر ابدی سکون کی نیند سو رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں یہ قطاریں ہجوم میں بدل گئیں اور رفتہ رفتہ ہجوم ایک سیلاب میں بدل گیا‘ جسے کسی کی یاد کی کشش اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ دیکھتے دیکھتے گورنمنٹ ہاؤس کے وسیع و عریض میدانوں کے چپہ چپہ پر اس کے صدر دروازے کے سامنے کی سڑک پر آدمی ہی آدمی اکٹھے ہو گئے۔ گورنمنٹ ہاؤس میں موٹروں اور گاڑیوں کا تانتا بندھ گیا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت کے وزیر ‘ غیر ملکی حکومتوں کے سفیر‘ شہر کے شریف و امیر سب یکے بعد دیگرے آرہے تھے ‘ اور پاکستان کی سب سے عظیم المرتبت شخصیت کی خدمت میں اپنے غم کا خراج پیش کر رہے تھے۔ باہر کھڑے ہوئے تقریباً دو لاکھ عقیدت مندوں میں سے ہر ایک قائداعظمؒ مرحوم کا آخری دیدار کرنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ اس کا انتظام کیا گیا۔ قائداعظمؒ کے محبوب جسم کو گورنر جنرل ہاؤس کے صدر ہال میں رکھ دیا گیا اور لوگوں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ قطار در قطار اس کے قریب سے گزر کر آخری دیدا ر کی حسرت پوری کر لیں۔ لوگ ہال میں داخل ہوئے اور ایک کے پیچھے ایک میت کے قریب سے گزرنے لگے۔ میت کا چہرہ کھلا ہوا تھا اور اس کے سکون اور نور کو دیکھ کر صرف یہ خیال ہو سکتا تھا کہ قوم کے غم میں زندہ رہنے والا کام کرتے کرتے تھک کر سو گیا ہے۔ نیند بھر جائے گی تو اٹھے گا اور پھر اپنے کاموں میں لگ جائے گا۔ کتنی قابل رشک تھی یہ موت!
دیکھنے والے پورے دو گھنٹے تک اسی طرح گزرتے رہے۔ آنسوؤں کے موتی نچھاور کرتے رہے‘ دوسروں کے لیے جگہ خالی کرتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ حکومت کے وہ وزیر جو 13مہینے تک حکومت کا بھاری بوجھ اٹھانے میں اپنے رہنما کے شریک رہے تھے‘ ادھر اُدھر کھڑے یہ غم ناک منظر دیکھ رہے تھے اور بغیر اس لحاظ کے کہ گزرنے والے انہیں اشکبار دیکھ کر کیا کہیں گے‘ رو رہے تھے اس لیے کہ سوائے رونے کے اس وقت اور کوئی چارہ نہ تھا۔
میت کے جلوس کی روانگی کے لیے 3بجے دن کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔ 3بجنے سے کچھ پہلے‘ وزیراعظم لیاقت علی خاں‘ سر محمد ظفر اللہ خاں‘ سردار عبدالرب نشتر‘ آنریبل جوگندر ناتھ منڈل‘ پیر زادہ عبدالستار اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے جنازہ کو صدر ہال سے اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھا اور ہر زبان نے کلمۂ طیبہ کا ورد شروع کر دیا۔ لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ (نہیں ہے کوئی خدا‘ سوائے اللہ کے اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں)۔
قوم کے اکابر جب اس امانت کو اپنے کاندھوں پر رکھے ہوئے باہر نکلے جو خدا نے اب دنیا والوں سے واپس لے لی تھی تو باہر کھڑے ہوئے ہزاروں انسانوں کو ضبط کے یارا نہ رہا اور ہر ایک بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ جنازہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور گورنر جنرل ہاؤس کے سر دروازے تک پہنچا۔ سرکاری رسوم کو پورا کرنے کی خاطر جنازے کو توپ کے اوپر رکھ دیا گیا‘ اور دو تین لاکھ آوازوں نے پوری قوت سے ’’قائداعظمؒ زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا۔ سچ مچ قائداعظمؒ مرے نہیں وہ زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی چھوڑی ہوئی یادگار سدا ان کا نام زندہ رکھے گی۔ پاکستان زندہ باد! قائداعظمؒ زندہ باد!
جنازہ توپ پر رکھا جا چکا تو پاکستان کے بحریہ کے سفید پوش سپاہیوں نے آہستہ آہستہ اسے آگے بڑھانا شروع کیا جنازے کے آگے سب سے پہلے وردیوں میں پولیس کے پچاس سپاہی تھے‘ ان کے پیچھے بحریہ کے پچاس جوان‘ اور اس کے بعد علی الترتیب بری اور ہوائی فوجوں کے پچاس پچاس سپاہی اور ا س کے پیچھے گورنر جنرل کے باڈی گارڈ کے سواروں کا دستہ جنازے کے دائیں بائیں حکومت کے وزراء ا س کے پیچھے قائداعظمؒ مرحوم کی دل شکستہ بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ اور مرحوم کی صاحبزادی مسز وادیا کی موٹر‘ اس کے بعد کی موٹر میں بیگم ہدایت اللہ اور ان کے پیچھے دو لاکھ آدمیوں کا ہجوم‘ یہ سارا جلوس بڑی خاموشی سے سوا تین بجے کے قریب گورنر جنرل ہاؤ س کے صدر دروازہ سے روانہ ہوا۔ وکٹوریہ روڈ‘ الفنسٹن اسٹریٹ‘ گارڈن روڈ اوربندر روڈ سے ہوتا ہوا نمائش کے میدان میں پہنچا۔ کوئی ڈھائی میل کے اس راستہ کے دونوں طرف سڑکوں پر ‘ بالا خانوں کی کھڑکیوں اور چھتوں پر‘ اور درختوں پر لاکھوں آدمی اپنے مرحوم و مغفور رہنما کا آخری دیدا کرنے اور ا س کے محبوب جسم کو آخری سلام کرنے کے لیے گھنٹوں پہلے اکٹھے ہو گئے تھے۔ دو لاکھ آدمیوں کا یہ ماتمی اور سوگوار جلوس جن جن سڑکوں سے گزرتا جاتا‘ سڑکوں کے کناروں پر کھڑے ہوئے لوگ اس جلوس کے پیچھے شریک ہوتے جاتے۔ اس طرح رفتہ رفتہ یہ دو لاکھ آدمی چار لاکھ ہو گئے۔ ان چار لاکھ سوگواروں میں ہر عمر‘ ہر جنس‘ ہر طبقہ اور ہر ملت کے لوگ شامل تھے‘ عورتیں ‘ مرد ‘بچے‘ بوڑھے‘ غریب سے غریب اور امیر سے امیر ‘ مسلمان ‘ ہندو‘ یہودی‘ عیسائی اور پارسی اور سب کے دل قوم کے اس عظیم غم کو اپنا غم سمجھ رہے تھے۔ ہر دل سوگوار تھا اور ہر آنکھ اشکبار اور ان کا محبوب دلوں کی کیفیت سے بے خبر اپنے گہوارہ میں پڑا سو رہا تھا اور اس کا یہ شاندار جلوس اسے اس کی آرام گاہ کی طرف لیے جا رہا تھا۔ ساڑھے چار بجے جلوس نمائش کے میدان میں پہنچا اور یہاں سے دو حصوں میں بٹ گیا۔ آگے آگے چلنے والے سپاہیوں اور فوجیوں کے دستے اور گورنر جنرل کے باڈی گارڈ کے سوار‘ قوم کی قیمتی دولت انہیں سونپ کر آگے بڑھ گئے اور جنازہ داھنی طرف مڑ کر نمائش کے میدان میں پہنچ گیا‘ جہاں ایک لاکھ آدمی پہلے سے اپنے محبوب قائد کے آخری استقبال کے لیے جمع تھے۔ ایک لاکھ کے اس ہجوم نے جنازہ دیکھتے ہی اللہ اکبر کا فلک شگاف نعرہ لگایا‘ اور کانوں نے اس روح کو گرما دینے والے نعرے کے ساتھ دل ہلا دینے والی چیخیں بھی سنیں لوگوں کے دل کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ قائداعظمؒ ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔
جنازہ لا کر بانس اور کاغذ کے بنے ہوئے سیاہ مینار کے برابر سیمنٹ کے چبوترے پر رکھ دیا گیا اور اعلان ہو اکہ پندرہ منٹ بعد نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ اس اعلان پر 5لاکھ آدمیوں نے صف بندی کی اور دیکھتے دیکھتے انسانوں کا یہ سیلاب جنازے کے دائیں بائیں اور بہت دور پیچھے تک باقاعدہ صفوں میں تبدیل ہو گیا۔ اگلی صفوں میں حکومت پاکستان اور سندھ‘ پنجاب اور بنگال کی حکومتوں کے وزیر اور اسلامی ممالک کے سفیروں اور نمائندوں کے علاوہ بھی جسے جگہ ملی وہ بلا امتیاز صف میں شامل ہو گیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور اس کے بعد ایک تقریر فرمائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’قائداعظمؒ رحلت فرما گئے لیکن جس قوم کو ان کی ذات نے منظم و مرتب کیا‘ وہ زندہ ہے اور انشاء اللہ اسی طرح زندہ رہے گی‘ اور عزت کے ساتھ اپنی قوت اور مرتبے میں اضافہ کرے گی۔ ہماری قوم کے مستقبل کا انحصار اتحاد‘ ضبط اور تنظیم پر ہے‘‘۔ مولانا کی تقریر ختم ہوئی تو لوگ جنازے کو مدفن کی طرف لے چلے۔ وہ جگہ یہاں سے کوئی ایک فرلانگ آگے اس اونچے ٹیلے پر تھی جو قائداعظمؒ نے کراچی کی جامع مسجد کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ جنازہ آہستہ آہستہ روانہ ہوا۔ اس کے دائیں بائیں پاکستان کی بحری‘ بری اور ہوائی فوجوں کے اعلیٰ افسر تھے اور پیچھے پیچھے وزیراعظم لیاقت علی خاں‘ سردار عبدالرب نشتر‘ آنریبل جوگندر ناتھ منڈل‘ آنریبل (اب ہزاکسیلنسی) ناظم الدین‘ پیر الٰہی بخش اور میراں محمد شاہ۔ وزرائے سندھ کے علاوہ‘ مصر‘ عراق‘ افغانستان‘ برما اور انڈونیشا کے سفیر تھے اور سب باری باری جنازے کو کاندھا دے رہے تھے۔ وزیروں اور امیروں کے کاندھوں پر جنازہ مدفن کے قریب پہنچا اور اتار کر زمین پر رکھ دیا گیا۔ تھوڑی دیر میں قبر تیار ہو گئی اور 6بج کر 24منٹ پر لیاقت علی خاں‘ سر ظفراللہ خاں‘ سردار عبدالرب نشتر‘ پیر الٰہی بخش اور سیٹھ یوسف ہارون نے اپنے مرحوم رہنما کے جسم کو قبر میں اتار کر آخری خدمت انجام دی۔ قبر کے منہ کو پتھروں سے ڈھکا گیا اور لیاقت علی خاں نے کلمہ طیبہ کے ورد کے ساتھ‘ مٹھی بھر مٹی آہستگی سے قبر کے پتھروں پر ڈال دی اس کے بعد دوسرے وزیروں اور سفیروں نے یہ آخری رسم ادا کی اور تھوڑی سی دیر میں ایک نازک جسم پر منوں مٹی کے انبار لگ گئے۔ مٹی پر پانی چھڑکا گیا۔ پھول چڑھائے گئے ‘ عود اور اگر سلگایا گیا اور لاکھوں آدمیوں نے ایک ساتھ ہاتھ اٹھا کر اپنے قائداعظمؒ کی مغفرت کے لیے دعا کی اور یہ سوگوار ہجوم اللہ کی وحدت اور محمد ﷺ کی رسالت کا کلمہ پڑھتا ہوا‘ آنکھوں میں اشک اور دلوں میں ماضی کی یادیں لیے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوا۔ اور کسی نے بڑے درد بھرے لہجہ میں یہ شعر پڑھا:
اے خاک تیرہ خاطر مہماں نگاہ دار
ایں نور چشم ماست کہ در بر کشیدۂ