ڈالروں کی بارش ہو گئی تو!
پی ٹی آئی والوں کی تو لاٹریاں نکل آئی ہیں ، کوئی صدر، کوئی وزیر اعظم ، کوئی وزیر اعلیٰ تو کوئی وزیر اطلاعات، تبھی تو انہیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اس جیک پاٹ کا کریں کیااور لوگ ہیں کہ گن گن کر دن گزار رہے ہیں اور نئے پاکستان کی راہ تک رہے ہیں۔ دینے والے کی عطا پر رشک آتا ہے وگرنہ کون تصور کرسکتا ہے کہ وسیم اکرم یا شاہد آفریدی بھی ملک کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں یا پھر عثمان بزدار جیسا عام سے رہن سہن کا فرد سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا نعم البدل قرار پا کر وزیر اعلیٰ پنجاب تعینات ہو سکتا ہے ۔ اور تو اور صدر مملکت عارف علوی کی تو کمال ہی لاٹری نکلی ہے ، یقینی طور پر جماعت اسلامی والے چھج پتاسے بانٹ رہے ہوں گے کہ ان کی جماعت کا سابق رکن صدر مملکت کے عہدے تک جا پہنچا وگرنہ ظالمو قاضی آرہا ہے ، ظالمو قاضی جا رہا ہے کے سوا جماعت اسلامی کے پلے کیا ہے؟....
پی ٹی آئی کی حکومت دراصل تابعداروں کی حکومت ہے ، یو ٹرنوں کا ہجوم ہے تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں مزید ہوگی۔
نیا پاکستان بنانے کی بات پرانی ہو تی جا رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کے وزیروں مشیروں نے پرانے پاکستانیوں کی سی باتیں کرنا شروع کردی ہیں۔
چین اور سعودی عرب جس طرح پاکستان میں سرمایہ کاری کی یقین دہانیاں کرارہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ دونو ں ملکوں نے پاکستان کا بوجھ آدھا آدھا اٹھالیا ہے ، کہیں خدانخواستہ اس کو آدھا آدھا بانٹنے پر نہ تل جائیں !....یوں بھی اگر ہم نے سارا انحصار چین پر کرلیا تو امریکہ اور بھارت مل کر سی پیک کو ہمارا واٹر لُو بنانے کا جتن کرنے لگیں گے۔ کہیں ملک میں دوبارہ سے دہشت گردی کی لہر نہ در آئے ، پھر سے چینی انجینئروں کا اغوا عام نہ ہو جائے!
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ڈیم فنڈ کے لئے چندے کی اپیل کردی گئی ہے لیکن ہمارے خیال میں کرکٹر عمران خان کا شوکت خانم کے لئے چندے کی اپیل اور وزیر اعظم عمران خان کی ڈیم فنڈ کے لئے چندے کی اپیل میں زمین آسمان کا فرق ہے کیونکہ کرکٹر عمران خان سب کا ہیرو تھا مگر وزیر اعظم عمران خان سب کو قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔ وہ پاکستان کے وزیر اعظم تو ہو سکتے ہیں مگر سب پاکستانیوں کے وزیر اعظم نہیں ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے ڈیم کے لئے چندے کی اپیل ایک بہت بڑا قدم ہے ، یہ قدم بھاری بھی پڑ سکتا ہے جس طرح پاکستانی عوام نے بہت پھسپھسا سا ریسپانس دیا ہے اور ابھی تک دو ارب روپے اکٹھے نہیں ہو سکے ہیں ، 1400ارب روپے کس طرح اکٹھے ہوں گے؟
یار لوگوں کی خوش گمانی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی اپیل کے بعد پاکستان پر ڈالروں کی بارش شروع ہو جائے گی ، ان کے منہ گھی شکر لیکن کہیں یہ بارش آج کل لاہور میں ہونے والی بارش ثابت نہ ہو کہ یہاں ہوگئی اور وہاں ہوئی ہی نہیں اور پورا شہر حبس کا شکار ہے ، ہر کوئی ناسازی طبع کا شکار ہے۔
وزیر اعظم کی اپیل سے سمجھ آئی ہے کہ ملک میں ڈیم بنانے کے لئے ڈالر چاہئیں، تجاری خسارہ کم کرنے کے لئے ڈالر چاہئیں، قرض کا سود دینے کے لئے ڈالر چاہئیں، قرضے اتارنے کے لئے ڈالر چاہئیں، زرمبادلہ کے ذخائر بنانے کے لئے ڈالر چاہئیں ، بے چارے بیرون ملک پاکستانی کتنے ڈالر بھیجیں گے کہ پاکستان کی ضرورت پوری ہو سکے گی ۔ بیرون ملک پاکستانی ایسا کرتے تو ہنڈی اور حوالے کا کاروبار کیونکر چمکتا!....وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ پہلے پاکستان میں ان کے گھر والوں کے تقاضے ختم نہ ہوتے تھے ، اب حکومت نے بھی ڈالروں کا تقاضا شروع کردیا ہے!
ڈیم کے نام پر چندے کے ڈالر اکٹھے کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی امید ختم ہو گئی ہے ۔ اس کا ایک اور مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت کے پالیسی سازوں نے پہلے 100دنوں میں بیرون ملک پاکستانیوں کو آزمانے کا سوچا ہے ، آئی ایم ایف کو بعد میں آزمائیں گے۔ جناب عمران خان ملک کے سب سے بڑی چندہ اکٹھا کرنے والی شخصیت ہیں ۔ اگر ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بیرون ملک پاکستانیوں نے واقعی ڈالروں کی بارش کردی تو پاکستان کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور لوگ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کو بھول جا ئیں گے ۔ دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!