ترک صدر کو اپنے قریبی ساتھی نے ہی زوردارجھٹکا دیدیا، ان کے مخالف سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان

ترک صدر کو اپنے قریبی ساتھی نے ہی زوردارجھٹکا دیدیا، ان کے مخالف سیاسی جماعت ...
ترک صدر کو اپنے قریبی ساتھی نے ہی زوردارجھٹکا دیدیا، ان کے مخالف سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

استنبول (ویب ڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے پرانے حلیف اور سابق وزیر اعظم علی باباکن نے اس سال کے آخر میں ایردوان مخالف سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق علی باباکن نے ایردوان کی 'اے کے' پارٹی کی مخالفت میں نئی جماعت بنانے کا اعلان ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے۔خیال رہے کہ حکمراں جماعت اے کے پارٹی کے بانی رکن علی باباکن نے اختلافات کے باعث رواں سال جولائی میں پارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ ایردوان حکومت میں وزارت عظمیٰ سمیت وزیر خارجہ اور وزیر برائے اقتصادی امور کے عہدوں پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔علی باباکن 2009 سے 2015 تک ترکی کے نائب وزیرِ اعظم کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔علی باباکن اور ترکی کے سابق صدر عبداللہ گل سے متعلق کافی عرصے سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وہ نءجماعت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق رواں سال جون میں استنبول کے بلدیاتی انتخابات میں حکمراں جماعت کی شکست کے بعد اِن کوششوں میں مزید تیزی آئی ہے۔جولائی میں پارٹی چھوڑنے کے بعد اخبار 'کرار' کو انٹرویو دیتے ہوئے علی باباکن کا کہنا تھا کہ اے کے پارٹی اپنے بنیادی اصولوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ عرصہ دراز سے ہم خیال لوگوں پر مشتمل ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے بقول عبداللہ گل ان کی حمایت کر رہے ہیں تاہم باضابطہ طور پر ابھی اس عمل میں شامل نہیں ہوئے۔علی باباکن کا کہنا تھا کہ نئی جماعت بنانے کے لیے ابھی کچھ وقت درکار ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ معیار پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر 2020 سے قبل نئی سیاسی جماعت کے خدوخال سامنے ا? جائیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی، عدالتی نظام سے متعلق شکایات، بے روزگاری میں اضافے جب کہ لاکھوں شامی مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے پر اردوان حکومت کا ووٹ بینک متاثر ہو رہا ہے۔حکمراں جماعت کو پارلیمان میں اکثریت قائم رکھنے کے لیے قوم پرستوں اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے۔ مبصرین کے مطابق ایسی صورت حال میں ایک نئی جماعت کا وجود اس کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔علی باباکن کا کہنا ہے کہ ترکی کی معیشت کو بحران سے نکالنا ہو گا اور خارجہ پالیسی ان مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نئی جماعت سے متعلق خبروں کی تاحال تردید کر رہے ہیں۔ انہوں نے اے کے پارٹی کے اراکین کو تنبیہ کی ہے کہ جو بھی پارٹی چھوڑے گا اس کے لیے واپسی کے دروازے بند ہوں گے۔خیال رہے کہ رواں سال جون میں ہونے والے استنبول کے میئر کے انتخابات میں طیب ایردوان کی جماعت کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس شکست کے بعد اندرون خانہ طیب ایردوان کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ترکی میں عام انتخابات 2023 میں شیڈول ہیں۔صدر رجب طیب ایردوان ملکی سیاسی منظر نامے پر 2003 سے متحرک ہیں پہلے وہ وزیر اعظم رہے اس کے بعد صدر منتخب ہوئے۔ مصطفیٰ کمال کے بعد انہیں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا حکمران تصور کیا جاتا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ معاشی بحران سے ان کی حمایت میں کمی ا?ئی ہے جس کے باعث اقتدار پر ان کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔