سابق انسپکٹر جنرل ظفر عباس لک کے انکشافات
جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر آنے والی حکومت سے یہ ضرور سنا ہے کہ ہم کامیاب ہو کر پولیس کلچر تبدیل کریں گے، گھر کی دہلیز پر انصاف ملے گا اس سے بڑھ کر اگر کسی نے دعویٰ کیا تو وہ مسلم لیگ(ن) کے ادوار میں میاں نواز شریف جب وزیراعلیٰ تھے، پرویز الٰہی اور میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے، تمام وزرائے اعلیٰ کے پولیس اور پٹواری کلچر کی تبدیلی کے نعرے اور وعدے ایک جیسے نظر آتے ہیں اسی طرح جب پولیس کا اعلیٰ آفسر جسے آئی جی، پنجاب ڈی آئی جی یا سی سی پی او وغیرہ ذمہ داری سنبھالتے ہی سلامی لیتے ہیں تو پہلی میڈیا ٹاک میں فرماتے ہیں۔
کرپشن اور پولیس تشدد برداشت نہیں کروں گا، ایس ایچ او اپنے تھانوں کے دروازے عوام کے لئے کھول دیں،سیاسی رہنماؤں کے دعوے اور پولیس افسران کے اعلانات کے باوجود کرپشن ختم ہوئی نہ پولیس تشدد، عوام کے لئے تھانوں کے دروازے کھولے، نہ پولیس عوام کی محافظ بن سکی، خلا کہاں موجود ہے؟ کیا سیاسی رہنماؤں اور پولیس افسران کے اعلانات اور بیانات عوام کو لالی پاپ دینے اور پوائنٹ سکورنگ تک محدود ہیں،اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے سابق وزرائے اعلیٰ کے بیانات، اعلانات اور وعدوں پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا، اور نہ پولیس کے اعلیٰ افسروں کی بھڑکیں عوام کو ریلیف دے سکیں ہیں۔
مجھے یقین ہے مجھ ناچیز کے کالم سے بھی کچھ فرق نہیں پڑے گا، اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا والی بات ہے، آج دِل بڑا دُکھی ہے، کورونا اور لاک ڈاؤن کے ڈراؤنے خواب سے بیداری کے بعد کراچی میں پانچ سالہ بچی سے درندہ صفت14 نوجوانوں کی زیادتی اور لاہور، سیالکوٹ موٹروے پر خاتون سے زیادتی کے واقعہ نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، ہم کتنے سفاک اور ظالم ہیں۔ ہمارے لئے کورونا جیسی بیماری بہت کم ہے ہمارے اعمال تو غضب خداوندی کو دعوت دے رہے ہیں، ہم پر پتھروں کی بارش ہو اور ہم غرق ہو جائیں، اتنی بڑی وبا کے بعد سیدھا ہونے کی بجائے اور ٹیڑھے ہو گئے ہیں، بارگاہ الٰہی میں سرسجود ہونے اور توبہ کرنے کی بجائے اور بھٹک گئے ہیں، ہم آٹھ ماہ میں ہونے والے نقصان کو اپنی بے ایمانی اور فنکاری سے ایک ماہ میں پورا کرنا چاہتے ہیں۔ بات کر رہے تھے ہمارے نظام میں کہاں خلا ہے سیاست دانوں اور پولیس افسران کے نعروں پر عمل درآمد ہونے کی بجائے ہَوا ہو رہے ہیں، گلی محلے میں ہونے والے بدقماشی، جنسی تشدد، منشیات، رشوت، سود، قتل، چوری، ڈکیتی کے واقعات کم نہیں ہو پا رہے، اس کی وجہ کیا ہے، کہاں خرابی ہے اس کا پردہ چاک سابق آئی جی پولیس ظفر عباس لک نے محترم نعیم مصطفی کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کیا ہے، جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس کے الزامات کہاں تک حقیقت ہیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہئے۔ پہلی دفعہ اتنا سچ کسی نے بولا ہے، میری ذاتی رائے میں سابق آئی جی صاحب نے ہمارے سینئر ترین ساتھی نعیم مصطفی کے سامنے دِل کھول کر رکھ دیا ہے،جو حُب الوطنی کا عملی ثبوت ہے۔ ان کا ایک ایک لفظ سچائی کی غمازی کر رہا ہے۔ ظفر عباس لک صاحب فرماتے ہیں،بدقسمتی ہے ہماری پولیس تمام جرائم کی سرپرست ہے مزید فرماتے ہیں، بیورو کریسی اور سیاست دان پولیس آرڈر 2002ء پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہیں۔ پولیس ریفارمز اور پولیس کلچر میں تبدیلی کے سب نعرے ڈھکوسلے ہیں، وہ فرماتے ہیں، وزیراعظم عمران ایماندار آدمی ہیں، بدقسمتی سے مافیاز، چپلے چماٹو اور خوشامدیوں نے انہیں یرغمال بنا رکھا ہے۔مزید فرماتے ہیں نااہل ایم این اے اور ایم پی اے بااثر سیاست دان مرضی کا ایس ایچ او اور ڈی ایس پی لگوا کر ان سے ناجائز من پسند کام کرواتے ہیں،ان کا کہنا ہے پولیس سسٹم کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے، ڈسپلری فورس تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ سابق آئی جی نے بڑا دھماکہ کرتے ہوئے کہا ہے نیب نااہل اور نہ تجربہ کار افسران کا فضول ادارہ بن چکا ہے۔انہوں نے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے، پنجاب بھر میں قمار بازی، بدکاری، منشیات فروشی کے تمام اڈے اور نیٹ کیفے سمیت سماجی جرائم کے تمام مراکز پولیس کی سرپرستی اور معاونت سے چلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے متعلقہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی باقاعدہ معاوضہ لیتے ہیں۔
اپنے انٹرویو میں مزید انکشاف کرتے ہیں، سیاست دان محض ووٹ لینے کے لئے قاتل اور ڈاکوؤں کی سفارش کرنے اور رہائی دلانے تھانوں میں پہنچ جاتے ہیں انہیں گلیاں اور سڑکیں بنانے اور نالیاں صاف کرنے کے علاوہ کچھ آتا نہیں ہے، سیاست دانوں کی بے جا مداخلت نے پولیس کا پورا نظام تباہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا 2002ء کا پولیس آرڈر اچھا ہے، آج تک بیورو کریسی اور سیاست دانوں نے عملدرآمد نہیں ہونے دیا، طویل انٹرویو ہے خلاصہ مَیں نے لکھا ہے۔ قارئین کے لئے عرض کروں گا کہ ایک درجن الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے چینل پر بار بار نشر ہو چکا ہے، آج تک کسی سیاسی رہنما، پولیس آفسر بیورو کریٹ یا جج نے نوٹس نہیں لیا، میرے دوست کا دعویٰ ہے، کوئی نوٹس نہیں لے گا، کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ ظفر عباس لک صاحب کا شکریہ انہوں نے سچ تو بولا ہے، بے شک ریٹائر ہو کے بولا۔ایک فلسفہ ہے آپ جو کچھ مرضی کر لیں کچھ نہیں ہو گا۔ ایک فلسفہ ہے تاریخ لکھی جا رہی ہے ہم سب اس کا کردار ہیں ہم جو کچھ کر سکتے ہیں کرنا چاہئے۔جناب ظفر عباس لک شکریہ دیر آئے درست آئے۔ جناب نعیم مصطفی کا بھی شکریہ، ان کا انٹرویو ان کے تجربے اور مہارت کا عملی ثبوت ہے۔ امید کرتے ہیں چیف جسٹس آف پاکستان نوٹس لیں گے اور نظام کی درستگی کے لئے2002ء کے آرڈر پر عمل درآمد یقینی بنانے کے احکامات جاری کریں گے،پولیس کلچر کو تباہ کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کا حکم دیں گے۔