"شراب پیتے ہیں اور علاقے میں عورت رسیا بھی ہیں" نئے سی سی پی او لاہور کے بارے میں آئی بی رپورٹ لیکن وہ خود کیا کہتے ہیں؟ موقف آگیا

"شراب پیتے ہیں اور علاقے میں عورت رسیا بھی ہیں" نئے سی سی پی او لاہور کے بارے ...
سورس: courtesy: Social Media

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ویب ڈیسک) لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ ان دنوں خبروں میں ہیں اور ان کے بارے میں انٹیلی جنس بیورو(آئی بی ) کی ایک رپورٹ بھی گردش کررہی تھی لیکن اب ان کا موقف سامنے آنے کے بعد آئی بی کی رپورٹ کے مندرجات بھی سامنے آگئے ، آئی بی کی رپورٹ میں انہیں اخلاقی اور مالی طور پر بدعنوان بتایا گیا ہے تاہم عمر شیخ نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا اور موقف اپنایا کہ محکمانہ ترقی کیلئے بورڈ نے اس رپورٹ کو کچرا قرار دیا تھا۔

روزنامہ جنگ میں انصار عباسی نے لکھا کہ "آئی بی رپورٹ میں شیخ کی ساکھ کے حوالے سے انہیں اخلاقی اور مالی لحاظ سے کرپٹ بتاتی ہے۔ ان کی عمومی شہرت بھی کرپٹ بیان کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عوام کے ساتھ ان کا رویہ ٹھیک ہے لیکن اپنے رفقاء کار کے ساتھ ’’غیر مہذبانہ‘‘ ہے۔ رپورٹ کے ’’کوئی منفی مشاہدات‘‘ کے خانے میں لکھا ہے کہ رشوت یا فائدہ اٹھانے کیلئے یہ آفس اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ اپنے عمومی ریمارکس میں آئی بی رپورٹ کہتی ہے کہ ’’یہ افسر 14؍ ستمبر 2006ء سے 20؍ اگست 2007ء تک ڈی پی او سرگودھا تھے۔ وہ مالی فوائد کیلئے کرپشن میں ملو ث رہے۔ وہ اس وقت کے ڈی ایس پی سٹی (نام مٹا دیا گیا ہے) کا سہارا لیتے تھے اور رشوت لینے کے بعد ایس ایچ اوز کو اپنی سفارش پر مقرر کراتے تھے۔ رپورٹ میں کچھ ایس ایچ اوز کا نام بھی لیا گیا ہے تاہم ان کا نام یہاں پیش نہیں کیا جا رہا۔ 

الزام ہے کہ ایس ایچ اوز میں سے ہر ایک نے (شیخ کو) ایک ایک لاکھ روپے ماہانہ ڈی ایس پی (نام پیش نہیں کیا جا رہا) کے ذریعے پہنچائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افسر کی ساکھ یہ ہے کہ وہ مالی اور اخلاقی لحاظ سے کرپٹ ہیں (شراب پیتے ہیں اور علاقے میں عورت رسیا بھی ہیں)۔ مبینہ طور پر انہوں نے علاقے میں ایک خاتون کانسٹیبل (نام پیش نہیں کیا جا رہا) سے جنسی تعلقات استوار کیے۔ اپنے فرائض منصبی انجام دینے اور مسائل کے حل میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں اور وہ زیادہ تک وقت جوا کھیلنے میں صرف کرتے تھے۔ وہ آئی بی میں پی پی ایچ کیو لاہور میں تعینات رہ چکے ہیں اور ساتھ ہی امریکا میں بھی آئی بی کی طرف سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ آر پی او ڈی جی خان ہیں"۔ 

انہوں نے مزید لکھا کہ "سی سی پی او لاہور نے دی نیوز کو بھیجے گئے اپنے وائس نوٹ میں دیے گئے موقف میں کہا ہے کہ سب سے پہلے اس رپورٹ میں ان کے والد کا نام نہیں لکھا گیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ آئی بی والوں کو ان کے والد کا نام تک نہیں معلوم۔ دوسری بات، رپورٹ میں میرے بیٹوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ سابقہ  سٹوری میں شیخ نے بتایا تھا کہ ان کے دو بیٹے ہیں لیکن آئی بی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان کے تین بیٹے ہیں۔ شیخ نے دعویٰ کیا کہ یہ رپورٹ آئی بی نے 2006ء میں تیار کی تھی جسے سی ایس بی میں 2013ء میں پیش کیا گیا جب انہیں 19؍ سے 20؍ گریڈ میں ترقی کیلئے غور کیا جا رہا تھا۔ 

شیخ نے کہا کہ اس رپورٹ کی موجودگی کے باوجود مجھے بورڈ نے ترقی دے کر ڈی جی آئی لگانے کی سفارش کی، بورڈ سینئر سی ایس پیز اور سینئر آئی جی پیز پر مشتمل تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ترقی دے کر ڈی آئی جی بنایا گیا کیونکہ اس وقت کے چیئرمین ایف پی ایس سی / چیئرمین سی ایس بی ملک حیات نے آئی بی رپورٹ کو ’’کچرا‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ عمر شیخ نے میرے ماتحت دو اضلاع میں کام کیا ہے اور وہ مجھے جانتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ بورڈ کے چیئرمین نے اسی لیے کہا کہ مجھے ڈی آئی جی کے بنا کر پروموٹ کیا جائے۔ تاہم، یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ جس وقت شیخ کہہ رہے ہیں کہ آئی بی کی ر پورٹ 2006ء میں تیار کی گئی تھی لیکن اس رپورٹ میں نہ صرف شیخ کے ڈی پی او سرگودھا تعیناتی (2006ء اور 2007ء) کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ شیخ فی الوقت آر پی او تعینات ہیں، یہ وہ عہدہ ہے جو انہیں 2018ء اور 2019ء میں ملا تھا"۔

مزید :

قومی -