نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس (2)
یہ کالم میں نے قارئین کو یہ بتانے کے لئے لکھا ہے کہ جس نفاذِ اردو کے موضوع کو ہمارا سوشل میڈیا بالخصوص اس حوالے سے موضوعِ سخن بنا رہا ہے کہ انگریزی زبان کی میڈم سے یک قلم علیحدگی اختیار کر لی جائے اور اس کی جگہ لیلائے اردو سے رشتہء ازدواج استوار کر لیا جائے تو اس بات کا خیال رکھیں کہ پاکستانی معاشرہ اب اس قدر مغرب زدگی کا شکار ہو چکا ہے کہ انگریز زوجہ کو تین کی جگہ تین سو طلاقیں بھی دے دی جائیں تو نکاح برقرار رہے گا……میں نے گزشتہ قسط میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس کی ایک خبر کا حوالہ دیا تھا۔
اس اجلاس پر تمام تر بحث و مباحثہ انگریزی زبان میں ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ نیوکلیئر اور میزائل پاور کا آغاز جس زبان میں ہوا وہ انگریزی زبان تھی۔ چنانچہ بم اور میزائل کے حصے پرزے، چھوٹی بڑی اصطلاحیں، ٹیکٹیکل اور سٹرٹیجک لیول پر اس کے استعمال کی زبان انگریزی تھی اس لئے NCA کے اس اجلاس میں بھی انگریزی لکھنے، پڑھنے اور بولنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس اجلاس کے شرکاء اردو سے غایت درجے کی محبت کا اقرار کرنے کے باوجود انگریزی کا سہارا لینے پر مجبور تھے…… یہ بالکل وہی بات تھی کہ جب ہوائی جہاز کی ابتدا انگریزی زبان کے ماحول میں ہوئی تو اس مشین کو کس طرح اردوایا جا سکتا ہے…… یہی وجہ ہے کہ بعض مضامین کی تحصیل اردو زبان کی بجائے انگریزی میں کی جائے تو اس میں کوئی ہرج نہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی، انجینئرنگ، جدید عسکریات، جدید سلاحِ جنگ اور اس طرح کے درجنوں موضوعات و مضامین ایسے ہیں جن میں ہم اردو والوں نے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ ہم مذہب، سیاست اور شعر و ادب کے مباحث میں الجھے رہے جبکہ باقی دنیا ہم سے ان تین میدانوں (Fields) میں بھی بہت آگے نکل گئی!
چنانچہ میرا موقف یہ ہے کہ جو جدید اور ٹیکنیکل اصطلاحیں اور الفاظ انگریزی زبان میں زیادہ زود فہم اور زود ہضم ہوں ان کو جوں کا توں انگریزی تلفظ کے ساتھ اپنا لیا جائے۔ میں انگریزی لب و لہجہ کی بات نہیں کر رہا، انگریزی الفاظ و اصطلاحات کا ذکر کر رہا ہوں۔ آپ جدید علوم کو بے شک اردو میں پڑھائیں لیکن ان کی اصطلاحوں کو انگریزی میں رہنے دیں اور ان کا ترجمہ نہ کریں۔ ہم جب بھی کسی جدید انگریزی اصطلاح / لفظ کا ترجمہ اردو میں کریں گے تو ایک عجیب مضحکہ خیز صورتِ حال پیدا ہو جائے گی۔
نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اس اجلاس کی جو رپورٹنگ 9ستمبر کے ”ڈان“ میں انگریزی زبان میں شائع ہوئی اس کا ترجمہ میں نے گزشتہ قسط میں دے دیا تھا۔ ہرچند کہ اس میں بہت سے جدید انگریزی الفاظ اور اصطلاحیں استعمال کی گئیں لیکن میں نے جو ترجمہ کیا اس میں از بس کوشش کی کہ اسے قابلِ فہم بنا سکوں۔ لیکن اس کے باوجود نہ میری تسلی ہوئی اور نہ میرا خیال ہے، پڑھنے والوں کی ہوئی ہو گی۔
جن الفاظ کو ترجمہ نہیں کیا گیا اور انہیں انگریزی کی جگہ اردو املا میں لکھ دیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں: …… نیشنل کمانڈ اتھارٹی …… کاؤنٹر…… ڈیٹرنس، سٹرٹیجک پلان ڈویژن…… سروسز چیفس…… ڈائریکٹر جنرل …… ڈویلپ منٹ …… ڈاکٹرین…… فوکس …… نیو کلیرائزیشن …… آپریشنل…… کنٹری بیوشن…… وغیرہ وغیرہ
اب کوئی اردو دان ان اصطلاحوں کا ترجمہ کرکے دیکھ لے۔ اس کو لگ پتہ جائے گا کہ مطلب فوت ہوتا ہے، گھائل ہوتا ہے یا زخم زخم ہوتا ہے۔ اور یہ درج بالا الفاظ ہمارے روز مرہ استعمال کا حصہ ہیں۔ اگر نہیں بھی تو ان کو بنا لینا چاہیے، اس میں کیا ہرج ہے؟
اس خبر میں بعض الفاظ / اصطلاحات کا میں نے ترجمہ تو کر دیا ہے لیکن یہ ترجمہ اصل مفہوم کے نزدیک تر تو کہا جا سکتا ہے اسے ہوبہو مفہوم کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً یہ الفاظ / اصطلاحات ملاحظہ کیجئے:
1۔ اہلیت: Capability
2۔کامل: Complete
3۔تنازعات: Conflicts
4۔تشویش: Concern
5۔مضر: Detrimental
6۔آمادگیء جنگ: War Preparedness
7۔مقصودات: Objectives
درجِ بالا سات اصطلاحیں ایسی ہیں جن کے معانی کی تہہ میں اتریں تو اس کی تفہیم کے لئے کئی صفحات درکار ہوں گے…… پہلے ”اہلیت“ کو لیتے ہیں …… انگریزی زبان میں بظاہر Capability, Ability اور Efficiency کا مفہوم تقریباً ایک ہے۔ لیکن عسکری لغت میں جب ان کو استعمال کیا جائے گا تو ان کے معانی میں تضاد تو اگرچہ نہیں ہوگا، تبدیلی ضرور ہو جائے گی…… ان کا ترجمہ اردو زبان میں بالترتیب قابلیت، اہلیت اور صلاحیت کیا جاتا ہے لیکن جب ان کو عسکری ماحول میں لکھا یا بیان کیا جائے گا تو ان تینوں اصطلاحوں کے مفاہیم جدا جدا ہو جائیں گے۔
اب سارا بوجھ ترجمہ کرنے والے پر آن پڑے گا کہ وہ انگریزی متن کو پڑھے اور سمجھے کہ مصنف کا مدعا کیا ہے اور اس نے کس تناظر (Context) میں یہ اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہو جائے گا کہ ان تینوں اصطلاحوں (قابلیت، اہلیت، صلاحیت) کو ازروئے مفہوم و معانی جس پس منظر میں استعمال کیا گیا ہے اسی کے ساتھ اس کو ”خاص“ کر دیا جائے۔ ملٹری ہسٹری کے مصنفین نے یہی فارمولا اپنایا ہے اور جب تک کوئی مترجم اس فارمولے کا شناسا نہیں ہوگا، وہ اصل ترجمہ کرنے سے قاصر رہے گا۔
یہی بات Complete, Full اور Comprehensive وغیرہ پر بھی صادق آتی ہے جن کے اردو ترجمے بالترتیب تمام، کامل اور جامع وغیرہ کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی عسکری اصطلاحات نہیں، الفاظ ہیں۔ یہی حال تشویش اور مضر کا ہے۔
البتہ Conflict ایک اصطلاح ہے۔ جنگ، لڑائی، جھڑپ اور تنازعہ بالترتیب War،Battle، Skrimishاور Conflict کے اردو ترجمے ہیں۔ لیکن ان کی تشریحات الگ الگ ہیں۔آپ وار کو بیٹل نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی جھڑپ کو تنازعہ کا نام دے سکتے ہیں، ان کی توضیح کرنے بیٹھ جاؤں گا تو آپ اور بھی بور ہو جائیں گے۔
اسی طرح آمادگیء جنگ اور تیاریء جنگ میں جو خفیف سا فرق ہے وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ہوگا۔ تیار ہونا اور آمادہ ہونا بظاہر یکساں کیفیتوں کے نام ہیں۔ لیکن آمادگی پہلے اور تیاری بعد کی حالت کو ظاہر کرتی ہے۔ آپ آمادۂ جنگ توہو سکتے ہیں لیکن جنگ کے لئے تیار ہونے میں زیادہ وقت، محنت، سرمایہ اور ہزار طرح کا ربط و ارتباط ضروری ہوگا۔
اسی طرح مقصود (Objective) اور مقصد (Aim) دو الگ الگ عسکری اصطلاحیں ہیں۔ ایک Aim میں کئی objective ہو سکتے ہیں۔ یعنی اگر حملہ آور کا Aim دہلی پر قبضہ کرنا ہو راستے میں جگہ جگہ جو چھوٹے شہر آئیں گے وہ objectives کہلائیں گے۔ جب کوئی کمانڈر اپنے ”آپریشن آرڈر“ میں مقصد اور مقصودات کا حوالہ دیتا ہے تو اس کے ٹروپس اور ماتحتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقصودات پر قبضہ نہ بھی ہو سکا تو سیدھے مقصد کو حامل کرنا اصل کامیابی ہوگا۔
اس قسم کی لفظی باریکیاں اور اصطلاحی موشگافیاں جب کسی ایسی سروس میں استعمال کی جاتی ہیں جس کے معانی کی کئی پرتیں اور مفہوم کی کئی جہتیں ہوتی ہیں تو اس راہ میں کافی سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔ آرٹ اور سائنس کی اصطلاحات میں سائنس کی اصطلاحات کا زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ آرٹ کی اونچ نیچ اور نشیب و فراز سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر آپ کسی ادیب اور شاعر سے اس موضوع پر گفتگو کریں گے تو وہ آپ کو آرٹ کی باریکیوں پر اتنا سیر حاصل لیکچر دے گاکہ آپ کی تسلی ہو جائے گی اور آپ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آرٹ اور سائنس ہرچند دو جداگانہ علمی اور فنی میدان ہیں لیکن ان کی وسعتیں اور گہرائیاں سائنس کی طرح بے کنار ہیں۔ (ختم شد)