ایک شخص کو شخصیت بننے تک ایک عرصہ درکار ہوتا ہے اور اس عرصہء حیات میں اس شخص نے شخصیت کا سفر طے کرناہوتا ہے لیکن یہ سفر ایسا آسان بھی نہیں ہوتا قدم قدم پر مشکلوں کے کوہ گراں پڑتے ہیں جنہیں سر کرتے ہی عمریں بیت جائیں اور اگر سر بھی کرجائیے تو سامنے ایسے موڑ آجائیں کہ ان سے آگے کا راستہ اور بھی کٹھن ہو راہوں میں پڑے حالات کے خار مغیلاں ہوں اور چلتے رہنا بھی لازم ہو لیکن سفر کے سارے مرحلوں سے گذر کر ہی ایسی منزل ملتی ہے جہاں آپ عزتوں کی رفعتوں پر فائز ہوجاتے ہیں ساری عزتیں تو اللہ رب العزت کی ہیں وہی عزتیں عطا کرتا ہے لہذا جسے اللہ تعالٰی عزتیں عطا کرتا ہے وہ لائق تکریم ہوتا ہے ایسی ہی ایک قابل تحسین شخصیت جناب ایم اے رؤف تھے جنہوں نے انسان اور علم دوستی میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جنہیں دوسروں پر علمی ادبی فضیلت حاصل رہی اور علم کی فضیلت پر کیا کیا لکھئیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسکی اہمیت کو بیان کر دیا ہے {اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ: اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔ }پڑھنے کی اہمیت کو اس سے بڑھ کر بیان نہیں کیا جا سکتا
قرآن کریم میں ارشاد ہے: (اے نبیؐ) '' کہہ دیجیے کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔'' للہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: '' کہہ دیجیے، کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا اور دیکھنے والا یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔۔۔
اور اللہ رب العزت نے علم کو کچھ لوگوں کی طبیعت میں ودیعت کررکھا ہوتا ہے جناب ایم اے رؤف علم کا ایک بہتا ہوا جھرنا تھے جن سے بہت سے تعلیمی اداروں نے استفادہ کیا اور آپکی علمی طبعیت سے فیضیاب ہوئے نہال ہوئے شاداب ہوئے آپ ایک عظیم استاد تھے ایک خلاق ذہن کہ جس سے نایاب چیزیں تخلیق ہوئی ہیں تحقیق اور تحقیق نے آپکی طبعیت کو جلا بخشی ایسی شخصیت کہ جس سے نور کے دھارے پھوٹتے ہیں یونیورسٹی آف لاہور کے بانی جناب ایم اے رؤف کی خدمات پاکستان سے دیار غیر تک پھیلی ہوئی تھیں انہوں نے تعلیم کے جس مقدس شعبہ میں اپنی خدمات کا سلسلہ دراز رکھا اس میں آپ جہاں گئے اپنی خدمات کو منواتے گئے اور ہر جگہ ہر سطح پرانکی خدمات کا اعتراف کیا جانے لگا انکی پذیرائی ہوئی نفاست اور شرافت انکی فطرت ثانیہ تھی۔
'جہان پاکستان' کی صورت میں پاکستان میں صحافت کا اک جہان آباد کیا جہان پاکستان جب شائع ہونے لگا تو اسکی انفرادیت نے سب کا التفات حاصل کیا پاکستان کے بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے شہروں تک بلکہ دوردراز قصبات سے لے کر دیہات تک جہان پاکستان چاہا اور سراہا گیا راقم الحروف کا شمار جہان پاکستان کے ابتدائی کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔
بڑا ہونے کے لئے بڑے کردار کی حاجت ہوتی ہے اور بڑے لوگ ہمیشہ بڑی سوچ رکھتے ہیں اخبارات کے مالکان کہ جن کا خمیر احترام کی ایسی مٹی میں گوندھا گیا ہے جو اخبار کے چھوٹے سے چھوٹے کارکن کو بھی اسی عزت سے نوازتے جو وہ کسی بڑے اخبار نویس کو دیتے ایم اے رؤف کا شمار بھی انہیں میں تھا جناب ایم اے رؤف اپنی نفیس طبع میں کم کم ہی اپنا ثانی رکھتے آپ علم کے سورج اگاتے رہے جنہوں نے حالات کے اندھیروں میں اجالے کئے تعلیم سے حد درجہ رغبت ایسی کہ جیسے انکی پہلی محبت تھی وہ ایک عاشق صادق تھے تعلیم جنکا عشق تھابڑے متحمل مزاج ملنسار اور قدر والے تھے جو کئی لکھنے پڑھنے والوں کے شوق کے پاسدار اور انکے شوق کی آبیاری کرتے رہے باوقار لہجہ رکھتے اور سب ہی انکی محبتوں کا اعتراف کرتے رہے انکے مزاج کا علمی میلان انہیں معتبر کرتا گیا انکے ملک عدم سدھارنے سے علمی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے شائد ہی پر کیا جا سکے گا۔
جناب ایم اے رؤف تعلیم کے شعبہ میں رات کی رانی کی خوشبوؤں کی طرح مہکتے رہیں گے انکی خدمات کی مہک ہمیشہ علم کے ماحول کو معطر کئے رکھے گی انکے اچھے کردار سے معلوم ہوا کہ بڑے لوگ صرف نام کے نہیں ہوتے ان میں کچھ وصف تو ہوتے ہیں کہ اللہ نے انہیں محبت کی سرداری عطا کر رکھی ہوتی ہے ایم اے رؤف صاحب سے رہنمائی پانے والے ہمیشہ ان کی محبتوں کے اسیر رہیں گے اخبارات کی دنیا میں ہم بڑے متکبر اور بڑے منکسر المزاج لوگوں سے ملے ہیں لیکن دلوں میں جگہ انہوں نے ہی بنائی جو دل والے ہیں اور اکڑی گردنوں والے کسی کے محبوب نہیں ہیں روزنامہ جہان پاکستان جناب اویس رؤف کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے اویس رؤف صاحب بھی اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں میں اپنی پہچان رکھتے ہیں اللہ ایم اے رؤف کی تربت پر اپنی رحمتوں کا نزول رکھے آمین۔
جناب ایم اے رؤف کی رحلت پر ایک قطعہ کہا ہے جسے اس کالم کا حصہ بنا رہا ہوں
وہ آفتاب تھا یا خوشنما ستارا تھا
وہ کوئی جگنو یا پھر کوئی ماہ پارا تھا
خدا نے زیست کی راہیں اُجالنے کے لیے
اسے بنا کے یہاں نور سا اتارا تھا