ہم واقعی زندہ قوم ہیں
جیسے ماضی میں احتساب کے نام پر سنسنی خیز ڈرامے ہوئے ہیں، ویسے ہی ”بے رحمانہ سکروٹنی“ کے نام پر اس بار سپرہٹ ڈرامہ اسٹیج کیا گیا۔اس ڈرامے نے جس طرح کھڑکی توڑ رش لیا اور عوام کو فتح کے خمار میں مبتلا کیا،وہ تادیر یاد رہے گا۔اس ڈرامے کا ہدایتکار کون تھا، یہ تو ابھی پردئہ راز میں ہے،تاہم ریٹرننگ افسروں نے جس طرح اس ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے جاندار کردار ادا کیا، اس کی داد نہ دینا بڑی زیادتی ہوگی۔ قوم یہ سمجھ رہی تھی کہ اب شاید ہی کوئی لٹیرا، بدمعاش، جعلساز، نادہندہ، مافیا کا سرغنہ یا کرپشن کنگ انتخابات میں حصہ لے سکے گا،حالانکہ ریٹرننگ افسروں کو ایسی کسی بات سے کوئی غرض ہی نہیں تھی، انہیں تو نیک، تہجد گزار، نماز روزے کے پابندی، نظریہ¿ پاکستان پر یقین رکھنے والے، کلمے اور سورتیں سنانے میں یکتا اور ایک سے زائد شادیاں کرکے بیویوں سے انصاف کرنے والے امیدواروں کی تلاش تھی،سو اس کے لئے انہوں نے پورا زور لگایا، بڑے بڑے نامی گرامی امیدواروں کا پتہ صاف کیا، ایک شفاف اور اہل قیادت کے انتخاب میں اپنا حصہ ڈالا، لیکن افسوس کہ ان کی ساری محنت اکارت گئی، الیکشن ٹربیونلز نے ان کے سارے فیصلے کالعدم قرار دے دیئے۔سارے نااہل، اہل ہوگئے اور اب وہ ڈنکے کی چوٹ پر انتخابات میں حصہ لیں گے۔اسے کہتے ہیں.... ”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی، رنگ بھی چوکھا آئے“....کڑی سکروٹنی کا بھرم بھی قائم ہوگیا اور انصاف کا بول بالا بھی ہوا۔اس سارے کامیاب ڈرامے میں عوام کی دلچسپی تو دیدنی تھی، مگر ان بھولے بادشاہوں کو یہ علم ہی نہیں کہ اس بار ان کی ذہانت کا معیار دیکھتے ہوئے ایک ایسا سکرپٹ لکھا گیا تھا جس کی پہلے کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ ایسا کوئی سوچ سکا ہے۔پاکستانی عوام یہ اہم ترین اصول بھول جاتے ہیں کہ دنیا گول ہے، انہیں کولہو کے بیل کی طرح گھوم پھر کر اسی جگہ پر آنا ہوتا ہے،جہاں سے سفر شروع کرتے ہیں۔
جس ملک کی سیاسی قیادت پر سب سے بڑا الزام یہ ہو کہ وہ کرپٹ ہے، ٹیکس نہیں دیتی، بینکوں کی نادہندہ ہے، کمیشن لیتی ہے،پلاٹوں اور پرمٹوں کے لئے قانون کی دھجیاں اڑاتی ہے، اس کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے ان میں سے کسی بات پر ریٹرننگ افسروں کی نظر ہی نہیں جاتی تو سمجھ جانا چاہیے کہ ہمیں ایسے ”باکردار“ فرشتے چاہئیں، جو اپنے ذاتی اعمال میں نیک و صالح ہوں، چاہے قوم اور ملک کے ساتھ جو بھی زیادتی کریں ،ان کے کردار کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔یہ بات نہیں کہ ملک کے وسائل لوٹنے، ٹیکس نہ دینے یا قرضے ہڑپ کرنے والوں کی معلومات الیکشن کمیشن یا ریٹرننگ افسروں کے پاس نہیں تھیں۔ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک پورا زور لگا تے رہے کہ مالی بدعنوانوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکیں، مگر کسی نے ان کی ایک نہ سنی، ریٹرننگ افسروں کو زندگی میں پہلی بار لائیو کیمروں کے سامنے آنے کا موقع ملا تو انہوں نے شاندار ڈرامے میں اپنی اعلیٰ پرفارمنس سے جدت کا وہ رنگ بھرا کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے۔کوئی باریش عالم دین ان کی دہشت کے سامنے دعائے قنوت سنانے سے محروم رہا تو کسی کو اپنا نام تک یاد نہ آیا، کسی کی اے بی سی خراب ہوگئی تو کسی کو پاکستان کے قومی ترانے کے مصرعے بھول گئے۔واہ وا! کیا غضب کا طریقہ ڈھونڈا تھاریٹرننگ افسران نے، ملک میں 65سال بعد صالح قیادت ابھارنے کا ،بُرا ہو اس نظام انصاف کا جس نے مجرموں کو مظلوم بنا کر رہا کردیا۔
اب کوئی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ ایاز امیر کے کاغذات جس بنیاد پر روکے گئے تھے، کیا اس میں اتنا وزن تھا کہ اپیل میں بھی خود کو منوا سکتی۔مَیں اپنی شاعری میں بیسیوں بار شراب کا ذکر کرچکا ہوں، حالانکہ اس ام الخبائث کو زندگی بھر چکھنے تک کا روادار نہیں رہا تو کیا اس بنیاد پر مجھے 62-63 کی زد میں لا کر ذبح کیا جا سکتا ہے؟کتنی سفاکی اور مہارت سے قوم کو بے وقوف بنایا گیا ہے۔تمام بڑے لوگوں کی نااہلیاں ایسی باتوں کو جواز بنا کر کی گئیں،جو اپنا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں رکھتیں۔صرف ریٹرننگ افسروں کے سامنے بری پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے والے امیدوار نااہل قرار پائے اور نااہلی کی سب سے بڑی وجہ عدالت کے اسٹیج پر بری کارکردگی بھی رہی۔اگر سکروٹنی کا عمل سنجیدگی کا معاملہ ہوتا تو امیدواروں کے نامزدگی فارموں میں دی گئی معلومات بھی انہیں نااہل قرار دینے کے لئے کافی تھیں۔
ٹیکس نادہندگان کی بات تو رہی ایک طرف، اگر ٹیکس دینے والے امیدواروں کے ٹیکس گوشواروں کا ہی بغور جائزہ لیا جاتا تو بآسانی معلوم ہو جاتا کہ انہوں نے کس قدر سچ بولا ہے؟....ایک سروے کے مطابق امیدواروں کے نامزدگی فارم جھوٹ سے بھرے پڑے ہیں، کسی نے بھی اپنی آمدنی، ٹیکس، فیملی کے اخراجات، بیرونی دوروں، بینکوں سے لئے گئے قرضوں اور بدعنوانی کے کیسوں کے بارے میں حقیقی معلومات فراہم نہیں کیں۔حیرت ہے کہ الیکشن کمیشن یا ریٹرننگ افسروں نے ان نامزدگی فارموں پر نظر تک ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور سارا زور زبانی سوالات پوچھنے پر صرف کرتے رہے۔اس کا فائدہ کسِے ہوا؟ آج جب تمام نااہل قرار پانے والوں کی اپیلیں منظور ہورہی ہیں تو یہ واضح ہوگیا ہے کہ فائدہ انہی لوگوں کو ہوا جو حقیقی معنوں میں سکروٹنی کی زد میں آ سکتے تھے، مگر جنہیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا گیا۔
آج عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب کچھ بھی نہیں کرنا تھا تو اتنا بڑا ہنگامہ کیوں کھڑا کیا گیا؟چینل والوں سے بھی یہ سوال کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ کس خوشی میں ریٹرننگ افسروں کی عدالتوں میں اسٹیج پر ہونے والے ڈرامے براہ راست ٹیلی کاسٹ کرتے رہے۔اصل بے وقوف تو انہوں نے عوام کو بنایا ہے۔کاش وہ اپنا فوکس اس بات پر رکھتے کہ ریٹرننگ افسران کاغذات کی سکروٹنی کرنے کی بجائے امیدواروں کی تضحیک کررہے ہیں۔انہوں نے امیدواروں کی بے چارگی کا فلمی گانوں اور مزاحیہ خاکوں کے ذریعے مذاق اڑایا۔عجیب بات ہے کہ سکروٹنی کے عمل میں ایک روائتی مولوی جیسا کردار اپنایا گیا،جو اسلام کو صرف عبادات کا مذہب سمجھتا ہے، اس کے فلاحی پہلوﺅں پر نظر نہیں ڈالتا۔اگر کسی کو دعائے قنوت یا تیسرا کلمہ آتا ہے تو کیا یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک اچھا انسان ہے؟ جو قوم کے اربوں روپے لوٹنے کا فن جانتے ہیں کیا دعائے قنوت یاد نہیں کرسکتے؟آج یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ سکروٹنی کے نام پر قوم سے مذاق کیا گیا۔تمام امیدواروں کے کاغذات منظور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان فرشتوں کا ملک ہے، جہاں کبھی کرپشن ہوئی، نہ کرنے کی کسی نے جرا¿ت کی۔جہاں عوامی نمائندے صالح قیادت کے اعلیٰ ترین معیار پر پورا اترتے ہیں،جہاں قومی خزانے کو لوٹنے کی بابت کوئی سوچتا بھی نہیں، بلکہ ہر عوامی نمائندہ اپنا سب کچھ عوام پر نچھاور کردیتا ہے۔یہ داستانیں تو کسی اور ملک کی لگتی ہیں کہ اربوں روپے کے قرضے ہڑپ کرلئے گئے ہوں۔کھربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہو یا ارب پتی افراد چند ہزار روپے ٹیکس دیتے ہوں۔الیکشن میں ماضی کے تمام چہروں کی بخیرو عافیت واپسی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے سیاسی نمائندوں اور قائدین کی ایمانداری، پاکبازی اور سچائی ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر ہے۔ ہم واقعی زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں۔ ٭