ٹیکس نہ دینے والے ارکانِ اسمبلی!
ایک خبر کے مطابق سابق ارکانِ اسمبلی نے اپنی اصل آمدنی چھپائی، یا تو انکم ٹیکس ادا نہیں کیا یا پھر تھوڑی سی ادائیگی کی، ان میں سابق ڈپٹی سپیکرفیصل کنڈی اور اعظم سواتی جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔
حالیہ انتخابات کے لئے سکروٹنی کے عمل کو زیادہ موثر بنانے کا اعلان کیا اور یقین دلایا گیا تھا، یہ بھی کہا گیا تھا کہ بینک ڈیفالٹر اور ٹیکس نادہندگان کی بھی گرفت ہوگی۔ لیکن جب کاغذات کی جانچ پڑتال شروع ہوئی تو ریٹرننگ افسر آرٹیکل 62,63کے استعمال میں الجھ گئے اور انہوں نے دینی احکام کے حوالے سے ذاتی نوعیت کے سوال بھی پوچھنا شروع کردئیے تھے، اس سے کافی کنفیوژن پیدا ہوا اور اب متعدد مسترد کاغذات نامزدگی اپیل میں بحال بھی ہوگئے ہیں۔ ریٹرننگ افسروں کے پاس ٹیکس نادہندگان اور بینک ڈیفالٹرز کی مکمل معلومات بھی نہیںتھیں، بتایا تو یہ گیا تھاکہ متعلقہ محکمے ٹیکس نادہندگان اور ڈیفالٹرز کی فہرستیں مہیا کریں گے لیکن نہ تو یہ پوری طرح ہوپایا اور نہ ہی ریٹرننگ افسروں نے پوری طرح اس طرف توجہ دی۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ متعدد امیدوار اس زد سے محفوظ رہے اور اب انتخابات میں حصہ بھی لے رہے ہیں۔
ٹیکس کی عدم ادائیگی، بینکوں کی رقوم واپس نہ کرنے اور قرضے معاف کرانے کے بارے میں کئی بارشور مچا، قومی اسمبلی میں سٹیٹ بینک کی طرف سے قرضے معاف کرانے والوں کی فہرستیں بھی پیش کی گئیں لیکن آج تک ان کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی علم نہیں ہوسکا اور یہ سب گفتگو برائے بحث اور الزام کی شکل میں رہ گئے ہیں۔
یہ افسوس ناک صورت حال ہے، انتخابات کی وجہ سے بجلی، گیس اور پانی کے واجبات کی وصولی کے لئے یہ شعبے سرگرم ہوئے تو بہت سارے واجبات وصول بھی ہوگئے، امیدواروں نے اپنے ذمہ واجبات ادا کرکے کلیئرنس سر ٹیفکیٹ لئے، لیکن ٹیکس نادہندگان اور ڈیفالٹر بچ گئے اور بہت سارے امیدوار ایسے ہیں جن کے ذمہ واجبات ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اعلان اور ہدایات پر پوری طرح عمل نہیں ہوا، کمیشن کو خود عملی اقدام اٹھانا چاہئے اور فہرستیں حاصل کرکے رقوم حاصل کرنی چاہئیں، ایسے حضرات کو تو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ٭