مسترد ہونے والوں میں کئی بحال ہوگئے
یہ کوئی تعجب کی بات تو نہیں کہ ریٹرننگ افسروں کے مسترکئے گئے کاغذات نامزدگی اپیلوں میں بحال ہوگئے ہیں لیکن ایسا تمام معاملات میں نہیں اکثر میں ہوا، فیصل صالح حیات، ان کے مد مقابل عابد امام اور ایاز امیر کی اپیلیں منظور ہوگئیں اور اب انتخابات میں حصہ لیں گے۔ مظفر گڑھ سے سابق رکن اسمبلی جمشید دستی کے حق میں تو معجزہ ہوا، ان کی سزا ختم کرکے ان کو بری کردیا گیا۔ ان کو شاید خود یقین نہیں تھا لیکن ان کے کاغذات اب بحال تصور ہوں گے اور ان کی جگہ چھوٹے بھائی کو متبادل کے طور پر انتخابات میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی وہ آزاد امیدوار ہوں گے کہ پیپلزپارٹی چھوڑ چکے ہیں مقابلہ حنا ربانی کھر کے والد نور ربانی کھر سے ہوگا۔ اسی طرح دوسری اپیلوں کی سماعت بھی جاری ہے جس کے فیصلے متوقع ہیں ان میں ایسی اپیلیں بھی ہیں جو کاغذات نامزدگی کی منظوری کے خلاف کی گئی ہیں۔ چنانچہ یہ امور زیر تصفیہ ہیں اور انتخابی ماحول نہیں بن رہا۔
مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹوں کا اعلان کیا لیکن چند نام ابھی زیر غور بھی ہیں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ بھی جو بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ممکن ہے۔ پنجاب مسلم لیگ (ن) خود کو مضبوط سمجھتی ہے اس لئے یہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں بھی ڈنڈی ماری گئی جماعت اسلامی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا مذاکرات ختم ہوگئے ہیں جمیعت علماءپاکستان (نورانی) سے وعدہ کیا گیا ان کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو پائی کہ ان کے امیدوار بھی زیادہ ہیں، البتہ سندھ میں دس جماعتی اتحاد اور بلوچستان میں قوم پرستوں جماعتوں سے مذاکرات شروع کئے گئے ہیں بلوچستان میں امکان ہوسکتا ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوجائے لیکن باقی جگہوں پر مسلم لیگ (ن) کو اپنے امیدوار ہی دینا ہوں گے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی انتخابی مہم ابھی شروع نہیں کی اور نہ ہی ٹکٹیں فائنل کی ہیں۔ سندھ میں تقسیم ہوگئیں پنجاب میں بھی ٹکٹ دے دئیے گئے تاہم ابھی مکمل طور پر اعلان نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف بھی الجھن میں ہے بعض اعتراضات موجود ہیں جن کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور پورے ملک کی ٹکٹوں کا باقاعدہ اعلان کیا جائے۔
ان حالات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان فیصلہ ہوگیا پانچ حلقے آزاد چھوڑ دئیے گئے ان میں حلقہ این اے 150بھی شامل جہاں سے چودھری پرویز الہٰی اور چودھری احمد مختار کا مقابلہ ہوگا۔ رحیم یار خان میں خسروبختیار پیپلزپارٹی کے مخدوم شہاب الدین سے ٹکرائیں گے۔ یہ فیصلہ بہرحال آصف علی زرداری کے گرین سگنل سے ممکن ہوا جس کی چودھری پرویز الہٰی نے تعریف بھی کی۔
ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف افواہ ساز بھی دم نہیں لے رہے۔ مختلف باتیں بنارہے اور یقین دلاتے ہیں کہ انتخابات ملتوی ہورہے ہیں، ایسی افواہوں سے انتخابی ماحول متاثر ہورہا ہے اس لئے الیکشن کمیشن کو ان افواہوں سے متاثر ہونے کی بجائے ایسے ٹھوس اقدامات کرنا چاہئیں کہ یہ افواہیں دم توڑ جائیں اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ سیاسی جماعتیں جلد فیصلے کریں اور انتخابی مہم شروع کریں ایسی افواہیں از خود رد ہوجائیں گی۔
تجزیہ خادم حسین