امریکہ کے فوجی بیس میں ایک اور خونیں واردات
فورٹ ہُڈ ایک بار پھر لہولہان ہے۔کلین (Killeen) ٹیکساس میں واقع یہ فوجی بیس جنرل جان بیل ہُڈ سے منسوب ہے۔امریکی ریاستوں کی یونین کی بجائے کنفیڈریشن کے حامی شکست خوردہ جرنیل کے نام سے منسوب یہ قلعہ ٹیکساس میں آسٹن اور ویکو کے درمیان واقع ہے۔ویکو سے بھی ایک خونیں واقعہ جڑا ہوا ہے، جہاں ایک نئے فرقے کے بانی ڈیوڈ کو روش کو ایف بی آئی نے اس کی پناہ گاہ کے اندر ٹینک داخل کرکے اس کے بہت سے پیروکاروں سمیت ہلاک کردیا تھا۔خود کلین میں Kieeشامل ہے اور شاید یہی اس قلعے کی خون ریزی کی ایک علامت ہے....3اپریل کو اس قلعے میں ایک امریکی سپاہی نے اندھا دھند فائرنگ کرکے تین فوجیوں کومار ڈالا اور سولہ کو شدید زخمی کر دیا،اس کے بعد خود کو بھی ختم کر ڈالا۔اس سے قبل اسی قلعے میں 5نومبر2009ءکو تیرہ فوجیوں کو قتل اور اکتیس کو زخمی کر دیا گیا تھا۔گزشتہ تیس برسوں کے دوران امریکہ میں اس قسم کی اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے قتل کی وارداتوں کی سالانہ اوسط بیس بنتی ہے۔ہر ایسی واردات میں کم از کم چار افراد ضرور قتل ہوئے۔
فورٹ ہُڈ کی اس تازہ ترین خونیں واردات کا تعلق عراق میں لڑنے والے ایک فوجی سے ہے۔فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چونتیس سالہ لوپیز(Lopez) نے عراق میں چار ماہ لڑائی میں حصہ لیا اور وہ شدید صدمے کے مابعد اثرات کے لئے زیر علاج تھا یہ PTSDیعنی ....(Post-Traumatic Stress Disorder)....وہ بیماری ہے جس میں امریکی دہشت گردی کی جنگ میں حصہ لینے والے کم و بیش تمام فوجی مبتلا ہیں، خواہ انہوں نے عراق میں مصر میں یا افغانستان میں جنگ میں حصہ لیا ہو۔اس سے پہلے اس ذہنی عذاب سے ویت نام میں لڑنے والے گزر رہے ہیں، جن کی اکثریت بے گھر ہے اور سڑکوں پر ماری ماری پھرتی ہے۔ویت نام ویٹرنز ذہنی اور مالی مسائل سے دوچار نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
چند ہفتے قبل مَیں اپنے بیٹوں کے ساتھ ”ڈونَٹ“ کے ایک مشہور چین ریسٹورنٹ میں بیٹھا کافی پی رہا تھا کہ ایک ویت نامی ویٹران اندر داخل ہوا۔باہر منفی سات آٹھ درجے کی سردی تھی اور اندر کا ماحول گرم اور کافی کی خوشبو سے معمور تھا۔ویٹران نے ہمیں تاک کر ہمارے سامنے ہاتھ پھیلایا، کیونکہ عام امریکی بھیک دینے میں بے حد کنجوس ہے اور امریکی بھک منگے اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ہم نے اسے کچھ پیسے دیئے، جس سے اس نے ایک کافی اور کھانے پینے کی کوئی چیز خریدی اور گرم ماحول میں ایک میز پر بیٹھ کر کھانے لگا، لیکن ریسٹورنٹ والوں نے اسے وہاں سے دھتکار کر نکال دیا۔اس کے کپڑے گندے اور بدبودار تھے۔داڑھی اور سر کے بال اُلجھے ہوئے تھے اور ہاتھوں پر میل کی پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ناچار وہ اپنی کافی لے کر باہر کی سردی میں نکل گیا۔ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ شیشے کی دیواروں سے اسے کسی پناہ کی تلاش میں سڑکوں پر چکر لگاتے ہوئے دیر تک دیکھتے رہے۔
فورٹ ہُڈ کی تازہ واردات کے بارے میں فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اس میں دہشت گردی کا کوئی امکان نہیں ہے۔لوپیز کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ دونوں میاں بیوی بظاہر ٹھیک ٹھاک تھے، تاہم دہشت گردی کے سلسلے میں مکمل تفتیش کے بعد ہی کچھ حتمی رائے قائم کی جا سکے گی۔لوپیز نے 2011ءمیں عراق میں فوجی ٹرک ڈرائیور کے طور پر فرائض انجام دیئے۔دوران جنگ زخمی ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔اس نے جنگ میں براہ راست حصہ بھی نہیں لیا۔اس دوران اس کو سر کی چوٹ وغیرہ بھی نہیں لگی، لیکن جنگ سے واپسی کے بعد وہ بے خوابی، اعصابی تناﺅ اور صدمے کے مابعد اثرات کا شکار تھا اور اس کا علاج بھی کرا رہا تھا، لیکن ابھی تک مابعد اثرات کی تشخیص نہیں ہو سکی تھی۔وہ ڈپریشن کی دوائیں استعمال کررہا تھا۔
ڈپریشن کی اکثر دوائیں خود ڈپریشن میں اضافے کا سبب ہی نہیں بنتی، بلکہ کئی قسم کے ذیلی اور ضمنی مضر اثرات کی بھی حامل ہیں، لیکن لوپیز کو بے آرامی اور بے خوابی وغیرہ کی شکایات پیدا ہوئیں تو اسے یہ دوائیں استعمال کرائی گئیں۔2009ءمیں میجر ندال حسن نے فائرنگ کرکے تیرہ افراد کو ہلاک اور اکتیس کو زخمی کر دیا تھا۔میجر ندال بھی ذہنی انتشار اور دباﺅ کا شکار تھا۔وہ نفسیات دان تھا اور اسے لوپیز جیسے فوجیوں سے روزانہ واسطہ پڑتا تھا۔وہ شادی شدہ بھی نہیں تھا۔تنہائی بھی اس کا مسئلہ تھی، لیکن محاذ جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں کے مسائل اور داستانیں اس کے ذہنی خلفشار کا باعث تھیں۔میجر ندال کے بارے میں بھی دہشت گردی یا دہشت گردوں سے کوئی تعلق سامنے نہیں آیا۔میجر ندال کا کورٹ مارشل ہوا اور فوجی جیوری نے دو گھنٹے کی سماعت کے بعد سزائے موت سنا دی۔کہا گیا کہ اس نے فائرنگ کرتے وقت نعرئہ تکبیر بلند کیا تھا، لیکن عدالت میں حاضری اور سزائے موت پانے کے وقت بھی اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔اسے فوجی عدالت میں ویل چیئر پر لایا گیا تھا، کیونکہ گرفتاری کے وقت اسے جوگولیاں ماری گئی تھیں، اس سے اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا تھا۔
میجر ندال کی فائرنگ کے فوراً بعد میڈیا نے اس کے نعرئہ تکبیر بلند کرنے اور جہادکے بارے میں خیالات رکھنے کے بارے میں باتیں کیں، یہاں تک کہ میڈیا کے بعض افراد کا کہنا تھا کہ جاسوسی کی بدنام زمانہ ایجنسی این ایس اے نے میجر ندال کی ایسی ای میلز دیکھی تھیں، جن کے ذریعے اس کا یمن کے اولاکی سے رابطہ تھا، لیکن مقدمے کے دوران یہ تمام باتیں سامنے نہیں آئیں۔مقدمے کے دوران بیان کردہ واقعات کے مطابق میجر ندال کو افغانستان میں تعینات کیا جا رہا تھا۔وہ ان فوجیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، جنہیں افغانستان جانا تھا اور انہیں حفاظتی ٹیکے لگائے جا رہے تھے۔میجر نے وہاں موجود ایک غیر فوجی خاتون کو چلے جانے کو کہا اور اس کے بعد فائرنگ شروع کردی۔اس میں اس کے نعرئہ تکبیر کا کوئی ذکر نہیں آیا۔
مقدمے میں مقتولین کے پسماندگان کی درد بھری داستانیں سنوائی گئیں اور سرکاری وکیل میجر مُلی گن نے بھی جذباتی تقریر کی اور میجر ندال کو خونی قرار دیا۔اس نے یہ بھی کہا کہ ”یہ شہادت کا طلبگار ہے....مگر ہم اسے شہادت نہیں سزائے موت دے رہے ہیں۔یہ موت اس کی اختیار کردہ نہیں، ہماری دی ہوئی ہے“۔ 1961ءکے بعد میجر ندال پہلا فوجی تھا، جسے کسی جرم میں سزائے موت دی گئی۔مقتولین کے ورثاءنے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔اس کو سرکاری طور پر دیئے گئے وکیل صفائی نے اس مقدمے میں وہی کردار ادا کیا جو عموماً ایسے وکیل ادا کرتے ہیں۔اس نے ندال کو سزائے موت دینے کی بجائے عمر قید کی سفارش تو کی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسے یہ سزا اس کے مذہب اسلام کی وجہ سے نہ دی جائے، بلکہ اس کے مذہب کے نتیجے میں نفرت اور اشتعال پر سزا دی جائے۔ اس مقدمے میں ایک اور دلچسپ صورت حال دیکھنے میں آئی، جب فوجی جج اس بات پر اڑ گئے کہ ملزم کی داڑھی زبردستی مونڈ دی جائے، اگر وہ خود مونڈنے پر تیار نہیں ہے۔داڑھی کے مسئلے کو اس قدر بڑھایا گیا کہ اس کے لئے کئی بار سماعت ملتوی کی گئی۔
لوپیز کے بارے میں کوئی خدشات نہیں ہیں،کیونکہ وہ خود ہی ان خدشات سے دور چلا گیا ہے، تاہم واردات کے فوراً بعد یہ کہہ دیا گیا کہ اس کا نہ تو دہشت گردی سے کوئی تعلق تھا ،نہ اس کی ذہنی حالت کو مخدوش قرار دیا گیا تھا۔کیا فورٹ ہُڈ کی یہ دونوں وارادتیں ایک عجیب فرق کو نمایاں نہیں کرتیں جومُلزم کی پہچان سے تعلق رکھتا ہے۔ایک واردات میں صفائیاں دی جاتی ہیں، جبکہ دوسری واردات میں مختلف حوالوں سے حاشیہ آرائی کی جاتی ہے۔ایک وارادت کو بآسانی ذہنی خلفشار کا نتیجہ مان لیا جاتا ہے، جبکہ دوسری واردات کو نہ صرف سفاکانہ رنگ دیا جاتا ہے، بلکہ ساتھ ساتھ مذہب کو بھی اس میں شامل کردیا جاتا ہے۔ ٭