نیشنل ایکشن پلان۔۔۔ابھی یا کبھی نہیں
کسی بھی ملک کی مضبوط معیشت اس کی ترقی و بقا کی ضامن ہوتی ہے۔اگر ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی تو ہی معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگااور ملک کے عوام خوشحال ہوں گے اور ملک تیزی سے ترقی کی منازل طے کرے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے پیارے ملک پاکستان پر کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے آسیب نے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں جس سے معاشی سرگرمیاں معدوم ہوکر رہ گئیں اور ملک کسی بھی شعبہ میں نمایاں ترقی حاصل نہ کرسکا۔ملک کے ہزاروں لوگ دہشت گردی کا شکار ہوئے اور بے شمارلوگ اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے۔ 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور کا المناک سانحہ پیش آیا جس میں کئی معصوم بچے اور اساتذہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے اور اپنے پیاروں کو بلکہ پورے ملک کو روتا چھوڑ گئے۔ اس واقعہ پر کوئی ایک آنکھ بھی ایسی نہیں تھی جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ اس واقعہ نے پوری پاکستانی قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔اس واقعہ نے حکومت ، تمام سیاسی جماعتیں، تمام ادارے، فوج، پولیس اور تمام ایجنسیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا۔ نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں مربوط حکمت عملی ترتیب دی گئی اور ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عہدکیاگیا۔
صوبہ پنجاب نے دیگر صوبوں پر سبقت لے جانے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے دہشت گردوں کے خاتمہ اور صوبہ میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے فوج، ایجنسیوں اور پولیس کے مشترکہ آپریشن نے صوبہ میں چھپے بیٹھے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی نیند یں حرام کر دی ہیں ۔ آج پوری قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحدہوچکی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج اور خفیہ اداروں کی معلومات کی روشنی میں مشترکہ کارروائیوں کے ذریعے پنجاب پولیس نے دسمبر2014سے اپریل2015کے دوسرے ہفتے تک صوبہ پنجاب میں دہشت گردی کے خلاف 15764آپریشن کئے۔364544افراد سے پوچھ گچھ کی گئی اور 2909لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ جنرل ہولڈاپ کے دوران 9889ہتھیار برآمدکئے گئے، اسلحہ کی نمائش پر 1027افراد کے خلاف کارروائی کی گئی اور 905کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ بغیر نمبرپلیٹ کی 240585گاڑی مالکان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ جعلی سرکاری نمبر پلیٹس پر 10664،غیرقانونی نمبرپلیٹس پر 149721، غیرقانونی طور پر نیلی بتی لگانے پر 484اور کالے شیشوں والی 87226گاڑیوں کے مالکان کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔ نفرت پر مبنی مواد رکھنے اور نمائش کرنے پر 414افرادکو گرفتارکیاگیا۔ اشتعال انگیز تقاریر کرنے پر 193افراد کو گرفتار کیاگیا۔ساڑھے تین ماہ کی قلیل مدت میں بلاامتیاز کارروائی پر قانون نافذ کرنے والے ادارے بلاشبہ لائق تحسین ہیں۔وزیراعظم پاکستان کی قیادت میں دہشت گردوں کے خلاف غیرمعمولی اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج قومی قیادت ایک پیج پر آچکی ہے اور قومی قیادت کی طرف سے کئے جانے والے فیصلوں کو پوری قوم کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن آرڈیننس 2015کا اجراء کیا ہے جس کے تحت لاؤڈ سپیکر کے غیرضروری استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے عوامی مقامات پر لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی ممانعت اور مذہبی مقامات پر اس کا استعمال محدود کردیا گیا ہے اور صوبہ بھر میں ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن آرڈیننس 2015کے تحت خلاف ورزی کے مرتکب 4406افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 4427افراد کو گرفتار کیاجاچکا ہے۔سزائے موت کے منتظر 65مجرمان کو موت کی سزا دی گئی ہے۔
صوبہ میں وال چاکنگ آرڈیننس 2015کے اجراء سے فرقہ پرستی اور انتہاپسندی کے عنصر میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے اور وال چاکنگ کو قابل دست اندازی پولیس جرم اور ناقابل ضمانت قراردے دیاگیا ہے اور اس جرم کے مرتکب کو6ماہ قید اور 25ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکے گا اور وال چاکنگ کرنے والا ، کروانے والا اور جس کے حق میں وال چاکنگ ہوگی سب کو مجرم تصور کیاجائے گا۔ پنجاب حکومت نے اس جرم کے مرتکب 544افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اب تک 501مجرمان کو گرفتار کیا ہے۔حساس تنصیبات کے تحفظ کے آرڈیننس اور پراپرٹی ڈیلرز اور مالکان کیلئے ترمیمی آرڈیننس 2015کے اجراء سے ہوٹل، گیسٹ ہاؤس اور مالک مکان کوکرایہ دار کے کوائف48گھنٹے میں پولیس کو فراہم کرنے جبکہ تمام ہوٹلز کو مہمان کوکمرہ دینے کے 3گھنٹے کے اندر پولیس کو مطلع کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
صوبہ کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے حکومت پنجاب نیشنل ایکشن پلان پر ہر طرح سے عمل کر رہی ہے جس سے صوبہ میں جرائم کی شرح میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ قبل ازیں مختلف جرائم کی انتہائی کم سزائیں ہونے کے باعث جرائم پیشہ لوگوں کے دلوں سے قانون کا احترام ختم ہونے جا رہا تھا مگر ان آرڈیننسوں کے اجراء سے جرائم پیشہ لوگوں کے دلوں میں ڈر پیدا ہوا ہے جس سے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت حکومت نے شیڈول 4کے مشکوک افراد کو نقل و حرکت پر نگاہ رکھنے کیلئے جدید ترین ڈیوائس کے ذریعے ان کی مسلسل مانیٹرنگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ یہ جدید ڈیوائس مشکوک افراد کے ساتھ ٹیگ کر دی جائے گی اور وہ جہاں کہیں بھی جائے گا کمپیوٹر کے ذریعے اس بارے معلومات حاصل ہوتی رہیں گی کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور جونہی وہ اس ڈیوائس کو خود سے الگ کرنے کی کوشش کرے گا اس کی اطلاع بھی کمپیوٹر کے ذریعے فوری حاصل ہوسکے گی اور اسے فوری گرفتار کیا جاسکے گا۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس میں غیرقانونی طور پر زیرتعلیم غیرملکی طلباء کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ ان طلباء کے ویزوں کی میعاد ختم ہوچکی تھی۔اسی طرح بعض ایسے دینی مدارس کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز متوقع ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس پر بعض دینی جماعتوں اور دینی مدارس کی انتظامیہ نے بھی بہت واویلا کیا مگر ملک کو جن حالات کا سامنا ہے دینی جماعتوں کو اس ضمن میں حکومت کی مدد کرنی چاہیے اور اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرنا چاہیے۔حکومت بھی اس سلسلہ میں واضح کرچکی ہے کہ تمام دینی مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں بلکہ صرف چند دینی درسگاہیں ملک کے امن کو تباہ کرنے کی مذموم سازش میں ملوث ہیں جن کے خلاف ثبوت اکٹھے کئے جا رہے ہیں اور یہ کارروائی مکمل ہوتے ہی ان کے خلاف بھی گرینڈ آپریشن شرع کر دیا جائے گا۔
دہشت گردی کے انسداد کیلئے پنجاب حکومت کی طرف سے کئے گئے کئی اقدامات میں انسداد دہشت گردی فورس کا قیام نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں اس فورس کا قیام عمل میں لایا گیا اور این ٹی ایس کے ذریعے 100فیصد میرٹ پر اس فورس میں قابل ترین نوجوان لڑکے لڑکیوں کو کارپورلز کے طور پر بھرتی کیاگیا ہے، اب تک 845کارپورلز کو تربیت دی جاچکی ہے۔ فوج کے سپیشل سروسز گروپ کے افسران و اہلکاران نے دن رات ایک کرتے ہوئے اس فورس کو فوج کی طرز پر تربیت کی ہے اور اس فورس کو ہرقسم کے حالات کا مقابلہ کرنے اور خصوصاً دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے ٹرینڈ کیاگیا ہے۔ اس فورس کے 2دستے اپنی تربیت مکمل کرکے عملی کام کا آغاز کرچکے ہیں۔اس فورس کو سپیشل آپریشن ، انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن کے معاملات کی جدید ترین ٹریننگ دی گئی ہے۔ یہاں اگر پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی کاوشوں کا ذکر نہ کیا جائے تو بہت زیادتی ہو گی ۔صوبائی وزیر ان کارپورلز کی تربیت کے دوران ہفتہ میں دو سے تین بار باقاعدگی سے ایلیٹ پولیس ٹریننگ سکول بیدیا ں روڈ کے دورے کرتے رہے اور ان کارپورلز کے تمام تربیتی مراحل کا بغور جائزہ لیتے رہے۔صوبائی وزیر کی زیادہ تر ملازمت فوج کے ادارے آئی ایس آئی کی ہے جس کے باعث وہ ان کارپورلز کے تربیتی مراحل میں جدید تقاضوں کے مطابق ترامیم بھی کرتے رہے اور انہوں نے وزیر اعلی پنجا ب کو اس ضمن میں مکمل طور پر با خبر بھی رکھا۔اس فورس کی پہلی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف اور آرمی چیف نے خصوصی طور پر شرکت کی اور اس فورس کی تربیت پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کی تیاری اور عملدرآمد میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں ، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور علماء کرام نے بھرپور تعاون کیا ہے مگر صوبہ پنجاب میں اس پر عملدرآمد میں وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے کاؤنٹرٹیررازم فورس کا قیام عمل میں لاکر دوسرے صوبوں سے سبقت لے جانے کی اپنی روایت نہ صرف برقرار رکھی ہے بلکہ صوبے میں سیف سٹی پراجیکٹ متعارف کروا کر ایک بار پھردوسرے صوبوں کو تقلید پر مجبور کر دیا ہے۔ان کی انتھک کوششوں اور فوری قوت فیصلہ کے باعث وہ دن دور نہیں جب ہم سب سکیورٹی کے خدشات سے بے پرواہ ہوکر چین سے زندگی بسر کرسکیں گے۔
نیشنل ایکشن پلان پر تیزی سے عملدرآمد جاری ہے اگرہم صوبہ و ملک میں امن و امان کے قیام اور حکومت کی رٹ قائم کرنا چاہتے ہیں اور دنیا میں ایک خوشحال اور پرامن پاکستان کا تصور اجاگر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نیشنل ایکشن پلان کو ہمیشہ جاری رکھنا ہوگا تاکہ کوئی دشمن ملک یا دہشت گرد ہمارے ملک کے امن کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ پائے۔ حکومت، فوج، سیاسی جماعتوں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ایک پیج پر آکر اور اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرکے امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کافی حد تک اپناکردارادا کیا ہے مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا ہم بطور پاکستانی اور بحیثیت شہری اپناکردار ادا کر رہے ہیں؟میرے رائے میں اگر ہر پاکستانی شہری آئندہ نسلوں کی بقا اور انہیں پرامن ماحول فراہم کرنے کا تہیہ کرلے اور اپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھانے کا عزم مصمم کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ سالوں نہیں بلکہ ہم چند ہفتوں میں ملک سے دہشت گردی کا صفایا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔