معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘
تئیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
وہ نہ جانے کیا کچھ کہتا رہا.... میں تو اپنے دھرم میں مگن تھی۔ جس کا صرف ایک ایمان تھا.... انتقام‘ انتقام۔ انتقام.... اس رات سادھو.... سات مردوں کی راکھ لے کر آیا تھا۔ اونٹ کے کولہے کی ہڈی پر جاپ منتر لکھے تھے.... اور ایک جانور کی چربی.... بابا میں اسکا نام نہیں لے سکتی.... اسکی چربی سے دیا جلانا تھا.... بڑا مکروہ عمل تھا.... مجھے چالیس الوﺅں کے خون سے اشنان کرنا تھا.... یہ بڑا مکروہ اور سخت کالا عمل تھا.... جو زبیدہ اسکے بچے کی موت.... اور پھر اکبرے کی بربادی کے عوض مجھے کرنا تھا۔ میں نے اس رات.... وہ عمل کیا.... خود سے بے نیاز ہو کر.... تن من سے آزاد ہو کر.... بے حجاب ہو کر.... بابا.... یہ حجاب اور شرم و پردہ کالا علم کرنے والوں کے ہاں نہیں ہوتا.... وہ کہتے ہیں اگر روح بے پردہ ہے تو یہ بدن بھی بے پردہ ہونا چاہئے.... اسی لئے تو بابا.... بابا.... وہ لوگ جو کالا علم کرتے ہیں.... عورتوں کو بے پردہ اور بے شرم کر دیتے ہیں جو ان کے آستانے پر آتی ہیں.... ان غرض مند اور اندھی عقیدت کے گندے نالوں میں غوطے کھانے والی عورتوں کے جسموں پر کالے تعویذ لکھتے ہیں۔ بابا.... یہ کالی دنیا بڑی ہی بے شرم ہے۔ میں نے اس رات عمل کیا.... اور طے کر لیا کہ اکبرا بھی زندہ نہیں رہنا چاہئے.... میں نے اس پر خود کو کھول دیا تھا اور اب وہ دوسرے لوگوں کو میرے بارے بتا سکتا تھا.... پس .... صبح سویرے مجھے معلوم ہو گیا کہ زبیدہ رات بھر تڑپتی رہی ہے مگر اسکے بچے کو گاﺅں کی دائی نے بچا لیا.... اسکا بچہ زندہ رہ گیا تھا.... اکبرا تو نیم بے ہوش تھا۔ اس پر دیوانگی طاری ہو گئی تھی۔ میں اسکے گھر گئی.... اور میں نے اکبرے کو وہ پانی پلا دیا جس میں سات مردوں کی راکھ ملائی تھی.... وہ ہوش میں آ گیا مگر اب اسکی دنیا بدل گئی تھی۔ آنکھیں تاثرات اور جذبات سے خالی ہو گئی تھیں.... میں نے سوچا.... ٹھیک رہے گا یہ دیوانگی میں.... یہ جیتا جاگتا میرا انتقام ہو گا۔ اسے دیکھوں گی تو مجھے شانتی ملے گی۔ میں نے اسکے بچے کو دیکھا۔ گول مٹول چاندکا ٹکڑا....
”اللہ نے کاکا دیا ہے منداں ملنگنی.... یہ سب تری دعاﺅں سے ہوا ہے.... زبیدہ بے چاری رات بھر تڑپ تڑپ کر مر گئی.... اکبرا تو اسے دیکھ کر پاگل سا ہو گیا۔“ دائی مجھے بتا رہی تھی....“ میں نے زبیدہ کی چیخیں سنیں تو بھاگتی ہوئی آ گئی۔ اس کھلے آسمان کے نیچے وہ تڑپ تڑپ کر مر گئی.... یہ رات بڑی خوفناک تھی.... میں اللہ رسول کی مالا جپتی رہی.... اور اس کالی کملی والی سرکار نے مجھے ہمت دی اور میں نے زبیدہ کے بچے کو بچا لیا.... تو جانتی ہے منداں سرکار.... میرے پاس بزرگوں کا دیا ہوا ایک تعویذ ہے۔ جو ماں بچے کو لاکھ بلاﺅں سے بچاتی ہے۔ افسوس مجھے اس وقت خیال آیا جب زبیدہ مر گئی.... ورنہ میں اسکے گلے میں وہ تعویذ ڈال دیتی تو وہ منحوس رات میں یوں تڑپ تڑپ کر نہ مرتی۔ میں نے تعویذ منگوایا اور بچے کے گلے میں ڈال دیا.... یہ جب پیدا ہوا تو بہت زیادہ رو رہا تھا.... لیکن اب خاموش ہے.... دیکھ تو۔ کتنا پیارا ہے بچہ.... ہائے بابا....“ ملنگنی منداں.... کربناک انداز میں چلائی تھی۔“ بابا.... میرے اندر نفرت کا لاوا ابل پڑا تھا۔ میں نے بچے کو زندہ دیکھا تو مجھے آگ لگ گئی....“
دائی نے دیکھا تو وہ میرے اندرونی کرب کو کچھ اور ہی سمجھی تھی۔ کہنے لگی۔
”ملنگنی.... اب تو ہی اسکی وارث ہے۔ یہ تیرا بھتیجا ہے۔ لے اسے سنبھال....“
وہ سمجھی تھی زبیدہ کی موت نے مجھے غم زدہ کر دیا ہے اور رنج و ملول سے جذباتی ہو گئی ہوں.... اس نے بچہ میری گود میں دے دیا.... میں نے جونہی بچے کو ہاتھ لگایا وہ بلکنے لگا.... بہت تڑپ تڑپ کر رویا.... میں تو سمجھتی تھی وہ کیا رو رہا ہے۔ اسکی زباں ہوتی تو وہ کہتا کہ مجھے اس کتیا سے بچاﺅ.... یہ میری پھوپھی نہیں ڈائن ہے.... دائی نے بچہ میرے ہاتھ سے لے لیا تو وہ خاموش ہو گیا.... مجھے اب دائی پر بھی غصہ تھا۔ اس نے برکت والا تعویذ اسکے گلے میں ڈال رکھا تھا۔ اس نے بچے کو میرے قہر سے بچایا تھا۔ میں رات بھر وہاں رہی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ بچے کے گلے سے تعویذ اتار دوں۔ لیکن میں کامیاب نہ ہو سکی۔ کوئی طاقت اسکی حفاظت کر رہی تھی۔ مجھے بڑا غصہ بھی آ رہا تھا اور خطرہ بھی محسوس ہو رہا تھا۔ سادھو کی بات درست ہوتی نظر آ رہی تھی کہ اللہ کے سچے بندے‘ ان بستیوں کی طرف آ رہے ہیں۔ اللہ ان بچوں اور لوگوں کو شیطان سے بچا رہا ہے۔ میں اللہ سے تو نہیں لڑ سکتی تھی۔ مجھے اللہ سے شکوہ بھی تھا۔ لیکن آج میں جان گئی ہوں.... اسنے انسان مختار بنایا ہے۔ اسکی قسمت کو اسکی محنت اور دعاﺅں سے بدلتی ہے.... لیکن میں تو صرف دنیاوی طاقت کے لئے اللہ سے غافل ہو گئی تھی۔ بابا....میں نے ایک کافر کے کہنے پر جتنی محنت کر کے کالا علم حاصل کیا.... اگر اس سے کم محنت کر کے اپنے اللہ سے لو لگاتی تو میں یوں نہ بھونکتی پھرتی....“
”تو پھر اس بچے کا کیا بنا....“ میں نے ایک طویل توقف کے بعد ملنگنی سے سوال کیا.... اس نے پرآشوب نظروں سے میری طرف دیکھا....
”وہ بچہ زندہ ہے۔ نہ جانے کس کی دعا سے.... میں نے ہزاروں عمل کئے.... لیکن اس بچے کا ایک بال بھی بیکا نہ کر سکی۔ ہاں میں نے.... اس دائی کو بھی مار ڈالا.... اب وہ بچہ ایک سال کا ہو گیا ہے.... زبیدہ کی ماں اسے لے گئی ہے.... اکبرا سارا سارا دن قبرستان کے باہر خارش زدہ کتے کی طرح چلتا پھرتا اور گرتا پڑتا نظر آتا ہے.... اسے دیکھتی تھی تو ٹھنڈک ملتی تھی میرے کو.... اور جب اسکے بچے کا سوچتی.... ہاں کیا نام تھا اس کا.... محمد علی.... بابا.... تم ہی بتاﺅ.... ایک بچہ جس کا یہ نام ہو.... اس پر جادو کا وار کیسے چل سکتا ہے۔ اس نام میں بڑی روحانی قوت جمع ہے بابا.... بچے کو ہلاک کرنے کے لئے ہی میں اس قبرستان میں آئی تھی.... اور پکڑی گئی.... بابا سرکار کی پکڑ بڑی سخت نکلی اور پھر میں نے بھید پا لیا.... کہ سچائی میں کتنی طاقت ہے۔ سچائی ہر طرح کی بناوٹ سے پاک ہے۔ اس میں کوئی کمزوری نہیں ہے....“
”اب تم کیا کرو گی....“ میں نے اس سے دریافت کیا....
”جو بابا سرکار کہیں گے....“ اس نے ٹاہلی والی سرکار کی طرف دیکھا....تو وہ خاموش ہو کر دور خلاﺅں میں کچھ کھو جتے ہوئے نظر آئے....خاصی دیر خاموشی رہی....پھر بولے۔
”تو واپس اپنی بستی میں چلی جا....اسی بھیس میں....مگر اب تو پاکیزہ رہے گی۔ اس سادھو اور پنڈت کے شیطانی اعمال کو ختم کرنا ترے ذمہ ہے....پھر میرے اللہ اور سوہنے کالی کملی والے نے چاہا تو تجھے پھر سے فیض ملے گا....مگر یہ فیض۔۔۔۔ چشمہ نور ہدایت سے حاصل ہو گا....یہ لے....اور اب اسے اپنے اوپر اورڑھ لے۔پہلے تو صرف داسی تھی.... ملنگنی اب ہو گئی ہے ۔“ٹاہلی والی سرکار نے اپنی سیاہ چادر اتار کر اسے اوڑھا دی۔
”تو اکبرے کو بھی معاف کر دے اور اس سے بھی معافی مانگ لگے.... اللہ معاف کرنے والوں کا دوست ہے ۔۔۔بیشک یا ولی یا ممیت بحق یا عزیز ۔۔وہی ذات کریم شرم و گناہ کی لاج رکھتی ہے“....ٹاہلی والی سرکار نے اسے اپنی خلعت سے نوازا اور پھر....وہ چلی گئی....میں شام ہونے تک وہیں ٹھہرا رہا....خاموش،اسرار قدرت پر غور کرتا ہوا۔ نہ جانے کن جہانوں کی تلاش ہو گئی تھی مجھے.... ٹاہلی والی سرکار نے بھی مجھ سے کوئی کلام نہیں کیا۔شام کی اذان کی ہلکی سی آواز آرہی تھی.... ٹاہلی والی سرکار نے اذان سنی تو کچھ دیر بعد بولے۔”تو نماز پڑھتا ہے“۔
میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔”باقاعدہ نہیں پڑھتا....“
”باقاعدہ پڑھا کر....اور تہجد بھی پڑھا کر.... یہ جو وظائف تجھے بتائے ہیں ۔اگر تو تہجد کے وقت پڑھا کرے تو تری کائنات ہی بدل جائے گی۔پھر تجھے معلوم ہو گا کہ سچائی کیا ہے ۔علم کی صداقت اور طاقت کا کیا عالم ہے....اللہ والے اس پہر سجدے سے سر نہیں اٹھاتے۔ جو لطف رات کے اس پہر آتا ہے....شاید دن بھر میں وہ میسر نہیں آتا....“
”جی سرکار....ایک وقت تھا۔ جب میںآٹھ نمازیں باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ تہجد،اشراق ،نماز توابین....کوئی نفلی نماز بھی نہیں چھوڑتا تھا۔ ان دنوں میں غرض مند تھا۔....میں میٹرک کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا....اور اپنے آپ کو ہار کر اللہ کے سپرد کر دیا تھا....دن رات عبادت کرتا تھا.... لیکن جب نے میں میٹرک میں فرسٹ ڈویژن لی، سکول میں ٹاپ کیا....تو پھر عبادتیں ختم ہو گئیں....میں نے سوچا یہ تو سب میری محنت کا نتیجہ تھا.... لیکن اب سوچتا ہوں کہ یہ تو فیض الٰہی تھا۔اس نے مجھے اپنی عطا سے میرے علم کو مہمیز دی اور دنیاوی تعلیم میں مجھے درجات عطا کئے....ہم بڑے کمینے لوگ ہیں۔جب مشکل پڑتی ہے تو اسکے سامنے جھکتے ہیں۔کاش میرے جیسے بدبخت سکھ میں بھی اسکے سامنے ہی جھکا کریں....اور اس مغالطے میں نہ رہا کریں کہ یہ سب تو میں نے اپنی محنت سے پایا........“
”بچے....محنت سے سب کچھ ملتا تو آج سارے مزدور دولت مند ہو جاتے ۔رازق تو اللہ کی ذات ہے۔وہ جب تک خود عطا نہ کرے انسان کی محنت اور لیاقت کو پھل نہیں لگتا۔“
”بابا.... کیا بات ہے ہمارا رب کافروں پر کچھ زیادہ ہی مہربان نہیں ہے....“ میں اپنی زبان پر رکا ہوا ایک سوال کئے بغیر نہ رہ سکا۔
”تو بڑا حجتی ہے شاہد.... قرآن پاک پڑھے گا تو تجھے سمجھ آجائے گا....اللہ فرماتے ہیں ۔وہ سارے جہانوں کا خالق ہے ۔اللہ اسکو بھی دیتا ہے جو اسکی عبادت نہیں کرتا....جو کافر ہے اسے بھی ملتا ہے شداد اور فرعون کو بھی اس نے دیا....اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔اسے بہت سے اختیارات دئیے ہیں۔اس لئے تو وہ اللہ کا خلیفہ کہلاتا ہے....انسان تو روح اللہ کا ایک پر تو ہے جسے اس ذات نے بنایا اسے بہت سی چیزوں پر مختار بھی تو بنایا ہے۔اس نے اپنے قواعد سے انسانوںکو آگاہ کر دیا ہے ۔جس طرح ایک مشین بنائی جاتی ہے تو کار خانے والے اس مشین کے منفی و مثبت استعمالات و اثرات کا ایک پرچہ بھی ساتھ دیتے ہیں۔جس طرح ہر کام کو انجام دینے کے قواعد ہیں اسی طرح یہ کائنات بھی ایک قاعدے کی پابند ہے۔ ہر مخلوق اپنے اپنے قاعدے اور نظام میں چل رہی ہے ۔تو یہ انسان خود کو اس قاعدے قانون سے خود کو ماورا کیوں سمجھتا ہے؟ قواعد یعنی اس خاکی مشین کے افعال کے ضوابط یہ بتاتے ہیں کہ اسے مسیحائی کا ساتھ دینا ہے،اللہ کی راہ پر چلنا ہے،مخلوق خدا کے حقوق ادا کرنے ہیں۔اسکا کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا....مساوات اور عدل سے کام لینا ہے....رزاق اس ذات الٰہی کو ہی تسلیم کرنا ہے۔ہاں....رزق کے لئے وسیلہ تو یہ انسان ہی بنتے ہیں....اس طرح تو یہ جانور....یہ زمین....یہ ہوا....سب ہمارے وسیلے ہیں۔ زندگی ،بھوک،دولت، ثروت ،اولاد.... سب کچھ اسی نظام کے قواعد میں دستیاب ہے۔ اس لئے....کبھی تو نے اللہ والوں سے یہ سنا ہے ۔کہ تم کافر ہو اس لئے تمہارے لئے دعا نہیں کروں گا ....اللہ کا نظام یہ نہیں کہتا اور نہ ہی تعصب کا شکار ہے۔ وہ ذات کریم سارے جہانوں کی خالق ہے اور اس نے سب کو عطا کرنا ہے۔ ہاں جو شیطان کی تعلیمات پر چلتے ہیں وہ اللہ کی عطا اور امانت میں خیانت کرتے ہیں....“ٹاہلی والی سرکار کی گفتگو نے میرے دل و دماغ میں اٹھنے والے سوالوں کا رخ موڑ دیا....اور مجھے بہت کچھ سمجھا دیا تھا....کہنے لگے۔”اگر تو کچھ پانا چاہتا ہے تو خاموش ہو جا....حجت کرنا چھوڑ دے۔ صرف دیکھتا جا۔ایک روز کیمیا گر بن جائے گا....اپنی آنکھیں بند کرلے....مگر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا....اس کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکنا‘۔۔۔لیکن اس کے دوستوں کی تعظیم سے بھی غافل نہ رہنا“ میں جب واپس حویلی آنے کے لئے اٹھا تو وہ کہنے لگے۔”ریاض شاہ حویلی واپس آچکا ہے....اب تو معاملات کو احسن طریقے سے چلنے دو گے....تمہارے بابا جی بھی آئیں گے.... تم کوئی حجت نہ کرنا ....صرف دیکھتے جاﺅ....میں نے انہیں سمجھا دیا ہے....“۔
میں واپس حویلی پہنچا تو واقعی ریاض شاہ زلیخا کو لیکر واپس آچکا تھا ۔زلیخا کی حالت معمول پر تھی۔ میں نے محسوس کیا۔اسکے چہرے پر کسی قسم کی ندامت نہیں تھی۔ میں نے چاچا جی اور چاچی کو سمجھا دیا تھا....اور ان سے عہد لیا تھا کہ فی الحال وہ ریاض شاہ کے ساتھ کسی فساد میں نہ پڑیں۔ریاض شاہ مجھ سے بڑی بے تکلفی سے ملا تھا۔ ایسا لگا جیسے ہمارا برسوں کا یارانہ ہے.... میں نے زلیخا کے بارے میں اس سے کوئی گفتگو نہ کی تھی۔
عشاءکا وقت ہو چکا تھا۔میں نے نماز ادا کی.... اور واپس ریاض شاہ کے پاس کے پاس چلا گیا۔ وہ مراقبہ کی حالت میں چادر بچھا کر بیٹھا ہوا تھا....مجھے بابا جی سرکار کی حاضری کا انتظار تھا....ریاض شاہ نے مجھے دیکھا تو کہنے لگا....”بابا جی سرکار نے تجھے بلایا ہے....“
”کہاں ہیں وہ ....“میں نے پوچھا۔
”تم....گاﺅں کے چوراہے پر چلے جاﺅ....وہ تمہیں ادھر ہی ملیں گے....“
”میں وہاں کیوں جاﺅں....“ میں نے گھبرا کر پوچھا۔
”میں نہیں جانتا....انہوں نے ہی بلایا ہے۔کہتے ہیں شاہد میاں جب تک خود مجھے لیکر حویلی نہیں آئیں گے میں حاضری نہیں دوں گا....“ریاض شاہ کے لبوں پر عجیب سی استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔میرے دل میں آیا کہ نہ جانے اب یہ کونسا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں....مجھے وہاں نہیں جانا چاہئے....لیکن پھر مجھے ٹاہلی والی سرکار کی باتیں یاد آگئیں....اور جب رات کے گیارہ بارہ بجے ہوں گے۔میں گاﺅں کے چوراہے پر چلا گیا....
٭٭
ہر سو اندھیرے کا راج اور سناٹا تھا۔ یوں لگتا جیسے آج رات کے دھڑکتے دل کو کسی نے اپنی مٹھی میں لے لیا تھا۔ جھینگروں کا شور تھا نہ کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ چوکیدار بھی ایک بار ”جاگتے رہو“ کی صدا بلند کر کے طویل خاموشی اختیار کر گیا تھا۔ سیاہ رات میں ایسی سنسانی اور لرزہ طاری کر دینے والی سرد مہر خاموشی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میں راستوں کو ٹٹولتا ہوا چوراہے تک پہنچ گیا تھا۔ میں نے چاہا تھا کہ لالٹین اپنے ساتھ رکھ لوں.... مگر ریاض شاہ نے منع کر دیا تھا۔ اس نے کہا تھا۔
”رات کی سیاہی تمہارے راستوں کو روشن کر دے گی۔“ میں حیران تھا کہ کبھی اندھیرا بھی روشنی بن سکتا ہے۔ شاید میرے اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔ ”تم نے کبھی غور کیا ہے اندھے انسانوں کے لئے دن اور رات ایک جیسی ہے۔ تم یہ احساس قائم کر کے آج اس سیاہ رات میں اپنی اس منزل کی طرف قدم بڑھاتے چلے جاﺅ جو پھر تمہیں روشنی کا محتاج نہیں بنائے گی۔“
میں دل سے ریاض شاہ کی کسی روحانی کرامت کا معترف نہیں رہا تھا۔ میں نے چپ کی چادر اوڑھ لی تھی اب خاموش رہ کر مجھے ان لوگوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا عہد کر چکا تھا۔ میں ٹھوکریں کھاتا ہوا چوراہے تک پہنچا تھا۔ میرے لئے یہ اندھیرے روشنی ثابت نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی چوراہے تک پہنچنے کے لئے مجھ پر کسی کرامت کا ظہور ہوا تھا۔ چوراہے میں کھڑا ہو کر گرد و پیش کا جائزہ لینے لگا تھا۔ مجھے اپنے سوا کسی وجود کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ میری نظر تھک کر واپس اپنے مدار میں آ گئی۔ روشنی کی ایک کرن بھی آسمان کے کسی پہلو سے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ یونہی مجھے دس بیس منٹ گذر گئے.... اور پھر مجھے محسوس ہونے لگا کہ مجھ جیسا بے وقوف انسان شاید ہی اس دنیا میں ہو گا جس نے آنکھیں بند کر کے اس سیاہ اور ظلمی رات میں یہاں آنے کا فیصلہ کیا تھا.... مجھے لگا جیسے کسی نے میری نظربندی کر کے مجھے یہاں بھیج دیا تھا.... بابا جی کا سواگت کرنے کے لئے.... مگر بابا جی کا نام و نشاں تک دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مجھے اب خوف محسوس ہو رہا تھا۔ میرا وہم بھرے ہوئے گٹر کی طرح شعور کے کناروں سے ابلنے لگا تھا.... میں گھبرا گیا اور پسینے پسینے ہو گیا۔ میں درود ابراہیمی پڑھنے لگا۔ اسکے سوا میرا کوئی محافظ نہیں تھا۔ کوئی سہارا نہ تھا کہ میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاﺅں۔ میں اپنا اسم اعظم پڑھنے لگا اور پھر چند منٹ بعد واپس حویلی کی طرف چل دیا۔ ابھی میں کچھ دور ہی گیا ہوں گا کہ مجھے.... گاﺅں کے اندر سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اور پھر مجھے احساس ہوا کہ آسمان سے سیاہی کی چادر سے کرنیں پھوٹنے لگی ہیں۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آخری راتوں کے چاند کے مکھڑے سے سیاہ بادلوں کا ایک غول پیچھے ہٹ رہا تھا۔ مجھے لگا جیسے منظر بدل رہا تھا۔
”چل دئیے کیا....“ مجھے اپنے عقب سے غازی کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دی۔
”غازی تم....“ میں نے پلٹ کر دیکھا.... وہ سفید لباس میں ملبوس میرے بہت قریب کھڑا تھا۔ اس کے پاس سے ”اگر“ اور کافور کی ملی جلی مہک آ رہی تھی۔
”ہاں.... بھیا میں.... یہ لو۔ آج تمہارے لئے آئس کریم لیکر آیا ہوں۔ یہ لو کھا لو....“ اس نے ایک مشہور زمانہ برانڈ آئس کریم کا بڑا کپ مجھے تھمایا.... میں اس وقت غازی کا روکھا رویہ بھی بھول گیا تھا جب اس نے ریاض شاہ کی وجہ سے بیگانگی اختیار کی تھی۔ میں نے آئس کریم پکڑ لی.... یہ چاکلیٹ تھی۔
”غازی.... یار میں چاکلیٹ نہیں کھاتا....“
”واہ.... کوئی بات نہیں.... یہ مجھے دے دو.... میں آپ کے لئے مینگو فلیور لے آتا ہوں۔“ اس نے آئس کریم واپس لی اور ایک سٹک منہ میں ڈال کر غائب ہو گیا....
”غازی سنو تو....“
”وہ جا چکا ہے....“ غازی کے جاتے ہی بابا جی کی آواز سنائی دی۔ میں نے اس سمت دیکھا وہ میرے عقب میں کھڑے تھے۔
”تم سے بہت پیار کرتا ہے غازی....“ بابا جی سفید احرام جیسا لباس پہنے ہوئے تھے۔ پاﺅں میں نیلے رنگ کی چپل تھی۔ دراز قامت، سڈول، دہکتا ہوا بدن.... چہرے پر وہی سفید گھنی داڑھی.... موٹی موٹی آنکھیں ابرو بھی سفید تھے۔ پلکیں بھاری۔ بولے تو لہجے میں ایسا جمال اور دبدبہ تھا جو سمندر کے سینے میں دھڑکتی اور رواں موجوں میں تلاطم برپا کر دیتا ہے۔ انہوں نے ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا تھا.... اور میں نے اپنا بازو ان کی کمر کے گرد حمائل کر دیا۔ گویا ان سے لپٹ جانا چاہتا تھا.... اس وقت میں سب کچھ بھول گیا تھا۔ کئی دنوں کی کدورتیں، رنجشیں، شکوک سب کچھ ہی تو بھول گیا تھا۔ ان کا وجود میرے احساس کو یقین میں بدل رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا.... بابا جی گاﺅں کے چوراہے میں میرے پاس تنہا کھڑے تھے۔ ریاض شاہ بھی وہاں نہیں تھا۔ ایک طاقت.... میرے بدن کو چھو رہی تھی۔ میں بے ساختہ سسکیاں لینے لگا۔ بابا جی نے میرے سر پر دست شفقت رکھا۔ بولے
”میرے بچے.... تم جن راستوں پر چل رہے ہو، قسمت والے ہی اس بھیدوں سے بھری منزلوں کے راہی ہوتے ہیں۔ تم پر بہت کچھ آشکار ہو رہا ہے۔ یہ بات ایسے ہی ہے۔ جیسے مہینوں کے بھوکے انسان کو ایک دم لذیذ کھانے دے دئیے جائیں تو وہ جانوروں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ آنتیں جو بھوک سے سکڑ رہی ہوتی ہیں ایکا ایکی اتنا زیادہ کھانا برداشت نہیں کر سکتیں.... میرے دوست.... یہ سلوک اور تصوف کی راہیں بھی ایسی ہیں۔ جن لوگوں نے کبھی ایسے حالات نہ دیکھے ہوں اس مخلوق خدا کو نہ دیکھا ہو جو دنیا میں محض ایک فرضی اور پراسرار مخلوق سمجھی جاتی ہے، جب وہ اسکی زندگی میں شامل ہوتی ہے تو اسے سمجھنا ، دیکھنا اور ہضم کرنابڑا مشکل ہوتا ہے۔ اور پھر.... اس مخلوق کا رویہ بھی تو عجیب تر ہوتا ہے۔ اب تم اپنے آپ کو ہی دیکھو.... کبھی تم ہمیں شیطان کے آلہ کار سمجھتے ہو اور کبھی بہت بڑا پارسا بزرگ.... دراصل ابھی تک روحانیت کے پہاڑ کی اس ہموار چوٹی پر پہنچنے سے پہلے پتھریلے، کانٹوں اور سانپوں سے بھری پگڈنڈیوں پر چل رہے ہو۔ تم اس کوہ پیما کی طرح ہو جو پہلی بار پہاڑ پر چڑھنا شروع کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے اسکی چوٹی بہت قریب اور اسے فتح کرنا آسان ہے۔ وہ ہر پگڈنڈی عبور کرنے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ اب چوٹی تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہو گا.... مگر راستے کے پتھر کانٹے اور زہریلے کیڑے اسکے اور چوٹی کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں.... اگر تو اسکے ارادے پختہ ہوں.... یقین ثابت ہو تو.... وہ آہستہ آہستہ دم لیتا ہوا.... الجھتا ہوا، لڑتا ہوا، صبر و استقامت کے ساتھ سلوک کی پگڈنڈیاں چڑھتا رہتا ہے اور بالآخر روحانیت کی اس چوٹی پر پہنچ جاتا ہے....“
میں بابا جی کے سینے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ ان کی باتیں ان کے بدن کی حرارت جیسی تھیں۔ ایسی ٹھنڈک اور راحت آمیز آغوش اس ماں جیسی تھی جو بچے کو اس سے جدا نہیں ہونے دیتی....
”بابا جی....“ میں بولا تو میرا لہجہ بڑے مان سے بھرا ہوا تھا....
”بابا جی.... کیا پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر روحانی خلعت مل جاتی ہے۔“
”آہ.... میرے بچے....“ انہوں نے مجھے اپنے سے جدا کیا اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگے.... ”چلو.... ہمیں حویلی لے چلو.... راستے میں ہی باتیں ہوں گی....“ میں نے ایک بازو ان کی کمر کے گرد لپیٹا اور انہیں اپنے ساتھ لیکر حویلی کی طرف چل دیا.... چند قدم چلنے کے بعد بابا جی بولے ۔
”پہاڑ کی وہ چوٹی.... جسے روحانیت کی چوٹی سمجھتے ہیں.... وہ سات آسمانوں سے اوپر جلوہ افروز شہنشاہ کائنات، خالق الملائکہ، خالق الاجنا اور خالق الانسان.... تک پہنچ جائیں گے۔ اسکی قربت، اسکے احساس کو چھو لیں گے، اس کی تجلیوں سے خیرہ ہوں گے.... اور وہ بڑی رغبت سے ہماری طرف متوجہ ہو جائے گا.... یہ بلندیاں جو بہت ہی مصائب و آلام جھیلنے کے بعد حاصل ہوتی ہیں....انکی ہر منزل کے اپنے قواعد ہوتے ہیں.... تم نے دیکھا پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لئے بہت سی تکالیف اٹھانا پڑتی ہیںلیکن پھر اس چوٹی سے آگے کا سفر شروع ہوتا ہے.... شہہ رگ کے مکیں سے سرگوشیاں کرنے کا یقین پختہ ہوتا ہے.... اس منزل کی اپنی راہیں اور پگڈنڈیاں شروع ہوتی ہیں۔ ہم نیچے کھڑے ہو کر جب دیکھتے ہیں.... تو پہاڑ کی چوٹی بادلوں اور آسمان سے باتیں کرتی دکھائی دیتی ہے.... لیکن جب ہم اس چوٹی پر پہنچتے ہیں تو احساس ہوتا ہے ہماری منزل تو اب اس سے آگے ہے۔ کچھ لوگ اس چوٹی پر ٹھہر جاتے ہیں.... وہ زمین سے بلند ہو جاتے ہیں۔ انہیں پہاڑوں، گلزاروں اور آبشاروں کے درمیان بسنے والے بہت چھوٹے کیڑوں جیسے نظر آنے لگتے ہیں۔ ان کی نظریں وسعتوں کو ماپنے لگتی ہیں.... اے میرے دوست میرے ہمدم.... یہ روحانی درجات پر ٹھہرے بزرگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو پہاڑ کو سر کر کے اسکی چوٹی پر ٹھہر جاتے اور دوبارہ سے خود کو نئے سفر کے لئے تیار کرنے لگتے ہیں۔
”بابا جی.... یہ اپنے ریاض شاہ صاحب.... کس مقام پر کھڑے ہیں....“ میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
”اس نے تو ابھی پہاڑ کی پہلی پگڈنڈی کو عبورکیا ہے ابھی اسکا نفس اسکو لتاڑ دیتا ہے....“ بابا جی دھیرے سے بولے
”....تم نے دیکھا.... ابھی تو اس نے علوم کی سیڑھی پر قدم رکھا ہے اور اسکے پاس طاقتیں آ گئی ہیں.... ابھی اسے بہت سی مشقتیں جھیلنی ہیں اسے خود کو مارنا ہوگا....وہ ایک جگہ ٹھہر گیا ہے ،اسنے اس مقام کو منزل جان لیا ہے،وہ ابھی گمراہی کے نشان پر رک گیا ہے۔ پھر کہیں وہ آگے بڑھنے کے قابل ہو گا.... میں تمہیں ایک بات کہہ دوں۔ روحانی علوم کی سربلندی کا یہ عالم ہے کہ جو بھی اس پہاڑ پر قدم رکھتا ہے وہ زمین پر بسنے والوں سے بلند ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے اس مقام کے مطابق ہر طرح کی مخفی مخلوق سے بھی کام لے لیتا ہے....“
”آہ....“ میرے سینے سے سرد آہ نکلی....“ انسان واقعی عظیم تر مخلوق ہے مگر.... اسے اپنے اس مقام کا صحیح ادراک نہیں ہے....“
”تم نے صحیح سمجھا.... کاش انسان خود کو پہچان لے.... تو اسے زمین پر چلنے اور فضاﺅں میں اڑنے کے لئے کسی دوسری شے کی احتیاج نہ رہے۔ وہ اپنے علم کے بل بوتے پر مسافتیں طے کر سکتا ہے، وقت کو مٹھی میں تھام سکتا ہے۔ جہاں چاہے خود کو متشکل کر سکتا ہے۔ تم نے بزرگوں کی کرامات سنی ہوں گی۔ تم نے ڈھیروں ایسے واقعات سنے ہوں گے کہ ایک انسان جو آپ کو ابھی یہاں ملا ہے آپ جہاز پر بیٹھ کر جب بہت دور چلے جاتے ہیں تو وہ شخص وہاں بھی نظر آتا ہے۔“ اس دوران غازی بھی آ گیا۔ اس نے مجھے آئس کریم دے دی۔ کچھ دیر بعد جب حویلی میں پہنچے تو دروازہ پر ریاض شاہ کھڑا تھا.... اس نے بھی آگے بڑھ کر بابا جی کو سہارا دیا اور عقیدت و احترام کے ساتھ مہمان خانے میں لے گیا۔
اس رات ہم نے حویلی کے کسی دوسرے فرد کو اس محفل میں نہیں بلایا تھا.... بابا جی مجھے روحانی اسرار و رموز سمجھاتے رہے۔ غازی کے ساتھ باتیں ہوتی رہیں.... سحری کے قریب بابا جی چلے گئے تھے.... مگر جاتے جاتے.... وہ مجھے دو تحفے دیکر گئے.... آب زم زم اور سنہری تاروں والی ٹوپی.... وقت رخصت انہوں نے غلام محمد کو بھی بلا لیا تھا.... خوش الحان نعت گو جن تھا۔ حافظ قرآن تھا۔ نہایت دلسوز انداز میں نعت رسول مقبول پڑھتا اور جذب و کیف سے تلاوت آیات کرتا تو ماحول بندھ جاتا تھا.... اس نے ایک نعت پڑھی تھی جس کے بول آج بھی مجھے یاد ہیں۔ یہ نعت میں برسوں سے پڑھ رہا ہوں۔ مجھے پوری یاد نہیں ہے۔ پنجابی میں یہ نعتیہ کلام کس نے تحریر کیا تھا.... آج تک مجھے کوئی نہیں بتا سکا۔ نعت رسولٰ کے یہ اشعار آج بھی پڑھتا ہوں تو پورے بدن میں عجیب سی سنسنی پھیل جاتی ہے۔ ویرانوں، بیابانوں، قبرستانوں اور رات کے اکلاپے میں جب مجھے بابا جی کی یاد شدت سے آتی ہے تو اس نعت رسولٰکا یہ شعر میرے لبوں پر آ جاتا ہے۔ اور میں فضاﺅں میں اس وجود کے احساس کو چھونے کی کوشش کرتا ہوں جس نے مجھے کئی روز تک اپنے پاس رکھا....
کعبے دا غلاف کالا، دوروں لہرائے نیں
منگوں نیں دعا، مولا سب نوں بلائے نیں
یعنی.... کعبے کا کالا غلاف دور سے لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔ اے سکھیو۔ دعا کرو کہ اللہ ہم سب کو وہاں بلائے۔ میں غلام محمد کے ساتھ مل کر یہ نعت پڑھتا تھا.... مگر آج جب وقت بہت تیزی سے گذر چکا ہے، اور میں دانستہ طور پر بہت کچھ بھلا چکا ہوں.... مجھے یہ نعت بھول چکی ہے.... مگر اسکا یہ پہلا شعر کبھی نہیں بھول سکا....
پچیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں