کیا بلوچستان اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکرشپ پشتونخوا کوملنی چاہیے؟
بلوچستان میں جس قسم کی جمہوریت اور پارلیمانی نظام ہے اس پر غور کیا جائے تو بعض اوقات بہت زیادہ حیرت ہوتی ہے سابقہ دور حکومت میں ایک نواب کی حکمرانی تھی اور اس میں حزب اختلاف نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں تھی، سوائے ایک سردار کے،باقی سب کے سب حکومت میں موجود تھے ۔ بعض اوقات قبائلی نظام کی کشمکش اور تصادم تاریخ اورسیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں اور بہت کچھ بدل جاتا ہے بلوچستان میں اب قبائلی نظام کی گرفت کچھ کمزور ہوئی ہے مگر مکمل ختم نہیں ہوئی ۔ بلوچستان کے سردار اور نواب خوش قسمت ہیں کہ پارٹیاں ان کی محتاج ہیں اور یوں سرداری نظام دو آتشہ بن گیا ہے یعنی جو بھی سربراہ ہے، وہ اپنے قبائل میں سردار ہے اور پارٹیوں میں بھی وہ قائد ہے‘اور وزارت حاصل کرنا اس کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔1970ء کے انتخابات مولویوں کو سیاست کے دائرے میں کھینچ لائے اور اب وہ اس دائرے سے باہر نکلنے کا خواب میں بھی نہیں سوچتے ہوں گے۔
پشتونخوا میپ کو اس لحاظ سے فوقیت حاصل ہے کہ سردار پر پارٹی کی گرفت مضبوط ہے‘ پارٹی کے صوبائی صدر پر ایک سیاسی سوچ کوبالادستی حاصل ہے پشتونخوامیپ کو کریڈٹ دیا جاسکتاہے کہ اس نے پشتون حصے میں نئی شخصیات کو متعارف کرایا ہے اور محمودخان اچکزئی کا ہاتھ جس پر آیا اس کی قسمت چمک گئی اور وہ وہاں پہنچ گیا جہاں اس کا وہم وگمان بھی نہ تھا اور جب مشر نے ہاتھ کھینچ لیاتو وہ فٹ پاتھ پرگھومتا ہوا نظر آیا دیکھیں اس کا عروج کا دور کب تک چلے گا اس کو ہم مستقبل کے لئے چھوڑد یتے ہیں ہم اس کے سیاسی تضادات کا افغانستان کے پس منظر اور حالات میں تجزیہ کرسکتے ہیں۔
محمودخان اچکزئی کی سیاست نے انہیں اتنا طاقتور بنادیاکہ ان کے بعد نمبردو شخصیت نظر نہیں آرہی ہے ،بلکہ پارٹی میں ان کی حیثیت ایک دبنگ سیاستدان کی نظر آتی ہے ایک کریڈٹ اور بھی پارٹی کو حاصل ہے کہ اس نے مذہبی سیاست کے مقابل سیاسی سوچ اور قوم پرستی کے فلسفے کو پروان چڑھایا اور عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا ہے،افغانستان پارٹی کی سیاست پر حاوی ہے اور اس کی راہ کو متعین کرتا رہتا ہے۔اس طرح بلوچ سیاست پر سوویت یونین کے اثرات ہمہ گیر تھے اور ان کی تمام سیاست اس دائرے میں گھومتی تھی جب سوویت یونین ٹوٹا تو بلوچ قوم پرستوں کی سیاست چھوٹے چھوٹے دائروں میں تقسیم کی مضبوط گرفت میں آگئی اور اس سے وہ نکل نہیں سکے۔ اس لئے قوم پرستوں کا وسیع دائرہ پاکستان کے اندر گردش کرتا رہے تو انتشار او ر تقسیم سے بچ سکتا ہے‘ اس طرح سیکولر سیاست کا انجام بھی عبرتناک تھا وہ دو طرح کی سیاسی کشتی میں سوار تھے بظاہر تو وہ روس نواز تھے ،لیکن اندر سے وہ امریکہ نواز تھے روس کے بکھرنے کے ساتھ ہی وہ امریکی کیمپ میں جا کھڑے ہوئے یہ گروہ مذہبی پارٹیوں پر الزام لگاتاتھا آج وہ خود اس کیمپ میں کھڑا ہوگیا ہے ۔
میں بات تو کرنا چاہتا تھا ڈپٹی اسپیکر شپ کی اوردرمیان میں بعض اہم پہلو بھی زیر بحث آگئے، یہ بھی بعض حالتوں میں ضروری ہوتا ہے تاکہ پڑھنے والا کچھ حالات ، پس منظر اور تاریخ سے بھی آگہی حاصل کرے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی سیاست اب ایک مقام پر پہنچ گئی ہے، اس پارٹی کے بانی سے سلام دعا تھی اور میری نگاہوں کے سامنے وہ تمام مناظر محفوظ ہیں‘ نیب کے وجود سے نکلتے ہوئے دیکھا اور خان عبدالصمد خان شہیدکو تنہا سفر کرتے ہوئے دیکھا پھر اس کی استقامت نے ایک نئی سوچ کو متعارف کروایا، پھر اس چھوٹے سے پودے نے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلی ۔ آج گورنر ہاؤس میں اس کافرزندگورنر ہے اور خان شہید کی تصویر گورنر ہاؤس میں آویزاں ہے کل اس پر سیاست اور گورنر ہاؤس کے دروازے بند تھے آج تمام راستے اس کے جانشین کے لئے کھل گئے ہیں۔ زمانینے کیسے کروٹ لی ہے اس کے تمام نشیب وفرازمیرے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں اس کے ہر ورق پر ایکحقیقت موجود ہے اب یہ تاریخ کاحصہ ہے یہ اس کے عروج کادور ہے ۔
پارٹی کے سربراہ نے بہت وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا اور اقتدار کیلئے نیشنل پارٹی کے سربراہ کا نام پیش کردیا یہ ایک قابل تحسین فیصلہ تھا ایک خوشگوار سیاسی سفر تھا اقتدار میں پشتون قوم پرست اور بلوچ قوم پرست ہم آہنگ نظر آئے، اچھا سفر تھا اب دونوں مسلم لیگ کے ساتھ سیاست میں ہیں خان عبدالصمد خان اور مسلم لیگ دو مختلف سمت میں بہنے والے سیاسی دھارے تھے۔ حالات نے پشتونخوا اور مسلم لیگ کو ایک صف میں کھڑا کردیا۔اسی کو ہم سیاست کہہ سکتے ہیں پاکستان کی سیاست دشمنی اور دوستی کے مفروضوں کا نام ہے یہاں ہر چیز ممکن ہے اورسیاست ممکنات کا نام ہے ۔بات سے بات نکلتی چلی جارہی ہے ہم اس پہلو سے تجزیہ کررہے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی 2013ء کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت 2017ء تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ کسے دیا جائے ق مسلم لیگ بھی دعویدار ہے یہ جنرل مشرف کی باقیات میں سے ہے جو آج بلوچستان اسمبلی میں نظر آرہی اس کا کوئی مستقبل نہیں ۔ سوائے اس کے کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوجائے ورنہ اسمبلی میں نہ آسکے گی۔ وزیراعلی کے منصب پر پہلے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ آئے اس کے بعد معاہدہ کے تحت باقی نصف مدت مسلم لیگ ن کے نواب ثناء اللہ خان زہری حکومت کررہے ہیں۔ اب اس پہلو سے دیکھا جائے تو ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا حق بنتا ہے اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے کہ مسلم لیگ ن 17سے 20تک پہنچی ہے۔ پشتونخوامیپ کے پاس 14 ممبران ہیں۔ اور نیشنل پارٹی کے پاس اب دس ممبران ہیں اس لئے دوسری بڑی پارٹی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ہے اس لئے سیاسی حوالے سے ڈپٹی اسپیکر شپ اس کا استحقاق ہے اور اسے ملنا چاہیے اور 2013ء کے انتخابات کے بعد سے جو حکومت وجود میں آئی ہے وہ اس کے فیصلے سے دامن بچا رہی ہے اور یہ آئین کی خلاف ورزی ہے جو کسی لحاظ سے درست نہیں ۔ اب موجودہ حکومت دھیرے دھیرے نئے انتخابات کی طرف گامزن ہے اب فیصلہ کاوقت ہے اور اس پرحلیف پارٹی پشتونخواملی عوامی پارٹی کا استحقاق ہرلحاظ سے بنتا ہے نواب ثناء اللہ خان زہری فیصلہ کرنے میں اہمیت رکھتے ہیں۔امید ہے وہ دبنگ فیصلہ کریں گے۔