ملک کشمیر
شاہ میر کے خاندان کی سلطنت زائل ہونے پر کشمیر ۱۹۰ برس مغل اقتدار میں رہنے کے بعد احمد شاہ ابدالی کے تصرف میں آیا اور ۶۸ برس تک افغانوں کے تصرف میں رہنے کے بعد ماہ رمضان ۱۲۳۴ھ میں سکھوں کے قبضہ میں چلا گیا اور پھر ۱۲۶۲ھ کو انگریزی کے تصرف میں آیا۔ اور انگریزوں نے اسے گلاب سنگھ ڈوگرا کے حوالہ کیا اور اس سے کچھ حصہ یعنی ضلع ہزارہ کے بالائی حصہ کو اپنے پاس رکھ لیا۔
شاہ میر کے زمانے میں یہاں بٹ اور چک قبیلے آباد ہوئے تھے جو نسلا سواتی افغان اور شاہ میر کے ہم قوم تھے۔ جن کی نسبت سے اب بھی سوات میں بٹخیلہ اور چکدرہ کے نام سے دو بڑے گاؤں موسوم اور معروف ہیں۔
انتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسی طرح احمد شاہ ابدالی کے دور میں قبیلہ صد وزئی افغان جو علاقہ کشمیر میں صدن کے نام سے مشہور ہیں آباد ہوگئے اب بھی یہ صدن یعنی صدوزئی ترین، مواضعات رولہ کوٹ، بجری، اجیرہ، باغ، تراڑ خیل، پلندری، اور پونچھ وغیرہ میں سکونت رکھتے ہیں۔ ویسے تمام کشمیر میں پٹھان جگہ بہ جگہ آباد ہیں۔
اسی طرح کشمیر کے مغرب میں متصل ضلع ہزارہ میں بھی پٹھان آباد ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ تحصیل ہری پور میں یوسف زئی کی ذیلی شاخ اتمان زئی، ترین، کاکڑ، پنی، شلمانی اور مشوانی آباد ہیں۔ اور تحصیل ایبٹ آباد میں جدون یا گدون آباد ہیں اور تحصیل مانسہرہ میں سواتی پٹھان قبائل آباد ہیں۔ سواتی اور مشوانی اب بھی اپنی پشتو زبان میں بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ اور ان کے علاوہ اور لوگوں نے اپنی پشتو زبان کو چھوڑ کر پنجابی یا ہند کو زبان کا استعمال کرنا شروع کیا۔ علاقہ چھپہ میں بلکہ مرگلہ پہاڑ تک بھی اکثر یسوفزئی پٹھان آباد ہیں اور مکڈھ میں بلاق خٹک آباد ہیں جن کی زبان اب بھی پشتو ہے مگر چچھ میں بعض جگہ پشتو کا استعمال کم ہوتا جا رہا ہے۔ اپنی مادری پشتو زبان چھوڑنے پر سخت افسوس ہے جو قومی زوال کی نشانی ہے۔
گدون
یہ عبرانی نام ہے۔ یہ قبیلہ اس وقت تحصیل صوابی اور ایبٹ آباد میں سکونت پذیر ہے۔ واضح ہو کہ گدون عبرانی لفظ گدعون سے ماخوذ ہے اور جدون عربی لفظ جدعون سے جو ایک افغان قبیلہ کے جداعلیٰ کے ایک ہی نام کے دو مختلف تلفظ ہیں۔ دور قضا ۃ میں گدعون ایک مشہور نبی گزرے ہیں۔ جن کی اولاد اس وقت ان کی نسبت سے گدون یا جدون کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ قاضیوں کی کتاب باب ۶ آیت ۱۳ کے مطابق گدعون بنی اسرائیل کے پہلے قاضی تھے۔
واضح ہو کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جس میں بنی اسرائیل کو دشمنوں کی طرف سے حملوں اور قسم قسم کی زیادیتوں سے پریشانی لاحق ہوئی تھی۔ اس سلسلہ میں مولانا سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
آخر جدعون(جدون) نامی ایک سردار ان میں پیدا ہوا جس نے بنی اسرائیل کی قوت کو مجتمع کیا اور صرف تین سو منتخب آدمیوں کو لے کر اسنے اہل مدین پر شبخون مارا۔ رات کی تاریکی میں دوست و دشمن کی تمیز نہ ہوئی۔ ایک لاکھ بیس ہزار اہل مدین خود اپنوں اور دشمنوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ عوریب اور ذیب نامی مدین کے دو بادشاہ قید ہوئے جن کو نہایت ذلت سے قتل کیا گیا اور دوبارہ شاہ زاباح اور صلمناع پندرہ ہزار آدمیوں کے ساتھ بھاگ نکلے لیکن ان کو پناہ نہ مل سکی۔
ضلع ہزارہ کے بارے میں کیرو لکھتا ہے:
’’وسطی اور زیریں ہزارہ کے کچھ لوگ پٹھان ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگوں نے جن میں یوسف زئی، جدون اور ترین بھی شامل ہیں شمالی پنجاب کے طور طریقے اور زبان اپنا لی ہے۔ کلابٹ اور تربیلہ کے لوگ یوسف زئی نسل کے اعتبار سے کھرے پٹھان ہیں لیکن غیر پختون قبائل کے ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ بھی اپنی زبان بھول گئے اور ان کی پختون ولی میں پہلی سی شدت نہیں رہی۔ البتہ ابھی تک مشوانیوں کا ہمسایہ قبیلہ موجود ہے جس نے ہری سنگھ کا ناک میں دم کردیا تھا۔ یہ لوگ کھرے پٹھان ہیں اور دریائے سندھ اور وادی ہزارہ کے درمیان گنگہر کی پہاڑیوں میں ہرتے ہیں۔ ان کا مرکز کئی دیہات کا ایک جھرمٹ ہے جو سری کوٹ کہلاتا ہے۔ یہ جگہ پہاڑیوں کے اندر محفوظ علاقہ میں واقع ہے۔ یہاں شوانیوں نے پٹھانوں کے رہن سہن کے دلچسپ طریقے برقرار رکھے ہیں۔ وہ قرن اور صدیاں گزر جانے پر بھی نہیں بدلے۔‘‘
مشوانی
یہ افغانوں کا ایک مشہور قبیلہ ہے۔ یوسف زئی جب موجودہ افغانستان میں مقیم تھے تو ان سے اچھے تعلقات قائم تھے۔ ان کے اکثر خاندان والے افغانستان سے نکل کر یوسف زئی کے ہاں پہنچے تھے اور ملک گیر میں وہ یوسف زئی کے ساتھ شریک تھے اور کارہائے نمایاں سر انجام دیئے تھے ملک فتح کرنے کے بعد ان کو شیخ ملی کی تقسیم اراضی میں حصص ملے تھے جس پر وہ اب تک آباد ہیں۔ آدم خان جو شیخ بنوری کے نام سے مشہور ہوا۔ اسی قبیلہ سے تھا۔مشوانی ایک جغرافیائی نام ہے۔ شام سے جلا وطنی کے بعد یہ لوگ آرمینہ کے موش نامی شہر سے جھیل وان تک کے علاقہ میں جو مشرقی فرات کے جنوب اور قبیلہ بریس کے شامل مغرب میں واقع تھا۔ آباد تھے۔ جس کی نسبت سے یہ لوگ موش وانی یا مشوانی کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔
سوات: مترجم دوارکا پرشاد لکھنوی نے لکھا ہے
’’کھیرلی گڑھ کی سیہات قوم ایک شمالی قوم ہے۔ گو مورخان حال اس کے حالات سے بالکل لاعلم ہیں۔ مگر بھٹی قوم کی تاریخ میں ان مقبوضات کا بارہا ذکر آیا ہے جو انہوں نے دریائے ہیفس (دریائے سوات) کے دونوں ساحلوں پر وسیع کیے تھے۔ اس قوم کی سکونت(موجودہ) سواد میں تھی۔ جو صوبہ اشنغر کی ایکق سمت (یعنی ضلع)ہے اور جہاں سکدنر کے عہد کی قوم اساکانی بودوباش رکھتی تھی۔ قوم سیہات جس نے کھمان والی چتوڑ کی اعانت کی تھی۔ غالباً اسی اساکینی فرقے ہی کی ایک شاخ ہے۔ جس نے سکندر سے مقابلہ کیا تھا۔‘‘
جاری ہے
اکتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔