انتظامی اتھارٹی کیسے بحال ہو گی؟

انتظامی اتھارٹی کیسے بحال ہو گی؟
انتظامی اتھارٹی کیسے بحال ہو گی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عام انتخابات کے دوران جب جمہوری قوتیں پوری طرح فعال ہوں گی تو ان کی مزاحمتی استعداد بڑھنے کے علاوہ اجتماعی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل مزید تیز ہو جائے گا،اِس لئے اقتدار کی منتقلی کے اِس نازک مرحلہ پر طاقتور انتظامی ڈھانچے کا نہ ہونا خطرات سے خالی نہیں ہو سکتا، لیکن افسوس سیاسی نظام کو کنٹرول کرنے والی قوتیں سیاست کے بہتے دھارے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے پنجاب کی مزاحمتی تحریکوں کو تند و تیز کر کے مُلک کے کمزور انتظامی نظام کو آزمانے پہ مصر نظر آتی ہیں۔

مقتدرہ جو ہمیشہ انگریز کے تشکیل کردہ سویلین انتظامی ڈھانچہ کے تحت کم و بیش ستر سال ملکی نظام چلاتی رہی،اب خود ہی معاشرے کی اجتماعی صلاحیتوں سے دست کش ہو کے صرف طاقت کو ہی برترین سمجھ کے یمین و یسار سے بے نیاز نظر آتی ہے،اس رجحان کی ابتدا جنرل(ر) پرویز مشرف نے کی جو، نپولین کی طرح، اپنی تقدیر خود لکھنے کے شوق میں ریاستی تنظیم کے ہر رفیق کار کا ہاتھ جھٹک کر تنہا چلنے کے شوق میں سب کچھ گنوا بیٹھے، شاید یہی وجہ تھی جو اس مُلک میں وہ پہلا فوجی حکمران تھا جو انتظامی،حربی اور سیاسی طور پہ ناکامیوں سے دوچار ہوا،ورنہ ایوب خان جیسے اوسط درجہ کے جرنیل نے بھی مارشل لاء لگانے کے بعد الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب سمیت کئی آئی سی ایس افسران اور اعلیٰ پائے کے سویلین ماہرین کی معاونت حاصل کر کے نہ صرف مُلک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامژن کیا، بلکہ خود بھی عزت و احترام حاصل کرنے میں کامیاب رہا، آج بھی لوگ ان کے عہد زریں کو یاد کر کے مسرور ہو جا تے ہیں،ان کے دور میں فوج پس منظر میں رہی،عوام سے ربط و تعلق سمیت تمام سیاسی و سرکاری امور سول بیورو کریسی نمٹایا کرتی تھی،اُن دِنوں ملکی معیشت فروغ پذیر اورسیاسی استحکام مثالی تھا، اِس لئے سیاست دانوں کو پذیرائی نہ مل سکی، اگر 1965ء کی جنگ نہ ہوتی تو پاکستان آج ایشیا کا ترقی یافتہ مُلک ہوتا۔


1971ء میں جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے دوران سقوط ڈھاکہ جیسے سانحہ کے باوجود سول بیورو کریسی کے تعاون نے فوج کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان سے بچایا۔

اس کے برعکس ساڑھے پانچ برسوں پہ محیط ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری عہد میں،جب سول بیورو کریسی ناتجربہ کار سیاسی کارکنوں کے ہاتھوں عدم تحفظ کا شکار ہوئی تو مسٹر بھٹو جیسے مقبول سیاست دان کے اقتدار کا سنگھاسن زمین بوس ہو گیا۔

1977ء میں ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو پولیس اور سول بیورو کریسی نے اپنی مہارت و وفاداری پیش کر کے انہیں گیارہ برسوں تک کسی رکاوٹ کے بغیر حکومت کرنے کی سہولت فراہم کی اور ایم آر ڈی کے علاوہ الذوالفقار جیسی مسلح تحریکوں کی دھار کو کند کر دیا۔

بدقسمتی سے جنرل مشرف نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ’’ نہ مَیں ایوب خان ہوں نہ ضیاء الحق،مَیں مَیں ہوں‘‘کہہ کے صرف حربی طاقت کو معیار بنا کے سول بیورو کریسی سمیت معاشرے کی ان تمام طبقات کو دھتکار دیا، جو روایتی طور پہ فوجی حکمرانوں کے دست و بازو بنتے آئے تھے، جنرل مشرف نے امریکہ کی جنگ دہشت گردی میں تلویث سے قبل ہی سول بیورو کریسی کو کچل کے نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے ناپختہ کار لوگوں کو نچلی سطح کا اقتدار منتقل کیا تو صرف دو برسوں کے اندر ملک کا انتظامی ڈھانچہ مضمحل ہو گیا،ان کے خلاف بار کونسلوں کی تحریکیں سر اٹھانے لگیں، 2002ء میں پاکستان بار کونسل کے صدر حامد خان ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس شیخ ریاض کے خلاف پشاور سے جس مہم کا آغاز کیا۔

2007ء میں چودھری افتخار کی برطرفی کے بعد وہی تحریک مُلک بھر میں پھیل کے مشرف کے زوال کا سبب بنی،سول بیورو کریسی کی لاتعلقی اور عقل اجتماعی کو بروکار لائے بغیرجنرل مشرف جب عالمی طاقتون کے دباؤ میں جنگ دہشت گردی میں غیر مشروط شمولیت جیسا خطرناک فیصلے کر کے مُلک کو داخلی تشدد کی آگ میں دھکیل بیٹھے تو اس وقت ان کا تشکیل کردہ بلدیاتی نظام انتظامی اتھارٹی کو بروئے کار لا کے امن و امان قائم رکھنے کے صلاحیت سے عاری تھا،پرویز مشرف 15مارچ 2013ء میں اگر فاٹا میں فوج داخل کر کے قبائلی سماج کو ریگولیٹ کرنے والے پولیٹیکل سسٹم کو ختم نہ کرتے تو آج پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تحریکیں سراُٹھا سکتیں، نہ بلوچستان میں شورش برپا ہوتی، مغرورجرنیل کو اپنی سولو فلائٹ کی وجہ سے پہلے بے نظیربھٹو سے این آر او کرنا پڑا،جس پہ عمل درآمد کی نوبت آنے سے قبل ہی آصف علی زرداری جیسے کردار کے ہاتھوں ایوانِ صدر چھوڑنے اور پھر نواز شریف کے ہاتھوں سنگین غداری جیسے مقدمات کا سامنا کرنے پہ مجبور ہوئے، مگر افسوس کہ اب بھی مقتدرہ جنرل مشرف کی غلطیوں کی تلافی کی بجائے انہی لکیروں پہ محوِ سفر ہو کر مملکت کے لئے مسائل بڑھا رہی ہے۔ تمام نجی و سرکاری اداروں کی سروے رپورٹس بتاتی ہیں کہ نواز لیگ مُلک بھر میں الیکشن جیتنے والی ہے، چنانچہ نواز شریف کی راہ روکنے کی خاطر الیکشن کے التواء کے علاوہ حزب مخالف کی جماعتوں کا گرینڈ الائنس بنانے کے آپشنز پہ غور وخوص جاری ہے۔

حیران کن امر یہ ہے کہ جب مغربی سرحدات پہ ریاست مخالف تحریکیں زور پکڑ رہی ہوں،ایسے میں ملک کی جغرافیائی وحدت کو مربوط رکھنے والی جائز سیاسی قوت کو کمزور کرنے اور مقبول قیادت کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کی کوشش خود کشی کے مترادف ہو گی، انتخابات کے التوا کے علاوہ مُلک کی تمام سیاسی قوتوں کو نواز شریف کے خلاف صف آراء کرنے کے منصوبہ کو عملی شکل دینے کے مضمرات نواز شریف کی انتخابی کامیابی سے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عام انتخابات کے التوا کی صورت میں پی ٹی آئی سمیت مُلک کی ساری سیاسی قوتیں مقتدرہ کے خلاف اکٹھی ہو کے سیاست کے اس روایتی بندوبست کو بکھیر دیں گی، جس نے طاقت کے توازن کو مقتدرہ اور عدلیہ کے حق میں جُھکا رکھا ہے دوسرا اس کشمکش کے دوران مملکت اگر عدم استحکام اور خانہ جنگی کے دلدل میں اتر گئی تو وفاق کو متحد رکھنا دشوار ہو جائے گا، اگر مسلم لیگ(ن) کے چڑھتے ہوئے طوفان کی راہ روکنے کے لئے پیپلز پارٹی،پی ٹی آئی،جے یو آئی اور جماعت اسلامی سمیت لبیک پارٹی اور ملی مسلم لیگ جیسے چھوٹے گروپوں کو اکٹھا کیا گیا تو اس سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جیسی بڑی جماعتوں کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ ہو جائے گی،جس کا فائدہ اگرچہ مسلم لیگ(ن) کو ہو گا،لیکن ہر دو صورتوں میں مُلک کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔طرفہ تماشا دیکھئے کہ مولانا فضل الرحمن جیسے جید سیاست دان نے جب پارلیمنٹ کے فورم پہ قبائلی علاقوں میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تو ان کی آواز کو پائے حقارت سے ٹھکرا کے چیکنگ مزید سخت کر دی گئی، لیکن اب منظور پشتون کے مطالبہ پہ چیک پوسٹیں ختم کر کے نامعلوم منزل کے راہی کو طاقت فراہم کی گئی، یہی کام اگر مولانا کے کہنے پہ کر دیا جاتا تو مملکت کو ہزیمت اٹھانا پڑتی نہ ہی بے نام لوگوں کو عوام میں پذیرائی ملتی۔ 1979ء لے کر 2013ء تک افغان وار اور طالبان کی شورش کے باوجود سرحدی صوبہ میں سیاسی صورتِ حال مستحکم رہی، لیکن 2013ء میں پی ٹی آئی کو اقتدار ملنے کے بعد قبائلی علاقوں سمیت یہاں کے سماج میں گہری تبدیلیاں رونما ہوئیں، تحریک انصاف کی فعالیت نے یہاں کی سماجی اقدار کو تباہ کر دیا اور اس جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ افغان مہاجرین اور علیحدگی پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا،اگر خدا نخواستہ پی ٹی آئی کو پھر اقتدار ملا تو خیبر پختونخوا بکھر جائے گا،ان سے تو اے این پی اور جے یو آئی والے بہت بہتر تھے،جو یہاں کی سماجی روایات کے امین ہونے کے علاوہ امور سیاست اور رموز حکمرانی سے واقف ہیں اور ذہنی لچک کے حامل ہونے کے باعث ریاست اور عوام کے درمیان بہترین رابطہ کاری کے اہل ہیں،اب بھی اگر ریاست چاہے تو مذہبی دہشت گردی اور پشتون تحفظ موومنٹ جیسے پرابلمز کو اسفندیار ولی، محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کے ذریعے حل کر سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -