’’بدروح اپنی پائل میری نوبیاہتا بیوی کو پہنا گئی اور اسے کہا کہ ۔۔۔‘‘ایسا پراسرار واقعہ جس نے شادی کے بعد نوجوان کو الجھا کر رکھ دیا تھا 

’’بدروح اپنی پائل میری نوبیاہتا بیوی کو پہنا گئی اور اسے کہا کہ ۔۔۔‘‘ایسا ...
’’بدروح اپنی پائل میری نوبیاہتا بیوی کو پہنا گئی اور اسے کہا کہ ۔۔۔‘‘ایسا پراسرار واقعہ جس نے شادی کے بعد نوجوان کو الجھا کر رکھ دیا تھا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: ارسلان گوپانگ
تیز بارش کی وجہ سے میں مکمل طور پر بھیگ چکا تھا ۔مجھے کل اپنے آبائی گاؤں پہنچنا تھا کیونکہ میری شادی کی تاریخ طے ہونی تھی۔ بس اسٹیشن پر پہنچے میں مجھے ایک گھنٹہ لگا اور تب تک بارش کم ہو چکی تھی۔ رات کے تقریباً 2 بجے میں ضلع راجن کے شہر پہنچا اور دیکھا کہ یہاں بھی بارش نے اپنا کام دکھایا ہے جبکہ یہاں سے میرا گاؤں 10 کلو میٹر کے فاصلے پر اور رات کے اس پہر کوئی سواری کا ملنا ناممکن تھا۔ ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی ، درختوں کے پتوں سے ابھی بھی بارش کی بوندیں گر رہی تھیں، جیسے بارش ابھی ختم ہوئی ہے۔
بس اسٹیشن پر اترنے کے بعد میں اسٹیشن سے اس امید سے باہر نکلا کہ شاید کوئی گاؤں جانے کیلئے سواری ہی مل جائے لیکن وہاں ہوا کی سر سراہٹ، درختوں اور دکانوں کی چھپڑوں سے پانی کی بوندیں گرنے کی آواز کے سوا سب خاموش تھا۔
اسٹیشن سے اب بہت دور نکل آنے کے بعد میں تھک ہار کر ایک بند ہوٹل کے باہر رکھی چارپائی پر لیٹ گیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد بارش پھر سے شروع ہو گئی اور چارپائی کھلے آسماں پر پڑی تھی جس کے باعث مجھے وہاں سے اٹھنا پڑا اور بارش سے بچنے کیلئے کوئی چھت تلاش کرنے لگا ۔ سامنے ہی مجھے گرلز ہائیر سکینڈری سکول کا بورڈ نظر آیا ۔میں دیوار پھلانگ کر سکول کے برآمدے میں جاکر بیٹھ گیا۔
بارش پھر سے تیز ہو گئی ایسا لگ رہا تھا جیسے اوپر سے کوئی سمندر کو بالٹی میں ڈال کر پانی کو اچھال رہا ہو اور تیز ہوا ۔پانی کے اس قدرشور کے باوجود مجھے سکول کے برآمدے میں ہی نیند آنے لگی اور تھوڑی ہی دیر بعد ٹھنڈ کی وجہ سے میری آنکھ لگ گئی اور اپنی اس حالت کو دیکھ کر مجھے شادی کے نام سے بھی نفرت ہونے اور غنودگی ، ٹھنڈ اور تھکن سے چور لیٹ کر میں شادی بارے سوچنے میں محو ہو گیا۔ ناجانے کب بارش کی شدت کم ہوئی اور اس ٹھنڈک میں میری پھر آنکھ لگ گئی۔
اچانک ہی پائل کی آواز میرے کانوں میں گونجی اور میں چونک کر اٹھ بیٹھا۔ ادھر ادھر دیکھنے کے باوجود کوئی بھی نظر نہ آیا تو وہم سمجھ کر پھر سے لیٹ گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد پھر سے وہی آواز کانوں میں گونجنے لگی۔
میں ہڑبڑا کر اٹھا اور دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا اور اسی آواز کو غور سے سننے کیلئے اٹھ کر بیٹھ گیا کہ کس سمت سے یہ آواز چلی آرہی ہے ۔میرے پاس ہی وہ کمرہ جس کی دیوار پر جماعت نہم کا بورڈ لگا تھا ،اسکا دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔ساتھ ہی پائل کی آواز میری طرف آتی سنائی دی ۔میں یہ سن کر جلدی سے ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے قدموں کو آہستہ آہستہ پیچھے کی سمت لے جانے لگا ۔لیکن جیسے کسی نے مجھے جکڑ لیا ہو اور میں وہاں سے ہل بھی نہ پایا۔
اچانک ہی کنگن پہنے ایک مرجھائے ہوئے ہاتھ سے کسی نے میرا چہرہ اپنی طرف موڑ لیا ،میں چونک اٹھا ،دیکھا تو پیچھے دلہن کے لباس میں ملبوس ایک عورت میرے سامنے کھڑی تھی۔ دہشت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اوسان خطا ہو گئے ۔پیروں سے زمین کسی نے کھینچ لی ۔ جب نظر اس دلہن کے قدموں پر پڑی تو ایک دلکش چمکتی ہوئی پائل اسکی پنڈلیوں سے نیچے چھنک رہی تھی ۔لیکن کنگن والے بازو مرجھائے ہوئے اور آنکھوں اور منہ سے خون نکل رہا تھا۔
اس نے دھیرے سے پائل چھنکائی اور کہا’’ تم یہ پائل گھر لے جاو،یہ کسی اور کا نصیب ہے ‘‘ یہ کہہ کر اس نے پائل اتار کر مجھے دینا چاہی تو میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔
اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں ۔۔۔ جب ہوش آیا تو میں ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا ۔ میرے گھر والے سامنے بیٹھے تھے ۔ انہوں نے بتایاکہ میں دو دن تک بے ہوش رہاہوں ۔ میری شادی ہوگئی،دو ماہ گزرے ہوں گے کہ ایک دن اپنے گھر سے باہر کسی کام کے لئے نکلا تو دیکھا ایک چمکتی پائل میرے گھر کی دہلیز پر رکھی ہوئی تھی۔ میں نے اسے اٹھایااوراسے کہیں دور پھینک آیا۔لیکن جب گھر واپس آیا تو دیکھا وہی پائل پھر دہلیز پر پڑی ہے ۔میں بڑا حیران ہوا۔اتفاق سے مجھے اس وقت قطعی احساس نہ ہوا کہ دوماہ پہلے ہی میں ایک حیران کن واقعہ سے گزر چکا ہوں ۔یہ اسی رات کا واقعہ ہے میں رات کو اپنے بیڈ پر سونے کے لئے لیٹا تھا،میری بیوی کھانا لینے کچن میں گئی ہوئی تھی ،معاً کانوں میں مانوس سی پائل کی آواز گونجی تو میں چونک کر بیٹھ گیا ۔سامنے دیکھا تو بیگم ہاتھوں میں کھانے کی ٹرے لئے کھڑی تھی،وہ ذرا آگے ہوئی تو اسکے پیروں میں پائل گونج اٹھی۔میری نظریں پائل میں الجھ گئیں،اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا ،کہنے لگی ’’ کچھ دیر پہلے دروازے پر ایک عورت آئی تھی، اس نے مجھے پیار کیا اور یہ پائل دیکر چلی گئی ۔اس نے کہا ہے کہ پائل کو کبھی خود سے جدا نہ کرنا ،ورنہ تیرا گھر اجڑ جائے گا ‘‘۔میں اس سے کیا سوال کرتا ،کیا پوچھتا،بارش،سردی اور سکول کے برآمدے کا وہی منظر پھر دماغ میں روشن ہوگیا تھا ۔وہ عورت نہیں بدروح تھی جس کا تحفہ میں وصول نہ کرسکا تھا لیکن وہ میری بیوی کو پائل کا تحفہ دے گئی تھی۔کیوں ؟ یہ راز ابھی تک راز میں ہے ۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔