افتخار مجاز  ،تہذیبی زندگی کا نمائندہ اور عظیم روایتوں کا امین 

افتخار مجاز  ،تہذیبی زندگی کا نمائندہ اور عظیم روایتوں کا امین 
افتخار مجاز  ،تہذیبی زندگی کا نمائندہ اور عظیم روایتوں کا امین 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

موت بلاشبہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے فرار ممکن نہیں ۔ہر زی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ جانے والا کس انداز میں زندگی گزار کر رخصت ہوا؟ وہ اپنے پیچھے کس قسم کی یادیں چھوڑ کر گیا ؟ یہ دنیا دارالامتحان ہے ہر ایک کو اپنا پرچہ خود ہی حل کرنا ہے,وہ لوگ جو پوری تیاری کے ساتھ اس امتحان میں شریک ہوتے ہیں اور ہوش مندی کے ساتھ زندگی کا پرچہ حل کرتے ہیں وہی کامیابیاں سمیٹتے ہیں لیکن جو لاپروائی کا مظاہرہ کرتے اور اس امتحان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے انہیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔افتخار مجاز بلاشبہ ان لوگوں میں سے تھا جس نے زندگی کے اس امتحان میں پوری تیاری کے ساتھ بھرپور انداز میں شرکت کی ، اپنے حصے کا کردار خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا اور اپنی خوش گوار یادیں چھوڑ کر رخصت ہوگیا ۔اس نے باوقار اور باعزت زندگی گزاری اور سرخرو ہوگیا ،وہ دارِ فانی سے دارِ بقا کی جانب سفر کرگیا ہے ۔

اس وقت جب کہ میں اس کے بارے میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ذہن مکمل طورپر ماوف ہو چکا ہے،جس طرف بھی نظر اٹھاتا ہوں ایک ہی چہرہ سامنے آ جاتا ہے ۔ آنکھیں بند بھی کر لوں تو بھی اسی کا چہرہ مجھے تکنے لگتا ہے ۔رات ساری اسی کشمکش میں گزر گئی ، یہ سوچ اور خیال ہی اس قدر اذیت ناک اور تکلیف دہ ہے کہ اب اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوسکے گی ، اب اس سے فون پر بھی بات نہیں ہو سکے گی۔ نکل گیا ہے وہ کوسوں دیارِ  حرماں سے ۔ میں اب اس کے بغیر کس قدر اکیلا اور ادھورا ہو گیا ہوں؟ یہ کچھ میں ہی جانتا ہوں۔وہ کئی ماہ سے صاحب فراش تھا، گزشتہ سال اکتوبر کا شائد پہلا ہفتہ تھا جب وہ گھر میں اچانک گر گیا اور پھر اسے اس کے فیملی ڈاکٹر جاوید سبزواری کے کلینک واقع ویلنشیا ٹاون لے جایا گیا جہاں وہ دو ہفتے زیر علاج رہا اور پھر گھر آگیا لیکن صحت پوری طرح بحال نہ ہوسکی تھی ۔فالج کے اٹیک نے اس کے لیے صحت کے مسائل پیدا کردیے تھے لیکن وہ اس کے باوجود مایوس نہیں تھا،اس کی موومنٹ البتہ رک گئی تھی۔کہیں آنا جانا نہیں تھا ,اسی دوران ایک بار پھر طبعیت بگڑ جانے پر اسے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ پھرسے باقاعدہ زیر علاج ہوگیا لیکن پھر گھر آگیا اور علاج کا سلسلہ گھر میں جاری رہا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ فزیو تھراپی کے لیے شادمان تک جاتا تھا۔ کبھی کبھی طبیعت اکتا جاتی تو مجھے فون کر کے بلا لیتا اورہم گھر کے باہر کرسیوں پر سورج کی کرنوں سے اشنان کرتے اور گپ شپ کرتے ۔آخر ی ہفتے اس کی طبیعت ایک بار پھر مضمل ہوئی تو اسے شیخ زائد ہستپال لے جایا گیا جہاں وہ بہتر ہونے کے بجائے مزید بیمار ہو تا گیا اور آخر کار سی سی یو میں لے جایا گیا اور وہیں پر وہ زندگی کی بازی ہار گیا ۔

گزشتہ چند دنوں سے وہ وقفوں وقفوں کے ساتھ ( یعنی ہفتے میں دو تین بار ) خود فون کرتا کہ ’’ کیہہ ہو رہیا اے ۔ آ جاو یار ، اج دل بہت اداس اے ‘‘ اور میں الگے ہی لمحے اس کے سامنے ہوتا۔جب کبھی مجبوراً شہر سے باہر ہونے یا پھر کسی دوسری مصروفیت کی وجہ سے فوری ملاقات ممکن نہ ہوتی تو اگلے روز ضرور ملاقات ہو جاتی۔وہ میرا دوست نہیں میرا بھائی تھا ، میرا سنگی تھا ، ساتھی تھا یار تھا میرا معشوق تھا۔ہم ایک دوسرے کے ہمراز تھے ,ہمارے درمیان کوئی رازداری ، کوئی پردہ اور کوئی دیوار حائل نہیں تھی۔ وہ میرے ساتھ ہر ایشو پر کھل کر بات کرتا ، ہر موضو ع پر بات ہوتی، وہ گھر کے معامالات بھی بے تکلفی سے ڈسکس کرتا تھا ۔بھائی اعزاز احمد آذر کے انتقال نے اسے اندر سے توڑ دیا تھا ،اِس صورت حال میں میں نے اسے بھرپور وقت دینا شروع کردیا ،اس کے ساتھ گویا نتھی ہو کر رہ گیا ۔ہر محفل ، ہر تقریب میں ہم اکھٹے شرکت کرتے ۔ہماری دوستی اور ررفاقت اس درجے پر تھی کہ علمی و ادبی حلقوں اور احباب میں ہم لازم و ملزوم تصور کیے جاتے تھے ۔ ہماری جوڑی مشہور ہوگئی تھی، اگر کسی وجہ سے افتخار اکیلا پہنچ جاتا تو یار لوگ پوچھتے شہباز کدھر ہے ؟ اور اگر کسی وجہ سے میں اس کے بغیر پہنچ جاتا تو پوچھا جاتا ’’ خیریت تو ہے افتخار مجاز کہاں ہے ‘‘ ؟۔یہ تعلق کوئی اچانک یا تھوڑے عرصے کا نہیں تھا عشروں پر محیط تھا,یہ تعلق اس وقت سے تھا جب وہ شاہدرہ میں رہائش پذیر تھا۔اس نے سکول کی تعلیم اپنے ہی علاقے میں حاصل کی ۔پھر ایم اے او کالج میں چلا آیا جہاں انٹر کا امتحان پاس کیا ۔

اسلامیہ کالج سول لائنز سے گریجوایشن کی اوراس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں داخلہ لے لیا ۔ پروفیسر وارث میر ، پروفیسر مسکین علی حجازی ، ڈاکٹر مہدی حسن اور ڈاکٹر شفیق جالندھری جیسے اساتذہ سے فکری رہنما ئی حاصل کی ۔وہ بڑا متحرک ، فعال اور ’’ پھرتیلا ‘‘ نوجوان تھا ۔دوران تعلیم اس نے معروف صحافی ، شاعر ا ور کالم نگار جناب اثر چوہان کے روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ سے وابستگی اختیار کیے رکھی ۔پھر روزنامہ ’’ صداقت ‘‘ میں یونیورسٹی راونڈ اَپ لکھنے لگا ۔ یہاں اسے ایک اور معروف صحافی اکرام رانا صاحب کی صحبت میسر آئی جس نے اسے کندن بنا دیا ۔ ایم اے کرنے کے بعد ابتدا ء میں اس نے واپڈا کے شعبہ تعلقات عامہ میں انفارمیشن آفیسر کے طورپر ملازمت اخیتار کی ،اس وقت اس شعبہ کے سربراہ رضی الدین شیخ تھے ۔اسی دوران پاکستان ٹیلی وژن میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی اسامیاں نکلیں تو اس نے وہاں اپلائی کردیا اور منتخب ہونے کے بعد راولپنڈی سٹیشن میں پہلی پوسٹنگ ہوئی ۔راولپنڈی میں کچھ عرصہ گزارنے
کے بعد واپس اپنے لاہور میں آ گیا اور لاہور مرکز میں پی ٹی وی کا پہلا پی آر او ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔ وہ بہت محنتی اور  اپنے کام سے کمٹڈ انسان تھا ۔اس نے ادارے میں ساری عمر کھپا دی اور صلے کی پروا اور ستائش کی تمنا کیے بغیر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہر ہ کیا ۔شعبہ حالات حاضرہ میں پروڈیوسر کے طورپر اس نے پوری دیانتداری اور احساس ذمہ داری کے ساتھ خدمات انجام دیں ۔ اس دوران بڑے تاریخی ایونٹس کی کوریج کی، اہم پروگرام کیے ، اہم انٹرویوز کیے اور یاد گار ڈاکو مینٹریز تیار کیں ۔آج کے دور کے بعض بڑے ادیبوں ، شاعروں اور کالم نگاروں کو اسی نے پی ٹی وی کے ذریعے متعارف کروایا ، یہ وہ دور تھا جب پورے ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے صرف پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی کوئی اور چینل نہیں تھا۔


 وہ اپنے کام سے بڑا مخلص اور پروفیشن سے بڑ ا کمٹڈ  تھا۔ وہ انتہائی نرم خو اور رقیق القلب انسان تھا لیکن اصولوں پر بڑا سخت اور بد لحاظ بھی ہوجاتا تھا ،کیوں کہ وہ سفارش کے مقابلے میں میرٹ کو ترجیح دیتا تھا اور کام کے معیار پر کسی قسم کی لچک دکھانے یا کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں ہوتا تھا۔اسے کاسہ لیسی ، جی حضوری سے چڑ تھی ،وہ اسے انسانی شرف کے خلاف قرار دیتا تھا ۔ چنانچہ ایک ایسا ادارہ جہاں ترقی کا پہلا زینہ ہی جی حضوری سے مشروط ہو اس نے اس بیساکھی کا قطعی سہار ا نہیں لیا ، یہی وجہ تھی کہ اس کی اپنے سینیرز سے کم ہی بنتی تھی، چنانچہ اس نے اپنی اس ’’ افتا د ِ طبع ‘‘ کا خمیازہ بھی بھگتا کہ بہت سے جونیئرز ترقی پا کر اس سے آگے نکل گئے اور وہ ’’ اسی تنخواہ ‘‘ پر گزارہ کرتا رہا،وہ صحافت اور ادب کا آدمی تھا اس لیے اس نے ادب وصحافت کی بھرپور خدمت کی ۔


وہ بڑا وضعدار ، رکھ رکھاؤ رکھنے والا آدمی تھا،وہ ہماری تہذیبی زندگی کا نمائندہ اور عظیم روائیتوں کا امین تھا ۔ بہت حساس طبعیت کا مالک تھا ، وہ دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتا تھا اور ضرورت مندوں کی دل کھول کر مدد کرتا تھا لیکن اس انداز سے کہ ’’ دوسرے ہاتھ ‘‘ کو خبر بھی نہیں ہونے دیتا تھا۔وہ بڑا شرارتی ، بذلہ سنج ، حاضر جواب اور جملے باز بھی تھا ،وہ جس محفل یا جس تقریب میں بھی جاتا ’’ ہاتھوں ہاتھ ‘‘ لیا جا تا تھا۔ وہ تقریب میں پوری طرح چھا جانے کی قدرت رکھتا تھا۔اس کی یاد داشت بہت اچھی تھی اور وہ بے پناہ صلاحیتوں کا مالک تھا۔ اس کی انہی خوبیوں کی وجہ سے لوگ اکثر اسے پروگرام کی نظامت کا فریضہ سونپا کرتے تھے۔ وہ جس پروگرام کی نظامت کرتا پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیتا تھا۔ چنانچہ ہر پروگرام کے منتظمین اسے ہی نظامت کے لیے مجبور کرتے تھے کیونکہ وہ خوب سمجھتے تھے کہ وہ ’’ منصب ‘‘ کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتا اور اسے بہ طریق احسن نبھانے کے فن میں تاک تھا۔برمحل اور بر موقع شعر کہنا اور لطیفہ بیان کرنا گویا اس کے لیے ایسا تھا جیسے عام آدمی کے لیے سانس لینا۔

وہ اہل سیاست ، علمی و ادبی شخصیات کے جھرمٹ میں سب سے نمایاں دکھائی دیتا تھا یہ اس کا شوق ِ خود نمائی نہیں بلکہ اس کے اوصاف ، اس کے رویوں ، کردار اور انداز گفتگو کا منطقی نتیجہ ہوتا تھا کہ وہ میر محفل بن جاتا تھا۔اسے بات سے بات نکالنے کا ہنر آتا تھا ۔اس پر اپنے بڑے بھائی اعزاز احمد آذر کی چھاپ تھی لیکن اس نے کبھی بھی اور کہیں بھی اس تعلق کو بطور سفارش یا بیساکھی استعمال نہیں کیا ۔اسے بے شمار اعزازات اور ایوارڈز ملے ۔وہ اعلیٰ ظرف کا آدمی تھا ۔ دوستوں کے بارے میں ہمیشہ حسنِ ظن رکھتا تھا۔بیماری کے دوران اس کے ساتھ جب کبھی دوستوں کا تذکرہ ہوتا تو وہ کہا کرتا کہ میرے بہت سے دوست ہیں لیکن وہ میری تیمار داری کے لیے نہیں آئے تو مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں ہے یقینی طورپر کوئی مجبوری ہوگی ۔ وہ مسلسل بیمار رہنے کے باوجود وہ کسی لمحے بھی مایوس یا Depressed نہیں ہوا ۔ ہمیشہ رب ذوالجلال کا شکر ہی ادا کرتا رہا ۔ کیوں کہ وہ صابرو شاکر شخص تھا۔ وہ خوش لباس، خوش اطوار ، خوش گفتار اور خوش مزاج آدمی تھا۔ ہم نے لاہور سے باہر بھی متعدد سفر کیے ۔ وہ سفر میں بھی بہترین دوست اور رفیق ثابت ہوا ۔

ہمارے درمیان اس قدر مزاح اور چھیڑ خانی ہوتی تھی کہ بھائی اعزاز احمد آذر کہا کرتے تھے کہ مجھے آپ کی دوستی پر رشک آتا ہے ۔وہ کثیرالمطالعہ شخص تھا ، Book Lover تھا ۔ بک فیئرز میں ذوق وشوق سے شریک ہوتا اور کتا بیں خریدے بنا نہ جاتا تھا۔لایعنی اور بے مقصد گفتگو اسے پسند نہ تھی البتہ علمی و ادبی موضوعات اسے زیادہ مرغوب تھے۔ وہ تقریبات میں وقت پر پہنچنے کا عادی تھا ایسا بہت ہی کم ہوا کہ پروگرام شروع ہو گیا ہو اور وہ نہ پہنچا ہو ۔ گویا وہ وقت کا ’’ بری طرح ‘‘ پابند تھا۔یہ بھی اس کی ذات ہی کا کرشمہ تھا کہ نامانوس لوگوں میں بھی وہ اس طرح گھل مل جا تا تھا کہ جیسے برسوں کا شناسا ہو۔ اس کی گفتگو میں ایک خاص قسم کی چاشنی اور مٹھاس تھی ۔ وہ بور کرتا تھا نہ بور ہوتا تھا ۔شگفتہ مزاجی اس کی شخصیت کا خاصا تھا ۔ دوران ملازمت بھی اس نے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا، روزنامہ ’’ خبریں ‘‘’ سے لے کر روزنامہ ’’ جہان پاکستان ‘‘ تک وہ بیشتر اخبارات و جرائد میں باقاعدگی سے کالم لکھتا رہا۔ اس نے اپنی یاد داشتوں پر مبنی ’’ جہاں پاکستان ‘‘ میں کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو اس کے قارئین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا جو اس کے کالموں کا انتظار کرتے تھے ۔اس کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا ۔ ہر عمر کے لوگ اس کے دوست تھے ۔

وہ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر خواتین و حضرات سے لے کر بوڑھوں ( سینئر سٹیزنز ) تک میں یکساں مقبول اور ہر دلعزیز تھا۔ان میں بہت سے ایسے بھی ہوں گے جنہیں افتخار کا قریبی دوست ہونے کا دعویٰ بھی ہوگا ( جو شاید غلط بھی نہیں ہو گا ) لیکن میرے ساتھ اس کی دوستی ایک ’’ چیزے دیگر ی ‘‘ کے ذیل میں آتی تھی ۔ہم ایک دوسرے کے بغیر نامکمل تھے ۔ روزنامہ ’’ ایکسپریس ‘‘ میں چھپنے والی میری ہر خبر ، کالم ، سیاسی ڈائری پر اس کی نظر ہوتی تھی جن پر وہ بے لاگ تبصرہ کرنا اپنا فرض ِ عین سمجھتا تھا۔لیکن اخبار کے صفحہ 2 پر چھپنے والے میرے قطعے پر وہ ’’ نہار مونہہ ‘‘ ہی Comments دے دیتا تھا ۔ اس میں وہ ’’ ادھار ‘‘ کا قائل نہیں تھا اور یہ خوبی اس کی ایسی تھی کہ وہ ہر اس مضمون یا کالم پر تبصرہ کرنا پسند کرتا تھا جو اسے پسند آتا تھا خواہ اس کا رائٹر کوئی ’’ غیر محرم ‘‘ کیوں نہ ہوتا ۔ آخری چند ماہ میں جب بیماری کا غلبہ بڑھ گیا اور اس کے لیے براہ راست مطالعہ مشکل ہو گیا تھا تب بھی ہو بھابی صاحبہ اور بسا اوقات بیٹی کی مدد سے بھی اخبار خواندگی کرتا تھا ۔ وہ شاعر نہیں تھا لیکن شعر سناسضرورتھا ۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ افتخار مجاز ’’ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ‘‘ کبھی کبھی ایک دو شعر بھی کہنے کی کوشش کرتا تھا ۔ وہ جو بھی شعر تخلیق کرتا مجھے ’’ صلاح مشورے ‘‘ کے لیے پہلے بھیجتا تھا ۔ ہم کبھی کبھی آپس میں ’’ غزل و غزلی ‘‘ بھی ہو جایا کرتے تھے ۔ جس پر میں اسے کہتا کہ ’’ مجاز صاحب ان اشعار کو محفوظ بھی کرتے جاو یہ نہ ہو کہ ’’ امتدادِ زمانہ ‘‘ کے باعث ناپید ہی ہو جائیں ۔اس نے نعت کے بعض خوب صور ت اشعار بھی کہے تھے ۔اس کی کل شعری کائنات یہی کوئی آٹھ دس اشعار سے زیادہ نہیں ۔ وہ بہترین نثر نگار تھا ۔ اس کی تحریر میں بڑی پختگی ہوتی تھی ۔ وہ بڑا خوش خط تھا ۔وہ کے پاس ذخیرہ الفاظ تھا اور لفظو ں کا استعمال بڑی ہنر مندی سے کرتا تھا ۔وہ دیکھنے میں جتنا چلبلا، شرارتی اور بذلہ سنج تھا اندر سے اتنا ہی صوفی تھا ۔ اس کی بہت بڑی خواہش اور آرزو بیت اللہ شریف کی حاضری اور روضہ ء رسول ﷺ کی زیارت تھی ۔ اور اس کا اس نے متعدد بار میرے ساتھ تذکرہ کیا تھا۔وہ کہا کرتا تھا کہ جب بھی صحت بہتر ہوئی وہ حرمین شریفین کا سفر ضرور کرے گا۔ گو کہ اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی لیکن اسے اس حسن ِ نیت کا ثواب یقینی طورپر مل گیا ہوگا ۔

افتخار مجاز کی زندگی کے یوں تو بہت سے ایسے واقعات ہوں گے جن کو سفارش کے طورپر پیش کرکے خدائے رحمان و رحیم کے فضل و کرم کے صدقے میں جنت کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے ۔ لیکن راول پنڈی قیام کے دوران اس کی زندگی میں پیش آنے والا ایک ایسا واقعہ میری یادداشتوں کا خوش گوار حصہ ہے جسے میں بوجودہ آپ کے ساتھ شیئر تو نہیں کرسکتا کہ یہ صرف میرے اور اس کے درمیان ہی ایک راز یا امانت کے طورپر محفوظ رہے گا ۔ لیکن یہ ایسا واقعہ ہے کہ جس کی بنیاد پر سیدالانبیا ٗ ﷺ کی ایک حدیث کی روشنی میں وہ یقینی طورپر جنتی قراردیا جاسکتا ہے۔اور میرا اس سلسلے میں حسنِ ظن نہیں بلکہ شرح صدر ہے ۔اس کی غالب وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے والد نے ( پولیس ایسے محکمہ میں ہوتے ہوئے بھی ) اپنے اہل خانہ کو لقمہ ٗ حلال کھلایا اور خود اس نے بھی حلا ل رزق کمایا اوربچوں کو کھلایا اور فی زمانہ یہ اپنی جگہ بہت بڑی بات ہے ۔ میری دعا ہے کہ خدائے قادرو توانا اس کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے در گذر کرتے ہوئے اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور حضور ختمی مرتبت ﷺ کا پڑوس اسے نصیب ہو ( آمین ) 

(شہباز انور خان کا شہرِ لاہورکے بزرگ صحافیوں میں شمار ہوتا ہے ،علم و ادب سے گہرا شغف رکھنے والے شہباز انور خان تین دہائیوں سے بھی زائد عرصہ سے  اہم قومی اخبارات میں رپورٹنگ کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے آ رہے ہیں ،اب وہ ڈیلی پاکستان کے لئے مستقل لکھا کریں گے ،فیڈ بیک  کے لئے اُن کے موبائل نمبر 03208421657 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -