آنکھیں کھول دینے والی تحریر۔ پوری پڑھنی ضروری ہے
میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ اگر تم ضرورت کے وقت کسی انسان کی کچھ مدد کرتے ہو یا اسے کچھ دیتے ہو تو تم اپنے پاس سے کچھ نہیں دے رہے۔ تم اس کو صرف اس میں سے کچھ دے رہے ہو جو کچھ تمہیں اللہ رب العزت نے اپنی مہربانی سے عطافرمایا ہے۔اگر اللہ رب العزت تمہیں اتنا کچھ نہ دیتے کہ تمہاری یہ استطاعت ہوتی کہ تم اس میں سے کسی اور کو کچھ دے سکو تو تم کیا کر سکتے تھے۔ حضرت عثمان غنی کو اللہ کی ذات باری تعالیٰ اگر اتنی دولت عطا نہ کرتے تو وہ سخاوت کیسے کر سکتے تھے وہ سخی کیسے بنتے، وہ عثمان غنی کیسے کہلاتے۔اللہ رب العزت نے ان کے اوپر اپنی سخاوت کی،انہیں غنی بنایا تو انہیں نے اپنی دولت ضرورت مندوں مندوں پر لوٹائی۔ دراصل ہم یہ بات سمجھتے ہی نہیں کہ ہمارا اپنا تو کچھ ہے ہی نہیں سب کچھ اللہ کی پاک ذات عطا کیا ہوا ہے۔ ہمیں زرا موقع مل جائے ہم فرعونیت پر اتر آتے ہیں، اوقات ہماری یہ ہے کی برطانیہ کا وزیراعظم (جس ملک کی تقریباً پانچ براعظموں پر حکومت رہی ہے) اس ملک کا وزیراعظم کو مجبور ہو کر ہسپتال میں محتاط اور محتاج ہوا پڑا ہے۔ اگر ہم انسان اتنے ہی طاقت ور ہوتے تو ہم کیلی فورنیا کے اندر لگی آگ کو چند سیکنڈ میں کنٹرول کر لیتے۔ ہم اگر انسانوں کی استطاعت اتنی ہی ہوتی تو اسٹریلیا کے اتنے بڑے رقبعے پر آگ لگی جو رقبعہ کئی ملکوں سے بہت بڑا تھا تو اس کو کنٹرول کر لیتے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیئے تو ہم جتنے بھی ٹیکنالوجی پر قابو پا لیں ہم جتنی بھی ترقی کر جائیں، ہم جو مرضی کرلیں،ہمارے پاس پیسوں کا انبار لگ جائیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اللہ کی ذات باری تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو کی جو کچھ کرنا چاہے بس کن فیکون فرما کے سب کچھ کر سکتا ہے۔
یہ کرونا وائرس،جو وبا آئی ہے اس نے ہمیں جگایا ہے اور اسی طرح کے بہت سے مواقع ہمیں پیش آتے ہیں لیکن ہم لوگ جاگتے بالکل نہیں۔تھوڑا سا عرصہ سوچتے ہیں اور چند دن اثر رہتا ہے بھر ختم۔ ہم سمجھتے یہ ہیں یہ زمین ہماری،یہ انڈسٹری ہماری،یہ مال ہمارا،یہ دولت ہماری، ہم اس فرعون سے نیچے کی کوئی چیز ہیں ہی نہیں۔ ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ ہماری اوقات ہے کیا۔ قرآن مقدس کو اٹھا کر دیکھیں، قرآن میں بار بار اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ انسان کو اپنی حیثیت کا پتہ ہونا چاہیئے کہ تم گندے پانی کے ایک قطرے کی پیدائش ہو، لیکن انسان اپنے آ پ کو سمجھتا ہی نہیں، پھولا نہیں سماتا، اللہ کی دی ہوئی صلاحتیں ہیں، اللہ کی دی ہوئی طاقتیں ہیں، اللہ کی دی ہوئی دولتیں ہیں لیکن جب یہ سب ملتی ہیں تو اسی اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کو اپنے سے بہت کمتر سمجھتے ہیں،اس کے ساتھ تکبر کے ساتھ پیش آتے ہیں، اس کے ساتھ ظلم اور زیادتی کرتے ہیں اور بھر جب اللہ کی بے آواز لاٹھی اٹھتی ہے تو پھر ایسے تمام ظالم، فاسق، جابر لوگ اس سے بچ نہیں سکتے۔آج ہم لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ پہلے ہم دوسروں کو بتائیں،ہم فوٹو سیشن کریں، ہم Advertiseکریں۔ہمیں یہ نہیں پتا کہ ہم اس وقت اس کی عزت نفس کے ساتھ کیا کر رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ کسی کی عزت نفس سے کھیلتے ہیں اس کو دو روپے دے کر اس کی اشاعت کرتے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ کتنا ناراض ہوتا ہے۔
ہمیں چاہیئے یہ کہ ہمیں جو اللہ نے ذرائع دیئے ہیں ہم ان سے لوگوں کی مدد کریں، ان کی عزتِ نفس کا خیال کریں، خشوع وخضوع کے ساتھ عبادات کریں، اللہ سے استغفار کریں، اللہ کے احکامات کی پابندی کریں، دوسروں کا احساس کریں۔ ہمیں ایک دن سوچ آتی ہے جس طرح میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ہم ایک دن اپنے کسی رشتہ دار کو دفن کر کے آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ زندگی کیا ہے ہمیں سبق لینا چاہئے، لیکن دوسرے ہی دن ہم پھر بھول جاتے ہیں، ہم پھر اُسی فرعونیت پے اتر آتے ہیں، ہم اُسی اخلاقی گراوٹ پے اتر آتے ہیں، ہم پھر اُسی مالی بدعنوانی پے اتر آتے ہیں، ہم اُسی غرور و تکبر پر اتر آتے ہیں۔ ہم پھر سود بھی کھاتے ہیں، ہم پھر زنا کی طرف بھی جاتے ہیں، ہم پھر غروربھی کرتے ہیں، ہم لوگوں کو ذلیل و رسوا بھی کرتے ہیں اور ہم پھر کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہے، اللہ ہم سے ناراض کیسے نہ ہو۔ ربِ غفور و رحیم کی ذاتِ باری تعالیٰ نے بارہا دوسرے انسانوں کے ساتھ محبت کی تلقین کی ہے۔ آپ کتنے بڑے مفکر، محدث اور زاہد کیوں نہ ہو جائیں، آپ اس وقت تک نیک نہیں کہلا سکتے جس وقت تک کہ آپ کو یہ پتا ہو کہ کسی انسان کو میری مدد کی ضرورت ہے اور میں صاحب استطاعت ہوں اور آپ اس انسان کی مدد نہیں کرتے۔ ہمیں فیض والا ہونا چاہیئے اور فیض والا کیا ہوتا ہے۔ فیض کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ خود کوئی بڑی پہنچی ہوئی چیز ہیں، اللہ نے آپ کو کوئی فیض دے دیا ہے، کوئی علم کا فیض، کوئی دولت، کوئی انڈسٹری، کوئی عہدہ، تو اس فیض میں ہر ایک کو شریک کریں۔ بلخصوص غریبوں مسکینوں، نچلے درجے کے عہدوں پر موجود لوگوں کی عزت کریں، ان کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کریں، ان کی ضرورتوں سے ناجائز فائدہ مت اٹھائیں۔ قدرت اللہ شہاب صاحب کی ایک کتاب شہاب نامہ میں ایک دن پڑھ رہا تھا اس میں انہوں نے واصف علی واصف صاحب کے نام کے اگے صاحب لکھا تو کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اپنی اس کتاب میں بڑے بڑے لوگوں کے صرف نام لکھے ہیں لیکن صرف واصف علی واصف کے نام کے ساتھ صاحب لکھا ہے اس پر انہوں نے جواب دیا کہ اصل میں جو بندہ صاحب کی مسند پر بیٹھتا ہے وہ صاحبِ کمال ہوتا ہے اور صاحبِ کمال صرف وہ ہوتا ہے جس کے دل کے اندر اللہ کی محبت پک جاتی ہے اور جس وقت انسان کے دل کے اندر اللہ کی محبت پک جائے وہ محبت ہو ہی نہیں سکتی جب تک وہ اللہ کی بھیجی ہوئی اشرف المخلوقات یعنی کہ انسان کے ساتھ محبت نہ کرے۔ اصل محبت یہی ہے اصل فیض یہی ہے کہ انسانوں کے ساتھ محبت کی جائے، ان کا خیال کیا جائے۔ اللہ کی ذات کے ساتھ محبت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپنی ذات کی نفی کرنا اور اپنی ذات کے نفی آپ صرف اس وقت کرتے ہیں جب آپ اپنا تکبر چھوڑ دیتے ہیں، جب آپ اپنی ذات کے اندر سے غصہ نکال دیتے ہیں جب آپ اپنی باطنی اصلاح کر لیتے ہیں۔ جب آپ باطنی اصلاح کی فکر کرتے ہیں تو آپ اپنے سینے کو کینے سے پاک کر لیتے ہیں، اس وقت آپ ہرس، ظلمت، کدورت سے دور ہو جاتے ہیں، اس وقت آپ کا نفس آپ کو تکبر پر مجبور نہیں کرتا، حسد پر مجبور نہیں کرتا، غصے پر مجبور نہیں کرتا، کینے اور بخل پر مجبور نہیں کرتا۔ بلکہ اس وقت آپ کا نفس آپ کو حلم، انکساری، محبت، چاہت، پیار سیکھاتا ہے۔
اس لئے برائے مہربانی اس وقت اس بہت بڑی للکار کو جو اللہ کی طرف سے آئی ہے ہمیں بہت سنجیدگی سے لینا چاہیئے اور ہمیں اپنی اصلاح کر لینی چاہئے۔ انفرادی طور پر جب تک ہم اصلاح نہیں کریں گے، ایک ایک چیز پر غوروفکر نہیں کریں گے، اپنی بول چال پر، اپنے عمل پر، لوگوں کے ساتھ رویوں پر، اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے لوگوں کو حصہ دار بنانے میں، ان کا خیال رکھنے میں، اُس وقت تک اللہ کی ذاتِ باری تعالیٰ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
اللہ کی ذاتِ باری تعالیٰ ہمیں واپس بلا رہی ہے اس قدرتی طریقہ کارِ زندگی کی طرف جو اسلام نے وضع کر دیا ہے اور ہم اپنے وضع کردہ طریقوں کے مطابق رہنا چاہتے ہیں ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بتائے ہوئے طریقوں سے باغی ہوئے ہیں اور یہ ہمیں مزید باغی ہونے سے بچنے کے لیے للکار ہے، وارنینگ ہے کہ اگر وزیراعظم بوراس جانسن ہسپتال میں داخل ہو سکتا ہے اگر دنیا کے سب سے طاقتور ترین ملک امریکہ کا صدر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ ہمارے لیے ایک بہت بڑی آزمائش آ گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تمام طاقتیں، ان کی تمام ترفرعونیت والی توانائیاں وہ سب اس کے آگے جھک گئیں۔ اگر روس کا صدر پیوٹن گھر میں بند ہو گیا ہے اور اپنی عوام کو بھی کہہ رہا ہے کہ اپنے گھروں کے اندر رہو اور یہ کہہ رہا ہے کہ احتیاط کرو تو اس کا مطلب ہے کہ ان سب کے ہاتھ کھڑے ہو گئے ہیں اس لئے اللہ کا واسطہ ہے آپ چاہے ملک کے صدر ہیں، چاہے وزیراعظم ہیں، چاہے کوئی جرنیل ہیں، چاہے کسی ادارے میں بہت بڑے ڈائریکٹر لگ گئے ہیں، کھرب پتی بن گئے ہیں، فیکٹریوں کے مالک بن گئے ہیں، جاگیردار ہیں چاہے آپ کے پاس بڑا سے بڑا عہدہ آ گیا ہے پھر بھی آپ انسانوں سے محبت کریں اُن کی عزت کریں جب آپ اپنے عہدے کی وجہ سے یا اپنی حیثیت کی وجہ سے، اپنے کسی ملازم یا ماتحت کی مجبوری کی وجہ سے اس کو رسوا کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت اللہ اپنا جلال دیکھاتا ہے اس لئے اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے۔ اپنے اندر سے فرعونیت، تکبر، غرور نکال کر اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکا دیں اور اُس کے احکامات کے مطابق زندگی گزاریں تو شاید اُس باری تعالیٰ کی رحمت، اس کا کرم جو کہ ایک ماں سے ستر درجے زیادہ انسان کے ساتھ پیار کرتا ہے وہ اُدھر آئے اور ہم سب اس وبا سے بچ سکیں اور ہم اللہ کی اس وارننگ کو، اس للکار کو وقتی طور پر بچنے کے لیے صرف یاد نہ رکھیں بلکہ اپنی پوری زندگی کو اللہ کے احکامات کے مطابق ترتیب دینے کے لئے اس للکار کو اپنے لئے ایک آخری للکار سمجھیں۔ ناجائز خواہشات کے غلام نہ بنیں، بدمستی کے اندر غرق نہ ہو جائیں۔ دوسروں کو حقیر اور کمتر نہ جانیں۔ کسب دنیا بالکل بُرا نہیں لیکن حبِ دنیا بُرا ہے مال کماؤ پر مال کی محبت میں اور مال کی وجہ سے انسانیت کے نچلے درجے تک نہ پہنچ جاؤ۔ اپنی حاجت کے مطابق حلال مال ضرور رکھا کرو اس کو اپنی ضرورت پر ضرور خرچ کرو البتہ اس مال کی وجہ سے لوگوں پر ظلم نہ کرو، لوگوں کو حقیر نہ جانو، لوگوں کو ذلیل ورسوا نہ کرو۔ دنیا کی حقیقت پر غور کرو، اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے اس کو پیشِ نظر رکھو۔ ہم دنیا کی فکر میں زندگی گزار دیتے ہیں مال و دولت کی حوس میں دن رات ایک کر دیتے ہیں نہ اپنا خیال، نہ اپنے لواحقین کا، نہ رشتہ داروں سے میل جول اور زندگی کو صحیح طریقے پر جیتے ہی نہیں بس مال کی لگن میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ اس کرونا وائرس سے سبق حاصل کریں اپنے گھروں کو سادگی سے آراستہ کرنے کی مہم چلائیں۔ لباس میں دیکھاوا اور آرائش ترک کر دیں، اپنی دعوتوں میں One Dish کر دیں۔ زہد و تقویٰ کی زندگی اختیار کریں، خلافِ شریعت باتوں اور کاموں سے رک جائیں اور اپنا محاسبہ کریں۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے وہ ذاتِ باری تعالیٰ وہ سب کچھ چھین لینے پر قادر ہے جو کچھ وہ دینے پر قادر ہے۔ لذتیں، آرام دہ زندگی، محنت کے بغیر حرام مال کمانے کی لت، سب کچھ آسان ہے اور نفس مجبور کرتا ہے لیکن ذرا قرآن اٹھا کر دیکھیں، پڑھیں، سمجھیں اور جنت کی لذتوں کو گنیں جو کہ ابدی لذتیں ہیں۔ اللہ کی اس للکار کو سمجھیں، قرآنِ مقدس کو کھولیں، سمجھ کر پڑیں اور جن باتوں کے کرنے کا حکم ہے وہ کریں، جن سے بچنے کا حکم ہے ان سے دور رہیں اور سب سے اہم بات اللہ کی مخلوق خاص کر اشرف المخلوقات انسان سے محبت کریں اور اللہ کی طرف سے دئیے گئے مال اور دولت سے اس ضرورت کے وقت دوسرے حقداروں کو حصہ دار بنائیں۔ کیونکہ آپ اپنے پاس سے کچھ نہیں دے رہے ہونگے بلکہ جو اللہ نے آپ کو عطا کیا ہے اس میں سے دے رہے ہونگے۔