مولوی مشتاق حسین، بھٹو اور سزائے موت

مولوی مشتاق حسین، بھٹو اور سزائے موت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گلوکارہ و اداکارہ ملکہ ترنم نور جہاں نے 1953ء میں اپنے خاوند شوکت حسین رضوی کے خلاف تنسیخِ نکاح کا مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ سول جج لاہور چودھری غلام حسین کی عدالت میں وکیل مولوی مشتاق حسین نے شوکت حسین رضوی کی وکالت کی اور اے آر شیخ نے نور جہاں کی وکالت کی۔ نور جہاں کا کہنا تھا کہ شوکت حسین نے بغیر ثبوت کے یہ الزام لگایا کہ اس کے کرکٹر نذر محمد کے ساتھ تعلقات تھے۔ دوران سماعت مولوی مشتاق حسین نے نور جہاں پر جرح کرتے ہوئے اس کے نذر محمد کے ساتھ تعلقات کو ثابت کرنے کی کوشش کی تو نور جہاں نے بھری عدالت میں کہا ”میرے نذر کے ساتھ ایسے ہی تعلقات رہے ہیں جیسے مولوی مشتاق حسین کے ساتھ۔ میری ان کے ساتھ ملاقاتیں بھی اتنی ہی دفعہ ہوئی ہیں جتنی بار مولوی مشتاق حسین کے ساتھ اور یہ اسی سلسلے میں ہوتی رہی ہیں جس سلسلے میں مولوی مشتاق حسین کے ساتھ۔“


یہ واقعہ چودھری غلام حسین سول جج ریٹائرڈ نے اپنی کتاب ”جج، جرنیل اور جنتا“ میں بیان کیا ہے۔ ہم غالب کے طرفدار نہیں، تاہم اتنا جانتے ہیں کہ چودھری غلام حسین کے ضیاء دور میں ہائی کورٹ کا جج بننے میں مولوی مشتاق حسین جو تب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تھے،بوجوہ رکاوٹ بنے تھے، لہٰذا چودھری صاحب نے مذکورہ واقعہ اپنی کتاب میں درج کر کے شاید دل کا غبار نکالا ہو گا،ورنہ کون نہیں جانتا کہ فلمی دنیا میں شرمناک مردانہ گالیاں دینے والی نور جہاں کسی کے بارے میں کچھ بھی بے دھڑک کہہ سکتی تھی جبکہ کہا جاتا ہے کہ شوکت حسین رضوی نے اسلامیہ پارک کے ایک مکان سے نور جہاں کو موقع پر جا پکڑا تھا جبکہ نذر محمد عقبی دیوار پھاندتے ہوئے اپنا بازو تڑوا بیٹھا تھا۔ نور جہاں نے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان سے بھی تعلقات کی تردید کی تھی مگر پھر نوائے وقت نے یحییٰ خان کے نام اس کے محبت نامے کا عکس چھاپ دیا تھا۔


نور جہاں کی مذکورہ گفتگو کو چودھری غلام حسین اور بھٹو کے شیدائی ہائی کورٹ سے بھٹو کی سزائے موت کو جسٹس مشتاق حسین کے کمزور کردار کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور بھٹو کی نواب احمد خاں قتل کیس میں پھانسی کو عدالتی قتل کہتے چلے جاتے ہیں،حالانکہ بھٹو کی قومی اسمبلی میں احمد رضا قصوری کو فکس اپ کرنے کی دھمکی، ان کے بہنوئی غلام حیدر خان کا مطبوعہ انٹرویو، جنھیں بھٹو نے اسلام آباد بلا کر احمد رضا کو جائیداد کے تنازع کی آڑ میں قتل کرنے کی ہدایت کی تھی اور خود بھٹو کے احمد رضا خاں کی فائل پر تحریر کردہ الفاظ، کوئٹہ میں اپوزیشن کے ایک اجلاس میں احمد رضا پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش اور اسلام آباد میں ان پر سرکاری گاڑی چڑھا دینے کی ناکام کارروائی کے بعد شادمان لاہور میں ان پر ایف ایس ایف (فیڈرل سکیورٹی فورس) کے لوگوں کی فائرنگ،جس میں ان کے والد نواب احمد خاں مارے گئے، ایسے کتنے ہی شواہد بھٹو کو قتل میں ملوث کرتے ہیں۔


ایک واقعہ راقم السطور نے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوار الحق کی زبانی سنا، وہ اس سات رکنی بنچ کے سربراہ تھے جس نے چار تین کی اکثریت سے سزائے موت کے خلاف بھٹو کی اپیل مسترد کی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس انوار الحق پائنا (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز) کی تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ چائے پیتے ہوئے انھوں نے دسیوں لوگوں کے سامنے بیان کیا: ”ہم نے بھٹو کا خلاف روایت کے مطابق سپریم کورٹ میں طویل بیان لیا۔ عدالت میں وعدہ معاف گواہ مسعود محمود بھی بیٹھے تھے۔ بولتے بولتے بھٹو نے اچانک مسعود محمود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”یہ مسعود محمود اتنا خبیث اور کمینہ شخص ہے کہ جب یہ کراچی کا ایس ایس پی تھا تو اس نے ایک ملزم سے اقبال جرم کروانے کے لیے اس کی بیوی کو تھانے بلا کر اس کی شلوار میں چوہے چھوڑ دیے تھے۔“ میں نے کہا: ”بھٹو صاحب ہم مان لیتے ہیں کہ یہ شخص اتنا ہی خبیث اور کمینہ ہے جیسا کہ آپ بتا رہے ہیں مگر کیا آپ بتائیں گے کہ اس خبیث اور کمینے شخص سے ایسے ہی گندے کام لینے کے لیے اسے آپ نے ایف ایس ایف کا سربراہ بنایا تھا؟ لیکن بھٹو صاحب کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔“


اور وہ جو مسعود محمود نے ملزم سے اقبال جرم کروانے کے لیے اس کی بیوی کو تھانے بلایا تھا تو اس لیے کہ غالباً آفتاب نامی بھارتی جاسوس کسی طرح اپنا جرم تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ تب مسعود محمود نے مذکورہ حربہ آزمایا اور جب اس کی بیوی نے گھبرا کر اسے لعنت ملامت کی کہ تم خود تو گندے کام کرتے ہو، مجھے کیوں ذلیل کروا رہے ہو۔ تب ملزم نے اپنے سارے کالے کرتوت ایس ایس پی کے سامنے اگل دیے تھے۔
اور وہ جو احمد رضا قصوری کے بہنوئی غلام حیدر کا انٹرویو 1990ء کی دہائی میں اپریل کے شمارے میں اردو ڈائجسٹ میں چھپا تھا، وہ قصور کے رہنے والے ڈاکٹر منظور ممتاز مرحوم نے کیا تھا۔ غلام حیدر خاں ان کی سوتیلی بہن کا خاوند تھا اور ان کے ساتھ کوئی جائیداد کا معاملہ تھا۔ بھٹو کو پتا چلا تو انھوں نے غلام حیدر خاں کے دوست ایک صوبائی وزیر کے ذریعے سے انھیں اسلام آباد بلایا اور ان کے خانگی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ احمد رضا میرے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے اور وہ میرے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ اب الیکشن (1977ء)کی انتخابی مہم میں اس کا آپ کسی طرح خاتمہ کر دیں، پھر آپ کو وزیر، سفیر جیسا عہدہ دیا جا سکتا ہے۔ غلام حیدر خاں نے کہا کہ سر،یہ ٹھیک ہے کہ احمد رضا کے ساتھ ہمارا جائیداد کا جھگڑا ہے لیکن آخر وہ میرا رشتے دار ہے۔میں اس کی جان نہیں لے سکتا۔ اس پر بھٹو صاحب غصے میں آ گئے اور بولے کہ تم جانتے نہیں کس سے بات کر رہے ہو،I shall eleminate you. اس پر غلام حیدر خاں نے خاموشی ہی میں عافیت جانی اور بھٹو نے انھیں اس کام کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا اور پھر ایک پولیس آفیسر کو بلا کر کہا کہ غلام حیدر خاں کو ایک کام سونپا ہے، اس میں ان کی ہر طرح سے مدد کی جائے۔ غلام حیدر خاں نے بتایا کہ میں اپنی دیہی رہائش گاہ پر آیا تو وہاں اپنی وصیت لکھ کر الماری میں بند کر دی اور اپنی بیوی سے یہ کہا کہ اس دوران میں مجھے کچھ ہو جائے تو اس کا مقدمہ ذوالفقار علی بھٹو کے نام درج کرایا جائے۔ اس کے بعد بھٹو صاحب انتخابی مہم میں مصروف ہو گئے اور پھر انتخابی دھاندلی پر ان کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی اور بات آئی گئی ہو گئی۔


دراصل بھٹو آخر انسان ہی تھے۔ ان کے کردار میں کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو تھے۔ بھٹو کا متفقہ آئین تیار کرانا، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو بلوا کر ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا ان کے کردار کے بہت اچھے پہلو ہیں، تاہم 1956ء کے آئین کی بحالی کی راہ میں رکاوٹ بننے پھرشیخ مجیب کے ساتھ 6 نکات پر انتہائی نامناسب جھگڑا کھڑا کر کے سقوط ڈھاکہ کی راہ ہموار کرنے اور قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے جیسے معاملات ان کی ذات کے منفی پہلو ہیں، حالانکہ وہ ڈھاکہ میں مجیب سے مل کر ان کے ساڑھے پانچ نکات مان چکے تھے۔


پاکستان کے پانچویں وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کی نواسی بیرسٹر شاہدہ جمیل جنرل مشرف کی کابینہ میں وزیر قانون (1999ء تا 2002ء) رہیں۔ وہ ایک انٹرویو میں کہتی ہیں ”ذوالفقار علی بھٹو کیس میں سارے قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ بھٹو نے عدالت میں دفاع کی میز پر چڑھ کر ہو جمالو کیا اور عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ تصاویر شائع ہوئیں لیکن ججوں نے ان کے اس فعل پر توہین عدالت نہیں لگائی۔“ شاہدہ جمیل نے اس سیاسی جھوٹ کی بھی تردید کی کہ 1977ء کی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں ڈالر بٹے تھے۔ بیرسٹر شاہدہ کا کہنا ہے کہ ”بھٹو آمریت کے خلاف لوگ مجبور ہو کر نکلے تھے۔“

مزید :

رائے -کالم -