پاکستان کا تعلیمی نظام اور درپیش مسائل
اقوام اور افراد کی ترقی کا انحصار علم وتعلیم اور تحقیق پر مبنی ہوتا ہے معاشرہ ہمیشہ تعلیم اور اس کے نظام کی ترقی کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے تحقیق اور مطالعہ سے ہمیں اس سے آگاہ کر تا رہتا ہے۔علم کا دوسرا نام تحقیق ہے تحقیق کیلئے بہت ضروری ہے اہلیت اور قابلیت۔
موجودہ نظام تعلیم پر غور کریں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گاکہ آج کل کے تمام تعلیمی ادارے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور اس دوڑ میں تعلیمی نظام کا بیٹرہ غرق کر دیا ہے۔لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔اور موجودہ تعلیمی نظام نے طالب علموں کو رٹا لگانے اور سیلیکٹڈ سٹڈی میں مصروف رکھا ہو ا ہے۔ ہونا تو ایسا چاہیے کہ غور فکر، مشاہدہ،اور تجربہ طالب علم کو اس کا عادی بنایا جائے۔ غریب کا بچہ ہمیشہ غربت میں ہی دن گزارتاہے۔ وہ اپنی تعلیم کو ہمیشہ نوکری تک محدود رکھتا ہے اور یہاں پر تعلیم اور ریسرچ ختم ہو جاتی ہے،تعلیم محض نوکری کیلئے حاصل نہیں کرنی چاہیے بلکہ تعلیم انسان کی پہچان کراتی ہے حیوان سے انسان بناتی ہے اورخداتعالیٰ نے اسی وجہ سے اشرف المخلوقات جیسا شرف دیا ہے اس وقت ہمارے تعلیمی ڈھانچے میں غیر پیشہ ورانہ افراد کی کثیر تعداد قابض ہوتی نظر آرہی ہے۔اور نئے نئے تعلیمی منصوبوں پر حکومت بے تحاشا غیر ملکی سرمایہ خرچ کر رہی ہے اور امداد کی صورت میں بھی کثیر سرمایہ خرچ ہو رہا ہے اور نئی آنے والی حکومت،سابقہ حکومتوں کی تعلیمی پالیسیوں کو نظر انداز کرکے نئی پالیسیاں بنانا شروع کر دیتی ہے، سابق حکومت نے دانش سکول بنائے جن پر غیر ملکوں سے حاصل امداد خرچ کی گئی یہ ادارے موجودہ حکومت کی ترجیح نہیں ہیں اور اس کی ترجیحات مختلف ہیں۔ہماری حکومتوں کی ناقص پالیسیاں اور تعلیم پسماندگی کی اصل وجہ ہیں۔ آج تک قوم کو صحیح نظام تعلیم دے نہیں سکے۔ایک ایسا نظام تعلیم جس کے تحت ملک تعلیمی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا۔ہمارے ملک کا موجودہ تعلیمی نظام کئی مسائل سے دو چار ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام بری طرح متاثرہو رہا ہے مسائل تو بہت زیادہ ہیں میں یہاں چند ضروری مسائل کا ذکر کرنا مناسب خیال کرتا ہوں۔
تعلیم کی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہمارے ملک میں بہت بڑا مسئلہ ہے اور ملک کے اندر تعلیمی نظام کے بگاڑ کی وجہ بھی ہے۔ہمارے معاشرے میں تعلیم کے لئے مختص بجٹ کی تقسیم غیر منصفانہ ہے مراعات یافتہ طبقات کے لئے جو تعلیمی ادارے پبلک یا نیم پبلک سیکٹر میں قائم ہیں تعلیمی بجٹ کا کثیر حصہ انہیں مل جا تا ہے اور جہاں پر سرکاری تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی تعداد بہت زیا دہ ہوتی ہے وہاں سہولتیں بہت ہی کم ہوتی ہیں بہت سارے مسائل ہیں کیونکہ افراد زیادہ،وسائل کم ہوں تو ہر جگہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
سیاسی مداخلت نے بھی ہمارے تعلیمی نظام کو کافی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ہمارے تعلیمی نظام کو درپیش مسائل میں یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اساتذہ کی تقرریاں اور تبادلہ وغیرہ اور تعلیمی اداروں میں بے جا مداخلت سے استاد کی عزت مجروح ہوتی ہے اور اس طرح سے تعلیمی نظام میں گڑبڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور لوکل بلدیات کے نمائندگان بھی تعلیمی اداروں میں کافی دلچسپی لیتے ہیں اور اپنی مرضی سے ان اداروں میں مداخلت کرتے ہیں۔اور اپنے ذاتی ووٹ کی وجہ سے سب کام کرتے ہیں اس سے تعلیمی ترقی رک جاتی ہے اور وہاں پر ایسے لوگوں کا راج ہو جاتا ہے جو تعلیم کو دور سے بھی نہیں جانتے۔
ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں میں اختیارات کا نا جائز استعمال کیا جاتا ہے سلیبس کی تشکیل جیسا معاملہ، انتظامی مسئلہ ہو یا کوئی بھی تعلیم کے متعلق ہو سب کچھ مرکز میں ہوتا ہے نہ تو اس میں اساتذہ سے کسی قسم کا کوئی بھی مسئلہ پوچھا جاتا اور نہ ہی اس معاملے میں کوئی تعاون درکار ہوتا ہے نصاب متعارف کروا دیا جاتا ہے اس طر ح استاد ایک قسم کاآلہ کار بن کر رہ جاتا ہے۔تمام تر پالیسیاں بس ایک کاغذی کارروائی تک محدود رہ جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں تعلیمی پالیسیاں بڑی تیزی سے بنتی ہیں اور تیزی سے تبدیل بھی ہو جاتی ہیں اس طرح وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے اور پیسے کا بھی ضیاع ہوتا ہے اور تعلیمی نظام کو بگاڑنے کا ایک اہم سبب بنتا ہے۔برطانیہ، امریکہ،فن لینڈجیسے ممالک ایجوکیشن ایکٹ کو پاس ہوتے ہوئے دو سال لگنا ایک عام سی بات ہے لیکن ہمارے ہاں راتوں رات پالیسی بنتی ہے اور پھر اگلے دن ختم بھی ہو جاتی ہے۔سیکرٹری تعلیم اور وزیر تعلیم تبدیل ہونے سے فیصلے کالعدم ہو جاتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں سہولتوں کا فقدان بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں ہر دفعہ بجٹ کا مسئلہ رہا ہے بجٹ بہت کم ہو تا ہے۔ریسرچ اور سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے۔اکثر سکولوں،کالجوں،اداروں میں ہاسٹل،میڈیکل، لائبریری، کامن روم، فرنیچر، غیر معیاری اور ضروریات سے بہت کم ہوتا ہے۔بعض اداروں میں طالب علم زیادہ ہوتے ہیں اور کمرے کم ہوتے ہیں وہاں بچوں کو کلاس روم میں دھکیل دیا جاتا ہے اس طرح سے تعلیمی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے بھی ہم مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرپاتے اور ہمارے تعلیمی نظام میں بہتری نہیں آتی۔
پڑھے لکھے لوگوں کو تعلیمی پالیسیوں کا حصہ ہونا چاہیے۔اور پڑھے لکھے لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔اور نئی نسل کو آگے لانے کیلئے ان کی ذہن سازی بہت ضروری ہے۔اساتذہ نئی نسل کو ان خرابیوں سے بچائے اور نچلی سطح سے بچوں کو ریسرچ کے متعلق بتایا جائے اور عملی طور پر بھی اس کو لاگو کیا جائے اور ہمارے اساتذہ کرام آگے بڑھیں اور معاشرے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔اس سے معاشرے میں اور ملک میں بہتری آئے گی تعلیم کے ذریعے سے صبرو تحمل، عزت واحترام،قوت برداشت، ایثاروخدمت ایسی اقدار معاشرے کے اندر سموئی جا سکتی ہیں۔