"وساکھی کا تہوار اور جلیانوالہ کا قتل عام"

"وساکھی کا تہوار اور جلیانوالہ کا قتل عام"
سورس: Picryl

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر:  احمد رضا پنجابی

کچھ مظالم ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں بعد بھی تاریخ کو نہیں بھولتے۔ جلیانوالہ کا قتل عام بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ یہ ظلم اس دن کیا گیا جس دن اہل پنجاب صدیوں سے گندم کی فصل گھر آنے پہ خوشیاں مناتے ہیں۔ ڈھول پہ بھنگڑے ڈالتے ہیں ماہیئے گاتے ہیں اور اپنی خوشی سے پورے سماج کو ہنستا بستا معاشرہ بناتے ہیں۔
ہندوستان بھر اور خاص کر پنجاب میں گورے سے آزادی کی تحریک زوروں پہ تھی۔ پنجاب سے کئی پارٹیاں گروپ اور ایکٹوسٹ اس بات پہ سرگرم تھے کہ دھرتی ماں پہ اب گورے کا قبضہ منظور نہیں۔ ایسے میں ہی ہندوستان کی مرکزی مشاورتی کونسل نے رولٹ سڈنی کی سربراہی میں 18 مارچ 1919 کو ایک ایکٹ منظور کیا جسے رولٹ ایکٹ کا نام دیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی بھی شہری کو شک کی بنا پہ جیل میں بند کیا جا سکتا ہے یہ اسی ایکٹ دفاع ہندوستان کی عملی صورت تھی جس کا نفاذ 1915 میں کیا گیا تھا جس کے خلاف پہلا احتجاج وائسرائے کی کونسل سے آیا تھا جب قائد اعظم  محمد علی جناح، مظہر الحق ، مدن موہن اور بی این شرما احتجاجاً مستعفی ہو گئے تھے۔ 
رولٹ ایکٹ کا مقصد پنجاب اور بنگال کے عوام اور انقلابیوں کی آواز کو طاقت کے زور پہ دبانا تھا۔ اسی لئے اس وقت کے عدالتی سسٹم کو رولٹ ایکٹ کے ماتحت کر دیا  گیا تھا۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف گاندھی جی  نے 6 اپریل 1919 کو بغیر مار دھاڑ کے ہڑتال کرنے کی درخواست کر دی۔ اس کے ساتھ ہی ہر طرف ہڑتالوں اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس سے پہلے 30 مارچ کو دہلی میں پولیس اور عوام ایک دوسرے کے سامنے آ گئے تو پولیس نے گولی چلا دی جس سے 8 شہری ہلاک ہو گئے۔ 8 اپریل کو ہندو مسلم اتحاد کانفرنس کے خلاف پولیس حرکت میں آ گئی۔ گاندھی جی  نے سبھی حالات کو دیکھتے ہوئے پنجاب آنے کا فیصلہ کیا مگر انہیں گورگانواں ریلوے سٹیشن پہ گرفتار کر لیا گیا ۔ 10 اپریل کو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر مسٹر مائلز ارینگ نے امرتسر کے دو مشہور سیاسی لیڈران سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستے پال کو ملاقات کے بہانے بلایا اور چالاکی سے گرفتار کر لیا۔ اس پہ عوام سڑکوں پہ نکل آئے اور ڈپٹی کمشنر کے بنگلے کا گھیراؤ کر لیا۔ یہاں پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی لوگ جب زخمیوں کے اٹھانے کو آئے تو ان پہ بھی گولی چلا دی یہاں سے عوام اور غصے میں آئی اور جہاں جہاں گورا نظر آتا اس پہ ٹوٹ پڑتے۔ امرتسر کے ساتھ ساتھ لاہور قصور اور گوجرانولا میں بھی حالات کشیدہ ہو گئے۔ 11 اپریل کو مارشل لاء لگا کر پنجاب کی ذمہ داری جنرل ڈائر کو دے دی گئی۔
13 اپریل وساکھی کا دن تھا اس دن پنجاب بھر سے لوگ وساکھی منانے جلیانوالہ باغ آتے تھے۔ اس دن بھی پنجابی مسلمان سکھ اور ہندو مرد عورتیں اور بچے بڑی تعداد میں جلیانوالہ باغ اکٹھے ہو گئے۔ یہ تعداد 20 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ڈائر کو جب  وساکھی منانے کا معلوم ہوا تو فوج کو لے کر جلیانوالہ باغ پہنچ گیا۔ فوج کو گولی چلانے کا حکم دیا گیا۔ 12 سے 15 منٹ فائرنگ ہوتی رہی جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ قتل کر دیئے گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 337 پنجابی قتل ہوئے جن میں دو ماہ کا ایک بچہ بھی شامل تھا۔ جلیانوالہ باغ کے واقعے نے تاریخ کا رخ بدل دیا، بھگت سنگھ جیسے کئی جوان انقلابی طور پہ سرگرم ہوئے اور جان کی بازی لگا کر لوگوں کو آزادی کے رستے پہ چلا دیا۔
گورے سے آزادی کے بعد دو ملک بنے مگر افسوس کا مقام ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتوں نے کبھی جلیانوالہ کے شہیدوں کو یاد نہیں کیا اور نہ ہی ان مظالم پہ برطانیہ سرکار سے کبھی معافی منگوانے کو کوئی قرارداد پاس ہوئی۔ 

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -