ہندو خاندانوں کی ہجرت کا ایشو نظر یہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کیخلاف سازش ہے
لاہور (شہباز اکمل جندران) ماہ اگست میں ہندو خاندانوں کی پاکستان سے ہجرت کا ایشو، نظریہ پاکستان، پاکستان اور دوقومی نظریے کے خلاف سازش ہے، آئین پاکستان 1973آرٹیکل 36کے تحت ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے، ملک کے ہندو وزرا اور ہندو تنظیموں کے رہنما بھی اسے سازش قرار دیتے ہیں۔ ان دنوں ایکبار پھر پاکستان کی شہریت رکھنے والے ہندو وں کی بھارت کی طرف سے ہجرت کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے صوبے سندھ،اوربلوچستان میں ہندو اقلیت کا جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ ہندو سیوا نامی پاکستانی ہندو تنظیم کے مطابق 2008سے اب تک ہر مہینے میں 10ہندو خاندان پاکستان میں جان و مال کے عدم تحفظ کی وجہ سے بھارت کی طرف ہجرت کررہے ہیں، ایسے لوگوں کا الزام کہ پاکستان میں آسان ہدف ہونے کی وجہ سے ہندووں کی جائیدادیں چھینی جارہی ہیں،ان کی دکانیں لوٹی جارہی ہیں اوران کی لڑکیوں کو زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کیا جارہا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران صرف کوئٹہ سے 50ہندو اغوا ہوئے، ذرائع کے مطابق پاکستان میں ہندووں کی مجموعی آبادی 60سے 70لاکھ کے قریب ہے، اور ہندو ملک کے چاروں صوبوں میں آباد ہیں،لیکن زیادہ تعداد میں ہندو سندھ کے علاقوں تھر پارکر،جیکب آباد، کشمور، شکار پور اور تھل وغیرہ جبکہ بلوچستان میں سبی، باغ، دھادر، نصیرآباد، قلات جیسے علاقوں میں آباد ہیں، ہندووں کی مبینہ ہجرت پر جہاں دنیا کی نظریں پاکستان پر لگ گئی ہیں وہیں،انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی شور مچانا شروع کردیا ہے، کہ ملک میں اقلیتوں کو تحفظ دیا جائے،ان کے جان ومال کی حفاظت کی جائے،ماہ اگست میں ہندوﺅں کی اس نام نہاد ہجرت پر وزارت داخلہ نے بوکھلا کر واہگہ بارڈر کے راستے بھارت جانے والے 100 ہندو یاتریوں کی روانگی روکی اور ہندو یاتریوں نے احتجاج کیا تو معاملہ زیادہ اچھل گیااور صدرمملکت کو نوٹس لینا پڑا ۔ ایک طرف وزیر داخلہ رحمن ملک نے اڑھائی سو سے زیادہ ہندووں کو بھارتی ویزے د یے جانے پر بھارتی ھائی کمشنر سے وضاحت طلب کی ہے تو دوسری طرف انہوں نے یقین دلایا ہے کہ ملک میں ہندووں سمیت تمام اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیا جارہا ہے،ہندووں کے جان ومال کی حفاظت حکومت کا فرض ہے اور حکومت اس فرض کو پورا کریگی جبکہ سندھ کابینہ کے ہندو وزیر مکیش چاﺅلہ کا کہنا ہے کہ سندھ یاپاکستان کے کسی بھی علاقے میںہندوﺅں کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جارھا،ہندومحفوظ ہیں اور ہجرت نہ کریں جبکہ حیدرآباد میں ہندو کمیونٹی کے سربراہ بابو مہیش نے بھی اپنی قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ دھرتی ماں کو چھوڑ کر نہ جائیں سندھ ان کی دھرتی ماں ہے، بابو مہیش نے بھی ہندوﺅں کو پاکستان میں محفوظ کیا ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ ہندووں کی پاکستان سے ہجرت کو دانستا ًاچھالا اور ایشو بنایا جار ہا ہے اور اس کے پیچھے ملک دشمن عناصراور مخالفین کام کررہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قائداعظم سیکولر تھے اور وہ ملک کو بھی سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، حالانکہ قائداعظم نے اسلامی نام اور اسلامی مقاصد کی حامل جماعت (مسلم لیگ) کی سربراہی کی اور اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے بھارت کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک حاصل کیا۔ دوسری طرف دستور پاکستان 1973اپنے آرٹیکل 36 میں ملک میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مکمل تحفظ کی یقین دھانی کرواتا ہے، مذکورہ آرٹیکل کے مطابق ً مملکت، اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا جن میں وفاقی اورصوبائی ملازمتیںاور ان کی مناسب نمائندگی شامل ہے، کا تحفظ کرے گی، مذکورہ آرٹیکل کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں آئین کے تحت تمام اقلیتی فرقوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ دیگر ملکی شہریوں کی طرح اقلیتوں کے حقوق کی بھی ضمانت دی جائیگی، نقل وحمل کی آزادی، اجتماع کی صورت میں مذہبی آزادی، اور نشرو اشاعت کا پورا حق دیاگیا ہے، تفریحی مقامات پر تمام اقلیتوں کو بلاامتیاز آنے جانے کی آزادی ہے، اقلیتوںکی ملازمت کے کوٹے مقرر ہیں۔ اقلیتی فرقوں کے تہواروں پر براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور ٹیلی ویژن سے خصوصی پروگرام نشر کیئے جاتے ہیں، اقلیتوں کے مطالبے پر انہیں 25دسمبر کو سرکاری تعطیل دے دی گئی ہے۔ آرٹیکل 36کی متذکرہ بالاتشریح سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا تحفظ حکومت پر فرض ہی نہیں اس کی آئینی پابندی بھی ہے، آج پاکستان میں اقلیتوں کو ناصرف سینٹ میں خصوصی نشستیں دی گئی ہیں بلکہ انہیں سرکاری ملازمتوں میں بھی 5فیصد کوٹہ دیا جاتا ہے، اور ملکی آبادی کا 1.7یا 1.8ٰفیصد آبادی کے حامل ہندو وں کے حوالے سے ملک میں اغوا،قتل اور لوٹ مار کی شرح اس سے کہیں کم ہے جو ملک میں بسے والی اکثریت مسلمانوں کو درپیش ہے، اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کے سیکرٹری ڈاکٹر رفیق احمد کا کہناتھا کہ دوقومی نظریے اورنظریہ پاکستان کے مخالفین کھلے عام پاکستان اور تحریک پاکستان کے ہیروز کی مخالفت کرتے ہیں اور ہندووں کی ہجرت جیسے معاملات کو میڈیا میں ہوا دیتے ہیں، ایسے لوگ قابل مذمت ہیں۔