افغان صدر کے شدید جذبات

افغان صدر کے شدید جذبات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سوموار کو کابل کے ہوائی اڈے کے داخلی راستے پر خودکش کار بم دھماکے سے 4 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 5 افراد ہلاک اور17زخمی ہوگئے، زخمیوں میں ایک خاتون، بچہ اور کئی اہلکار بھی شامل تھے۔طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی، ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق دھماکے کا مقصدغیر ملکی فوجیوں کی دو بکتربند گاڑیوں کو نشانہ بنانا تھا۔واضح رہے کہ افغانستان میں گزشتہ ایک ہفتے سے دہشت گردی کی بد ترین لہر جاری ہے اور ہوائی اڈے پر حملے کو اسی سلسلے کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔افغانستان میں موجوداقوام متحدہ کے مشن کی ایک رپورٹ کے مطابق یکم سے سات اگست کے دوران مختلف حملوں میں 282 لوگ مارے گئے اور 1,241 زخمی ہوئے۔ یقیناًیہ انتہائی افسوسناک صورت حال ہے،لیکن شائدکابل کے ہوائی اڈے پر حملہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا، افغان صدر اشرف غنی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ انہوں نے غم و غصے کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے افغانستان میں حالیہ دہشت گردی کی تمام تر ذمہ داری براہ راست پاکستان پر ڈال دی۔کابل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کو امن کی امید تھی، لیکن پاکستان سے کابل کو جنگ کے پیغامات مل رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان میں خودکش بمبار تیار کرنے والے کیمپ اور بم بنانے والی فیکٹریاں پہلے کی طرح کام کر رہی ہیں، پاکستان طالبان کو لگام ڈالنے میں ناکام رہا ہے، جس وجہ سے پاکستان سے افغانستان پر حملے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات ان کے قومی مفاد سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کے قومی مفاد میں سب سے مقدم ان کے شہریوں کا تحفظ ہے، اگر ان کے لوگ ایسے ہی مرتے رہیں گے تو دو طرفہ تعلقات کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا۔
پریس کانفرنس سے خطاب سے صرف ایک روز قبل اتوار کو افغان صدر نے وزیراعظم پاکستان سے دس منٹ تک فون پر بات چیت کی تھی، جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ شروع کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔واضح رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سات جولائی کو مری میں باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہوا تھا، دوسرا راونڈ 31 جولائی کوطے تھا لیکن ملا عمر کی وفات کی خبر منظر عام پر آنے کی وجہ سے وہ دورمنسوخ ہو گیا تھا۔افغان صدر نے ٹیلی فون پر بات چیت میں پاکستان کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوششوں کو سراہا تھا، وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کابل میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی اور افغان صدر کے رویے کی تعریف کی۔افغان صدر نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی بات چیت کی تھی ۔افغان صدر کا موقف تھا کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کو اسی نظر سے دیکھے جیسے کہ وہ پاکستان میں دیکھتا ہے، افغان عوام مُلک میں دیر پا امن اور پڑوسی ملک پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔سب کچھ اچھا اچھا چل رہا تھا، لیکن دہشت گردی کی وارداتوں نے افغان صدرکو شدت سے متاثر کر دیا۔اگلے ہی دن انہوں نے براہِ راست پاکستان پر الزام تو لگایا ہی ساتھ ہی افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے ذریعے امن مذاکرات سے بھی انکار کر دیا،ان کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کو اپنے طریقے سے آگے بڑھائیں گے۔
پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغان صدر کے الزامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔افغانستان میں دھماکوں اور حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ دہشت گردی کا شکار ہونے کی وجہ سے افغان حکومت اور عوام کا دکھ سمجھتے ہیں، دکھ کی گھڑی میں افغان عوام کے ساتھ ہیں۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں اس وقت صورت حال خاصی مخدوش ہے،جمعتہ المبارک کو ایک ہی دن میں کابل میں تین حملے ہوئے، سب سے پہلا حملہ کابل کے علاقے شاہ شہید کی مارکیٹ میں ہوا، جہاں دھماکہ خیز مواد سے بھرے ٹرک کو اڑا دیا گیا۔وزارت داخلہ کے مطابق حملے میں چالیس شہری مارے گئے، 400 سے زائد زخمی ہوئے۔گھر وں اور دکانوں کو بھی نقصان پہنچا۔اسی دن ایک خود کش حملہ آورنے جو پولیس کی وردی میں ملبوس تھا، پولیس اکیڈمی کے سامنے خود کو اڑا لیا۔اس حملے میں 27لوگ مارے گئے جبکہ دس زخمی ہوئے۔ جمعے ہی کو تیسرا حملہ آرمی کمپلیکس کے پاس ہوا، جس میں9 لوگ جاں بحق ہوئے۔ان میںآٹھ افغان اور ایک امریکی فوجی شامل تھے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2009 کے بعدسے یہ پہلاموقع تھا جب افغانستان میں ایک دن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔مبصرین کا خیال ہے کہ ملا اختر منصورنے حال ہی میں طالبان کی کمانڈ سنبھالی ہے اورشائد اپنا زور ثابت کرنے کے لئے کارروائیاں تیز کر دی ہیں یا پھر یہ کہ ان کے مخالف برسر عمل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں گزشتہ صدارتی انتخاب کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کافی بہتری آئی تھی،تمام تراندرونی مخالفت کے باوجود اشرف غنی پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔حامد کرزئی کے دور حکومت میں پاکستان پر الزامات کی بارش جاری رہی لیکن اشرف غنی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے ہی کی بات کی۔ گزشتہ ماہ جب افغان پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تھا تو بھی افغانستان میں پاکستان مخالف حلقوں نے ڈھکے چھپے انداز میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا تھالیکن ایسا دو ٹوک موقف نہیں اپنا یا گیا تھا۔سانحہ پشاور کے بعد جب پاکستان کے پاس شواہد موجود تھے تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے سیدھا افغانستان کا رخ کیا تھا، افغانستان کی جانب سے بھی مثبت رد عمل سامنے آیا تھا اور کُنرکے علاقے میں آپریشن کا آغاز ہوا تھا۔ اس لئے اگر افغان حکومت کو شبہ ہے کہ حالیہ دہشت گردی کی کڑیاں پاکستان میں موجود شدت پسند عناصر سے ملتی ہیں تو وہ ان کی نشاندہی کر سکتی ہے تاکہ پاکستان اس سلسلے میں موثر اقدامات کر سکے۔ جمعرات کو افغانستان سے سینئر سیکیورٹی اور انٹیلی جنس افسران پر مشتمل وفد کی آمد متوقع ہے،امید ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں گے اوریہ اچانک پیدا ہونے والی تلخی کم ہو جائے گی۔پاکستان اور افغانستان دونوں ہی دہشت گردی کا شکار ہیں ، اس کے خلاف نبر د آزما ہیں، ایسے میں انہیں ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے کے عزم پر ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ بندوق کے زور پر اپنی بات مسلط کرنے کی کوئی بھی کوشش کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے۔دونوں ممالک پر لازم ہے کہ وہ مشترکہ طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوشش کریں، مل کر آگے بڑھیں، دونوں ممالک کے درمیان عرصے بعد اعتماد کی جو فضا قائم ہوئی ہے اسے آلودہ ہر گز نہیں ہو چاہئے۔

مزید :

اداریہ -