مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف کی ’’یاعبادی‘‘
مولانا عبدالرحیم اشرف فیصل آباد کی پہچان ہیں، پہچان ہی نہیں، بلکہ فیصل آباد کی آن اور شان تھے۔ ان کا وجود فیصل آباد اور اہل فیصل آباد کے لئے باعث رحمت اور باعث فخر تھا۔ آپ کا انتقال 27 جون 1991ء کو ہوا، آپ اگرچہ اہل حدیث تھے، لیکن تمام مکاتب فکر، بریلوی، دیو بندی حتیٰ کہ اہل تشیع میں بھی انتہائی قدر و منزلت سے دیکھے جاتے تھے۔ کسی بھی دینی معاملے میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اکٹھا کرلینا ان کا وصف تھا۔ ’’یاعبادی‘‘ انہی کی تصنیف ہے، جو ان کی ریڈیائی تقاریر کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے کو ان کے ہونہار فرزند ڈاکٹر زاہد اشرف نے مرتب کیا ہے۔ بنیادی تحریر مولانا ہی کی ہے، لیکن ریڈیو فیصل آباد پر آواز کا جادو چند تقاریر کے سوا ڈاکٹر زاہد اشرف ہی نے جگایا۔
’’یاعبادی‘‘ کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ دس تقاریر پر مشتمل ہے، جوقرآن مجید کے آخری دس پاروں میں بیان شدہ مضامین کا خلاصہ ہے، جو رمضان المبارک میں ریڈیو پاکستان فیصل آباد سے نشر ہوا۔ مولانا عبدالرحیم اشرف تبلیغی ذہن رکھتے تھے۔ دینی معلومات کو آگے پہنچانا، آگے بڑھانا آپ کا مشن تھا۔ آپ اتحاد بین المسلمین کے نقیب تھے۔ تمام مسالک سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے مسالک کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے ایک رکھنا، ایک دیکھنا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ اسی جذبے کے پس منظر میں موصوف نے ’’یاعبادی‘‘ کے عنوان سے کسی ایک طبقے کو نہیں، بلکہ سب کو پکارا ہے۔ ’’یاعبادی‘‘ میں آپ نے قرآن مجید کے آخری دس پاروں کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ اس حوالے سے قرآن کے آخری دس پاروں کا خلاصہ کرتے ہوئے آپ قرآنی عبارات کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے قاری کے ذہن میں ایک خاص چاشنی اور دلچسپی کا سماں پیدا کرتے ہیں، چنانچہ چوبیسویں پارے میں ایک آیت کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے، فرماتے ہیں،
آپ ترجمہ میں لکھتے ہیں : ’’ہمارے حبیبؐ! اب تک میری عبودیت اور اطاعت کی حدود سے متجاوز کرنے والے میرے بندوں تک یہ پیغام پہنچا دیجئے کہ وہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں۔ یقیناً اللہ سب گناہ معاف فرما دیا کرتے ہیں اور وہ مغفرت و رحمت کے انتہائی فیضان کے مالک ہیں‘‘۔چنانچہ اب تک کی غلطی کا ازالہ یوں کرو۔’’اور اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو، اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرماں بردار ہو جاؤ، پھر تم کو مدد نہیں ملے گی‘‘۔۔۔ان دونوں آیات میں ترجمے کی دلچسپی، تلازم مفہوم اور ربط مضمون پورے دس پاروں میں اول سے آخر تک اسی طرح موجود رہتا ہے، جس طرح تسبیح کے دانے آپس میں مربوط و منظوم ہوتے ہیں۔
’’یا عبادی‘‘ محض دس پاروں کا ترجمہ و تشریح ہی نہیں، بلکہ عبارات کا یہ تلازم ایک ادب پارے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ’’یاعبادی‘‘ میں مذکوریہ مثال کھلوار کا ایک چاول ہے جسے فارسی میں ’’مشتے از خروارے‘‘ کہتے ہیں۔ وگرنہ مضامین کے تنوع کے باوجود مربوط مفہوم کی یہ چاشنی اول تا آخر یکساں موجود محسوس ہوتی ہے جو قاری کے ذہن پر ایک خاص ادبی لذت کا تاثر چھوڑتا ہے۔’’یاعبادی‘‘ کا دوسرا حصہ حدیث قدسی کے عنوان سے ہے۔ حدیث قدسی اصطلاحی لحاظ سے ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ختم نہ ہو، بلکہ سند اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرمائیں قال اللہ تعالیٰ۔ ایسی حدیث کو حدیث قدسی کہا جاتا ہے۔ ایسی احادیث اگرچہ کتب احادیث میں مختلف مقامات پر ملتی ہیں[ تاہم بعض محدثین نے ان احادیث کو یکجا کرکے جمع بھی کر دیا ہے۔ ان مجموعوں میں سے دو کتابیں زیادہ مشہور ہیں۔ ایک شیخ شمس الدین محمد بن عبدالرؤف کی ہے جن کا انتقال 1035 ہجری میں ہوا۔
دوسری کتاب علامہ محمد المدنی کی ہے۔ اس کا نام ’’الاتحاف السنیہ فی الاحادیث القدسیہ‘‘ ہے۔ صاحب کتاب ’’یاعبادی‘‘ نے اسی مجموعے کو سامنے رکھ کر اس کی ایک حدیث کی معنوی تلخیص اور تشریح کی ہے۔ ہماری دانست میں اس ایک حدیث کی تلخیص بھی مستقل کتاب کی متقاضی ہے۔ دینی لٹریچر میں ’’یاعبادی‘‘ کا اضافہ بہت گراں قدر ہے جس سے کتاب و سنت کے حوالے سے علمی و قلمی کام کرنے والوں کو مستقل مدد ملتی رہے گی۔ مکتبہ المنبر نے اس کتاب کو شائع کرکے اہل علم پر احسان کیا ہے۔ ’’یاعبادی‘‘ کا مطالعہ خطیب حضرات اور مقررین کے لئے بھی نعمت سے کم نہیں جس کے مطالعہ سے وہ اپنی تقریر کا جوت جگا کر مجمع پر سحر طاری کرسکتے ہیں۔