فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 178

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 178
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 178

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

معاوضے سے زیادہ ہمیں عزت نفس کا پاس تھا جو خدا کا شکر ہے کہ ہم نے کبھی نہیں گنوائی۔ ہماری لکھی ہوئی بعض فلموں نے اوسط درجے کی کامیابی حاصل کی‘ کچھ ناکام رہیں جس میں سراسر ہمارا ہی قصور نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ فلمی صنعت میں ہمارے متعلق یہ رائے قائم کر لی گئی کہ ہم کامیڈی اور ہلکے پھلکے رومانی سین ہی اچھے لکھتے ہیں جبکہ ڈرامائی مناظر میں اتنے کامیاب نہیں ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہماری فلموں میں تھیٹریکل انداز کے مکالمے لکھنے کا انداز بہت مقبول تھا جن میں نفس مضمون سے زیادہ پُرشوکت الفاظ اور غیر ضروری لفاظی پر زور دیا جاتا تھا۔ سٹیج کا یہ انداز ہمیں پسند نہیں تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ مکالمے کہانی کے کردار کے مطابق لکھے جائیں‘ ایسا نہیں ہونا چاہئیے کہ ہر کردار خواہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو‘ ایک ہی جیسی زبان بولتا نظر آئے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 177 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پاکستانی فلموں میں بھاری بھرکم پُرشوکت و پُرشکوہ مکالمے بہت پسند کئے جاتے تھے۔ انور کمال پاشا اپنے مکالموں کی وجہ سے بے حد مقبول تھے اور ان کی فلموں میں مکالموں پر تماشائی باقاعدہ واہ واہ کرتے یا تالیاں بجا کر داد دیا کرتے تھے۔ ان کے بعد ریاض شاہد نے الفاظ کی جادوگری دکھائی اور بے حد مقبولیت اور عروج حاصل کیا۔ ریاض شاہد کا انداز تحریر اس قدر مقبول ہو گیا کہ پاکستان کے سبھی لکھنے والوں نے وہی انداز اپنا لیا۔ فلم ساز اور ہدایتکار بھی اسی طرز کے مکالموں کو ترجیح دیا کرتے تھے اور لکھنے والوں سے فرمائش کرتے تھے کہ اسی طرح کے مکالمے لکھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی سے لاہور تک ہر لکھنے والے نے کم و بیش وہی انداز اپنا لیا۔ لیکن ریاض شاہد جیسے پُر معنی اور پُرمغز مکالمے لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی۔ بہرحال سب اسی رنگ میں رنگے گئے تھے۔ صرف ڈھاکا کی فلمیں اس سے محفوظ تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ ڈھاکا کے بنگالی فن کاروں کو اردو پر دسترس حاصل نہیں تھی۔ اکثر تو صحیح اردو بول ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لئے ان کے لئے سادہ اور آسان مکالمے لکھنے پڑتے تھے۔ وہاں کے لکھنے والے بھی اعلی تعلیم یافتہ ادیب تھے۔ وہ تھیٹر اور سٹیج سے متاثر نہیں تھے اس لئے ڈھاکا میں تیار ہونے والی فلموں کے مکالموں کا انداز مغربی پاکستان کی فلموں سے یکسر مختلف تھا۔
ہم سے بھی کچھ فلم سازوں نے ریاض شاہد کے انداز میں مکالمے لکھنے کی فرمائش کی لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔ کوشش کے باوجود ہم ایسے مکالمے لکھنے سے قاصر رہے۔ ہمارا عام فہم‘ برجستہ اور سادہ انداز بھی لوگوں کو قدرے مختلف لگا تو پسند آنے لگا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب فلم ساز اور ہدایتکار ہمارے پاس یہ فرمائش لے کر آتے تھے کہ فلم کا سکرپٹ آپ لکھ دیجئیے مگر ڈرامائی مکالمے ریاض شاہد سے لکھوائیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ شرط ہمیں منظور نہ تھی۔ ریاض شاہد سے ہماری گہری دوستی تھی۔ ہنسی مذاق بھی تھا۔ ہدایتکار حسن طارق ہم دونوں کے مشترکہ دوست تھے۔ ریاض شاہد سے ان کی دوستی زیادہ پرانی تھی۔ ان کی کچھ فلموں میں ایسا ضرور ہوا کہ کچھ حصّے انہوں نے ہم سے لکھوائے اور کچھ ریاض شاہد سے لکھوائے۔ طارق صاحب کا معاملہ ایسا تھا کہ ان سے نہ تو ہم دونوں لڑ سکتے تھے اور نہ ہی ان کے لئے کام کرنے سے انکار کر سکتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ ہم نے کہانی اور مکالمہ نویس کے طور پر فلمی صنعت میں اپنی جگہ بنالی اور اپنے روشن مستقبل کے بارے میں کچھ پُرامید نظر آنے لگے۔
نجم نقوی صاحب بمبئی سے لاہور تشریف لائے تو آغا جی اے گل نے ان کو ہدایت کار کے طور پر سائن کیا اور یکے بعد دیگرے کئی فلمیں بنانے کا پروگرام بنایا۔ نجم نقوی صاحب نے پاکستان آ کر پہلی فلم کی ہدایتکاری کراچی میں دی تھی۔ یہ فلم بہت مشہو ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ بری طرح فلاپ ہوئی تھی۔ پاکستان کا ہر فلم بین اس کا نام جانتا ہے۔ دیکھی شاید کسی نے نہ ہو۔ اس فلم کا نام ’’کنواری بیوہ‘‘ تھا اور اس کی وجۂ شہرت شمیم آراء تھیں۔ نجم نقوی نے شمیم آراء کو پہلی بار ہیروئن منتخب کیا تھا مگر یہ فلم بھی ناکام رہی اور شمیم آرا بھی۔ کچھ عرصے بعد جب شمیم آرا نے قسمت اور اپنی محنت و صلاحیت کے بل بوتے پر اداکاری میں نام پیدا کیا تو اس فلم کا خوب چرچا ہوا۔ شمیم آرا نے بہت نام اور پیسہ کمایا مگر یہ بات ان کے حق میں کہنی پڑے گی کہ وہ ہمیشہ نجم نقوی صاحب کو اپنا استاد تسلیم کرتی رہیں اور ان کی بے پناہ عزت کرتی رہیں۔ نجم نقوی صاحب کی وفات پر وہ پھوٹ پھوٹ کر روئیں اور کئی دن تک بے حد مغموم اور سوگوار رہیں۔ آج کے زمانے میں محسنوں اور استادوں کی پذیرائی کرنے والے ایسے شاگرد خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ شاید ان ہی خوبیوں کی وجہ سے شمیم آراء کو اﷲ تعالی نے بھاگ لگائے۔
نجم نقوی صاحب قیام پاکستان سے پہلے علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ بڑے افسر بن سکتے تھے۔ مگر فلمی دنیا کا رخ کیا اور بمبئی جا کر ٹھہرے۔ وہاں انہوں نے کئی کامیاب فلمیں بنائیں اور نام پیدا کیا۔ بے حد شریف‘ خلیق اور ملنسار آدمی تھے۔ انتہائی منکسر المزاج تھے۔ ان کا لباس عموماً علی گڑھ کٹ چوڑے پانچوں کا پاجامہ کرتہ اور شیروانی یا پتلون اور قمیض تھا۔ کلین شیو تھے اور ان کی شرافت کی داستانیں ان سے پہلے ہمارے پاس لاہور پہنچ گئی تھیں۔ موسیقار رشید عطرے صاحب بمبئی میں ان کے بے تکلیف دوستوں میں شامل تھے۔ نخشب جارچوی سے بھی ان کی گہری دوستی تھی۔ نخشب صاحب رنگین مزاج بلکہ عاشق مزاج تھے جب کہ نجم نقوی صاحب انتہائی سادہ اور خشک مزاج۔ زندگی میں صرف ایک ہی شادی کی اور پھر کسی اور کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ شادی سے پہلے بھی ان کی یہی شہرت تھی۔ رشید عطرے صاحب ان کے اور نخشب صاحب کے بہت دلچسپ قصّے سنایا کرتے تھے۔ پھر جب ہماری ڈبلیو زیڈ احمد صاحب سے ملاقات بڑھی تو انہوں نے بھی نجم نقوی صاحب کا تذکرہ کیا۔ احمد صاحب نے پونا میں اپنی ایک فلم ’’پرتھوی راج سنجوگتا‘‘ کی ہدایتکاری کے لئے انہیں سائن کیا تھا اور 1944ء میں انہیں پانچ ہزار روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب احمد صاحب نے اپنے شالیمار فلم سٹوڈیوز میں ہندوستان کے قریب قریب سبھی قابل ذکر ادیبوں اور شاعروں کو ملازم رکھ لیا تھا۔
نجم صاحب سے ہماری بھی لاہور میں ملاقات ہوئی۔ بہت زندہ دل اور وضع دار آدمی تھے۔ علی گڑھ کا رنگ ان پر نمایاں نظر آتا تھا۔ لیکن بہت سیدھے سادھے بھی تھے۔ کوئی بھی انہیں باتوں میں لگا سکتا تھا۔ لاہور کے ایورنیو فلم سٹوڈیوز میں ہماری اکثر ان سے علیک سلیک ہو جاتی تھی اور وہ بہت شفقت اور التفات کرتے تھے۔
یہ 1962ء کا ذکر ہے۔ ایک دن ہمیں نغمہ نگار تنویر نقوی صاحب نے یہ اطلاع دی کہ آغا جی اے گل نے ایک سال میں چھ فلمیں بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے کئی ہدایتکار سائن کئے ہیں۔ لیکن کہانی نویس کے طور پر صرف تمہیں منتخب کیا گیا ہے۔ پہلی فلم کے ہدایت کار نجم نقوی صاحب ہوں گے۔
آغا صاحب سے ہماری پرانی یاد اﷲ تھی۔ بہت شفیق اور خلیق بزرگ تھے۔ ہم سے مذاق بھی کر لیا کرتے تھے۔ صحافت کے آغاز کے زمانے سے ہی ہماری ان سے ملاقات تھی۔ وہ پاکستان میں فلمی صنعت کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے۔ ملک کے بلکہ ایشیا کے سب سے خوبصورت اور جدید ترین فلم سٹوڈیو کے مالک تھے۔ فلم ساز‘ تقسیم کار تھے اور سینما گھروں کے مالک بھی تھے۔ پاکستان کی فلمی دنیا میں ان کا سکّہ چلتا تھا۔ بڑے سے بڑا اداکار اور ہدایتکار ان کی خوشنودی حاصل کرنے کا خواہاں رہتا تھا۔ سجاّد گل اور شہزاد گل جو آج کل فلم سازی کر رہے ہیں اور ایورنیو سٹوڈیو بھی چلا رہے ہیں، ان ہی کے بیٹے ہیں۔ ان کی پہلی بیوی کے بڑے صاحب زادے آغا ریاض گل امریکا سے فلم سازی کی ڈگری لے کر آئے تھے اور کئی سال تک ایورنیو سٹوڈیوز کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے رہے تھے۔ ہم سے بھی ان کی گہری دوستی ہو گئی تھی جو آج بھی قائم ہے۔ اس داستان میں ان کا تذکرہ بھی آئے گا۔
تنویر صاحب کی سنائی ہوئی خبر بہت خوش آئند تھی۔ آغا جی اے گل کی فلموں کے لئے لکھنا افتخار کا باعث تھا۔ لیکن آغا صاحب کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ پیسے کم دیتے ہیں۔
دوسرے دن تنویر نقوی صاحب ہمیں لے کر لکشمی چوک پر آغا صاحب کے دفتر میں پہنچ گئے۔ اس دفتر میں ہماری اکثر آمدورفت رہا کرتی تھی بلکہ آغا صاحب نے ازراہ نوازش ہمیں اپنی کوٹھی پر آنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔ لیکن کاروبار کے سلسلے میں ہم اس روز پہلی بار آغا گل کے پاس حاضر ہوئے تھے۔
تنویر نقوی صاحب ہمیں ساتھ لے کہ نیچے عمارت کے تہ خانے میں گئے جہاں آغا صاحب کے فلم سازی کے دفاتر تھے۔ اوپر والی منزل میں ان کا ڈسٹری بیوشن آفس اور ایورنیو پکچرز کا ہیڈ آفس تھا۔ سمجھ لیجئیے کہ یہ پاکستان کی فلمی صنعت کا اعصابی مرکز تھا۔ سٹوڈیو کے معاملات وہیں طے پاتے تھے جہاں آغا صاحب نے فلم پروڈکشن کا نہایت شاندار دفتر بنایا تھا۔ اس خانے میں نجم نقوی صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ہم اور وہ ساتھ کام کریں گے۔ حالانکہ یہ تو ہمارے لئے باعث اعزاز تھا۔ ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد انہوں نے ایک پتلی سی طالب علموں والی کاپی ہمارے سامنے رکھ دی اور بولے۔
’’یہ کہانی کا مختصر سکرین پلے ہے۔ آپ اسے پڑھ لیجئیے۔ جب کام شروع ہو گا تو اس کے بارے میں ڈسکس کریں گے۔‘‘
ہم نے چند منٹ منٹ میں سکرین پلے پڑھ لیا۔ اچھی دلچسپ ہلکی پھلکی کمرشل کہانی تھی۔ ہمیں بعض جگہوں پر اعتراض تھا مگر سوچا کہ باقاعدہ کام شروع ہو گا تو نجم صاحب سے بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’’کیوں میاں۔ دال دلیا پسند آیا؟ بھئی میں کہانی نویس تو نہیں ہوں۔ بس ایسے ہی ایک لائن بنالی ہے۔ اس میں رنگ تو تم ہی بھرو گے۔‘‘
ہم نے مختصر الفاظ میں اپنے رائے بیان کی اور خیال ظاہر کیا کہ سکرین پلے کی مدد سے کامیاب فلم بنائی جا سکتی ہے۔ نجم نقوی یہ سن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ بولے ’’تو پھر آؤ آغا صاحب کے پاس چلتے ہیں تاکہ دوسرے معاملات بھی طے ہو جائیں۔‘‘
سیڑھیاں چڑھ کر ہم گراؤنڈ فلور میں واقع آغا صاحب کے خوبصورت اور کشادہ دفتر میں گئے۔ وہاں حسب معمول کئی فلم والے موجود تھے۔ ان سے فراغت ہوئی تو آغا صاحب نے جنرل مینجر صاحب اور چپراسی کو ہدایت کی کہ اب کوئی اندر نہ آئے۔
آغا صاحب کم گو تھے مگر ہمارے ساتھ شوخی اور مذاق کا مظاہرہ کر لیا کرتے تھے۔ کہنے لگے ’’آفاقی‘ تم تو چائے پینے اور انگلش بسکٹ کھانے ہی آتے ہو۔ مگر آج پہلے کام بعد میں چائے۔ کیا خیال ہے؟؟
ہم نے کہا ’’آغا صاحب۔ چائے بسکٹ اور کیک تو اکثر ملتے رہتے ہیں۔ آج کام کی بات کر لیتے ہیں۔ پھر چائے تو مل ہی جائے گی۔‘‘
انہوں نے پوچھا ’’تم نے سکرین پلے پڑھ لیا کیا خیال ہے؟‘‘
ہم نے بتایا کہ اچھی دلچسپ کہانی ہے۔ اس کے بعد کہانی کے اہم کرداروں کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ شمیم آراء اور سنتوش کمار کو مرکزی کرداروں میں کام لینے کا خیال ظاہر کیا گیا۔ دوسرے اہم کرداروں کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی اور آغا صاحب مختلف اداکاروں کے بارے میں ہمارے رائے دریافت کرتے رہے۔ اس کہانی میں چھ سات سین پر مشتمل ایک اہم کردار تھا جس کے لئے نجم نقوی صاحب ہمالیہ والا کو کاسٹ کرنے کے حق میں تھے۔
’’مگر ہمالیہ والا تو اتنا چھوٹا رول نہیں کرے گا‘‘ آغا صاحب نے کہا۔
نجم نقوی صاحب نے کہا ’’آغا صاحب اسے مہمان اداکار بنا لیں گے تو راضی ہو جائے گا۔ مگرا س کے لئے کم از کم آٹھ دس ہزار روپے دینے پڑیں گے۔‘‘

(جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)