شانگلہ کا انتخاب کالعدم
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کے پی کے اسمبلی کے لئے حلقہ 23شانگلہ کے انتخابات کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کا حکم دیا ہے، اس حلقہ سے پاکستان تحریک انصاف کے شوکت یوسف زئی منتخب ہوئے کہ ان کو رائے دہندگان کی اکثریت حاصل ہوگئی تھی، الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات منسوخ کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس حلقہ میں خواتین کی رائے دہی کا تناسب مقررہ تناسب سے نصف کے قریب کم رہا ہے، الیکشن کمیشن نے 2018ء کے انتخابات کے لئے یہ شرط عائد کی تھی کہ خواتین کی شمولیت بہتر بنائی جائے اور ہر حلقہ میں خواتین کے ووٹ کم از کم کل ووٹوں کے دس فیصد تک ضرور ہوں دوسری صورت میں انتخاب کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ شانگلہ 23 کے حلقے میں جو نتیجہ مرتب ہوا اس کے مطابق خواتین رائے دہندگان کی تعداد 5.1 فیصد رہی، ایک جرگے کے فیصلے کے تحت خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔ یہ دس فیصد ہونا چاہئے تھی منتخب رکن شوکت یوسف زئی نے دوبارہ انتخاب کو ظلم قرار دیا ہے، شانگلہ بھی قبائلی علاقہ ہے، ایک دور ایسا تھا کہ ان علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی کہ قبائلی رسومات کے مطابق خواتین پردے کی بہت زیادہ پابند ہوتی اور ان کو یہ پابندی لازم اختیار کرنا پڑتی ہے اس سلسلے میں تعلیم یافتہ طبقے میں اعتراض کیا جاتا۔ چنانچہ قبائلی علاقوں میں بھی خواتین پر رواجی پابندیوں کی مخالفت کی جاتی رہی ہے، حالیہ انتخابات میں الیکشن کمیشن نے پہلی بار اسے مثال بنایا کہ خواتین کی ایک حد تک نمائندگی ضرور ہو، شاید یہ ایک عالمی ریکارڈ بھی ہوکہ کسی صنف کے لئے باقاعدہ شرح مقرر کردی جائے، بہرحال یہ فیصلہ تو طے شدہ قواعد کے مطابق ہوا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ دوبارہ انتخاب ہوا تو پھر کیا ضمانت ہے کہ اس حلقہ کے لوگ خواتین کو حصہ لینے کی اجازت دے دیں۔ اس وقت حلقے میں 86698 رجسٹرڈ خواتین ووٹرز ہیں، جن میں سے صرف 3505 خواتین ووٹروں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔