ہارنے والے دِل بڑا کریں، جمہوریت کو چلنے دیں

ہارنے والے دِل بڑا کریں، جمہوریت کو چلنے دیں
ہارنے والے دِل بڑا کریں، جمہوریت کو چلنے دیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری سیاسی تاریخ کی بہت سی حقیقتوں میں ایک یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ ہم ہار تسلیم نہیں کرتے۔ چاہے کوئی ہم سے30ہزار زائد وٹ لے کر جیت گیا ہو ہم پھر بھی اُس کی فتح کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

یہ تو اتفاق ہے ہر انتخابی عمل میں کوئی نہ کوئی کمی یا خرابی رہ جاتی ہے،جس کی وجہ سے دھاندلی کے الزام کا جواز پیدا ہو جاتا ہے،جیسے اِس بار آر ٹی ایس کی خرابی سے ہوا، تاہم اگر کوئی جواز پیدا نہ بھی ہو تب بھی دھاندلی کا الزام تو لگنا ہی لگنا ہے،جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، اس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہارنے والے اپنے ووٹرز کے سامنے اپنی شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے،وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی تو ووٹرز ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسترد کر دیں گے،اقتدار میں ہوں تو انہیں پانچ سال مختصر سا وقفہ لگتے ہیں،لیکن اگر یہی پانچ سال اپوزیشن میں گزارنے پڑیں تو پہاڑ نظر آتے ہیں، جن کے خوف سے دھاندلی کا شور مچانے لگ جاتے ہیں،جمہوری تقاضا یہ بھی ہے کہ جہاں اپنی فتح کا جشن منایا جائے وہیں اپنی شکست کو بھی خوش دِلی سے قبول کر لیا جائے،کبھی تو انتخابات کے بعد ہمارا سیاسی عمل بغیر کسی انتشار کے شروع ہونا چاہئے۔ 2013ء کے انتخابات کو بھی تو سبھی بڑی سیاسی جماعتوں نے دھاندلی زدہ قرار دیا تھا،لیکن پانچ برس تو پھر بھی حکومت نے پورے کئے۔

احتجاجی سلسلوں سے حکومت تو نہیں گئی۔البتہ بے یقینی ضرور موجود رہی، جس کا نقصان اپنی جگہ ایک تلخ حقیت ہے۔ انتخابی اصلاحات کا ہر بار ذکر ہوتا ہے۔

میری رائے میں اصلاحات کتنی بھی کر لی جائیں، جب تک ہار کو کھلے دِل سے تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں ہو گا،دھاندلی کے الزامات لگتے رہیں گے۔
مَیں چونکہ رجائیت پر یقین رکھتا ہوں،اس لئے میرا تجزیہ یہ ہے کہ اِس حوالے سے بہتری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں اِس سلسلے میں پہلا پتھر غلام احمد بلور نے مارا تھا،جب الیکشن کی شام انہوں نے کہا کہ عمران خان کی شخصیت کے باعث لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے اور وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں۔

غلام احمد بلور کے اِس بیان کو پورے مُلک میں سراہا گیا، وہ حالانکہ اُس وقت دُکھی تھے،اُن کا بھتیجا ہارون بلور ایک خود کش حملے میں شہید ہو گیا تھا، مگر انہوں نے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر اپنے ساتھ ہونے والی دھاندلی کی فرضی کہانی نہیں سنائی،بلکہ جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نتیجے کو قبول کیا۔

اُدھر سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ایک تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ وہ جمہوریت کی قدر کرنے لگی ہیں وگرنہ ماضئ بعید میں ہوتا یہ رہا کہ انتخاب میں شکست ہوئی تو جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دینے کی سازشیں شروع ہو گئیں۔ اُس کی ایک جھلک اُس وقت دیکھنے میں آئی جب انتخابی نتائج کے فوراً بعد بلائی جانے والی اے پی سی میں مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ کوئی سیاسی جماعت حلف نہیں اٹھائے گی اور ہم دیکھیں گے کہ تحریک انصاف کے ارکان کس طرح اسمبلی میں داخل ہوتے ہیں۔

فرض کریں اِس بات پر ساری سیاسی جماعتیں اتفاق کر لیتیں تو کیا ہوتا،جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے۔ مولانا فضل الرحمن کی کیفیت تو یہی تھی کہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے، مگر اُن کی یہ خواہش سیاسی جماعتوں کی بالغ نظر قیادت نے پوری نہ ہونے دی۔

اب یہ بات سمجھ آئی ہے کہ کسی سیاست دان کا مسلسل انتخابات میں جیتنا کتنا نقصان دہ ہوتا ہے، جس نے کبھی شکست دیکھی ہی نہ ہو وہ شکست ہونے کی صورت میں اُسی طرح صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑتا ہے جیسے مولانا فضل الرحمن چھوڑ چکے ہیں۔غصے کا یہ عالم ہے کہ14 اگست کا جشن منانے سے بھی اپنے پیرو کاروں کو منع کر رہے ہیں۔اصل وجہ مولانا فضل الرحمن کی پاور سیاست بھی ہے۔

انہوں نے کبھی کسی نظریے پر سیاست نہیں کی۔وہ ہمیشہ اقتدار کی سیاست کرتے رہے، اس کا اندازہ اِس امر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ منسٹرز انکلیو کے بنگلے میں12 سال تک مقیم رہے اِس دوران مشرف رہے،پیپلزپارٹی کی حکومت آئی اور پھر نواز شریف نے اقتدار سنبھالا، تبدیلیاں آتی رہیں، مگر مولانا کا بال بھی بیکا نہ کر سکیں۔

ایسے شخص کے لئے یہ صورتِ حال کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی کہ وہ دو حلقوں سے ہار کے اسمبلی میں جانے کے قابل بھی نہ رہے۔ تاہم انہیں جلد ہی احساس ہو گیا ہو گا کہ حکومت سازی میں اُن کی ضرورت محسوس کرنے والوں کو اب اُن کے معیار کی اپوزیشن کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں،بلاول بھٹو زرداری نے تو واضح کر دیا ہے کہ پیپلزپارٹی مولانا فضل الرحمن کے اداروں کے خلاف خیالات کی قطعاً تائید نہیں کرتی۔
مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف خود کہتے ہیں کہ مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود اُن کی جماعت کو عوام کی بھرپور تائید حاصل ہوئی ہے۔پیپلزپارٹی بھی اندر سے پھولے نہیں سما رہی کہ اُسے2013ء کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں، حالانکہ سندھ میں بھی اُس کی کارکردگی پر سوالات اُٹھتے رہے ہیں۔ ان دو بڑی سیاسی جماعتوں میں اتنی اخلاقی جرأت بھی ہونی چاہئے تھی کہ وہ بعض تکنیکی خرابیوں کے باوجود بالعموم انتخابات کو شفاف قرار دیتیں،کیونکہ اب بھی جب اِن دونوں جماعتوں کے رہنماؤں سے صحافی یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اُن کے نزدیک دھاندلی کا مطلب کیا ہے، کیا اُن حلقوں میں بھی دھاندلی ہوئی ہے،جہاں سے اُن کے امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں،تو اُن کے پاس کوئی مدلل جواب نہیں ہوتا۔ دھاندلی کس نے کرائی، کیوں کرائی اِس کا جواب کسی کے پاس ہے؟اگر یہ کہا جائے کہ دھاندلی الیکشن کمیشن،اسٹیبلشمنٹ یا فوج نے کرائی تو اُس کا فائدہ کسے پہنچا۔

دھاندلی کیا یہ ہوتی ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو بھی دو تہائی تو کجا سادہ اکثریت بھی نہ مل سکے۔پیپلزپارٹی سندھ میں جی ڈی اے کے الزامات کو تو رد کر دیتی ہے، جو مسلسل یہ الزام لگا رہا ہے کہ سندھ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے پیپلزپارٹی کو جتوایا گیا گیا ہے، ہاں دھاندلی کا الزام اُس وقت وزنی ہوتا اگر سندھ سے جی ڈی اے کو پچاس نشستیں مل جاتیں۔

اُس کے پاس تو اونٹ کے منہ میں زیرہ جیسی نشستیں بھی نہیں۔ اس طرح کے رویئے سے ہم جمہوریت کو مضبوط کیسے کر سکتے ہیں، آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں ہم تو کنوئیں کے رہٹ کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

2013ء سے 2018ء میں آ گئے، لیکن صرف کیلنڈر بدلا ہے ہماری سوچ تبدیل نہیں ہوئی۔ اگرچہ تیسری بار پُرامن انتقالِ اقتدار ہونے جا رہا ہے، لیکن ہم نے اُس پر دھاندلی کا الزام لگا کے بے یقینی کا سایہ ڈال دیا ہے۔
جرمنی کے سفیر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کا انعقاد عوام کی بہت بڑی کامیابی ہے۔اس سے جمہوریت کا تسلسل قائم ہوا ہے اور جمہوری استحکام بھی پیدا ہو گا۔اُن کا یہ بیان پڑھ کر مَیں اِس نکتے میں اُلجھ گیا کہ سفیر نے انتخابات کے انعقاد کو پاکستانی عوام کی کامیابی کیوں قرار دیا ہے۔ہم تو کامیابی کا کریڈٹ فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو دیتے ہیں۔

شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا بھر میں جمہوریت کی حفاظت وہاں کے عوام کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اب عوام کے اندر اتنا شعور پیدا ہو گیا ہے کہ وہ جمہوریت کو بہترین آمریت کے مقابلے میں بھی بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔انہوں نے2018ء کے انتخابات میں بڑی تعداد اور جوش و جذبے کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

بلوچستان میں جہاں دہشت گردی کے بدترین واقعات ہوئے، لوگ خوفزدہ ہوئے بغیر گھروں سے باہر نکلے اور جمہوریت سے اپنی اٹوٹ وابستگی کا اظہار کیا۔ پہلی بار یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ انتخابی عمل کے دوران کوئی خون خرابہ نہیں ہوا،لوگ پُرامن ماحول میں اپنا ووٹ ڈال کے گھروں کو واپس لوٹے۔ یہ واقعی بہت بڑی کامیابی ہے اور جرمن سفیر نے بالکل درست کہا ہے کہ پاکستانی عوام اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔

کیا ہم انتخابات کے بعد فوراً نئے انتخابات کا مطالبہ کر کے دُنیا کے سامنے اپنی جمہوریت کو تماشا نہیں بنا رہے۔ کیا دُنیا کو اب اِس بات کا اندازہ نہیں ہو گیا کہ پاکستان میں ہر الیکشن کے بعد ہارنے والی جماعتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور دھاندلی کا واویلا شروع کر دیتی ہیں۔پاکستان میں کوئی جنگل کا قانون تو ہے نہیں،ادارے موجود ہیں،سب سے بڑا ادارہ تو پارلیمینٹ ہے،جہاں آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔

پھر خود الیکشن قوانین میں ریلیف لینے کے دروازے کھلے ہیں۔اگر کسی کے پاس دھاندلی کے ٹھوس ثبوت ہیں تو وہ الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹریبونل کے پاس جا سکتا ہے۔ابھی تک جتنے بھی اعتراضات ہوئے ہیں وہ گنتی کے حوالے سے کئے گئے ہیں اور گنتی کے دوران بھی کہیں ایسا نہیں ہوا کہ کسی کے ووٹ ہزاروں کی تعداد میں نکل آئے ہوں۔

سو دو سو ووٹوں کا فرق انسانی غلطی کے زمرے میںآتا ہے۔ اسے طے شدہ دھاندلی نہیں کہا جا سکتا،سب کی خواہش ہے جمہوریت پھلے پھولے اور پاکستان آگے بڑھے۔

اس کے لئے ہارنے والوں کو بڑے دِل کا مظاہرہ کرنا چاہئے، کیونکہ پاکستان اِس وقت جن مشکلات میں گھرا ہوا ہے،کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مزید :

رائے -کالم -