ایک بنگالی کی باتیں

ایک بنگالی کی باتیں
ایک بنگالی کی باتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سکندر اعظم نے مرنے سے پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو وصیت کی ’’ دیکھو ہمارے پاس بہت سا روپیہ پیسہ ہے۔ ہیرے جواہرات ہیں جن سے ہمارے صندوق بھرے ہوئے ہیں۔ آپ نے میری لاش کو یونان میں دفن کرنا ہے اور ہاں راستے میں جہاں آبادی راستے میں آئے وہاں روپیہ پیسے کی پروانہ کرتے ہوئے ہیرے جواہرات کی بارش کرنا اور پھر آگے بڑھنا اور یونان کے آنے تک یہی عمل دھراتے جانا‘‘
ایک درباری نے کہا ’’جناب ہم نے اپنا وطن چھوڑا ، سختیاں برداشت کیں، ایسے علاقوں میں آگے جہاں پانی تک صاف نہیں تھا لیکن ہم نے اس دولت جس کو آپ لٹانے کی وصیت کر رہے ہیں، اس دولت کو حاصل کیا تھا۔ اب آپ کہتے ہیں اس کی بارش کر دیں جہاں جو بھی آبادی راستے میں آئے‘‘
سکندر اعظم نے جواب دیا ’’ جب میں مرجاؤں تو میرے ہاتھ کفن سے نکال دینا‘‘ درباری پھر گویا ہوا ’’ جناب اس سے کیا اثر ہوگا‘‘ اسکندر اعظم نے کہا ’’اُن لوگوں پرجن پر ہیرے جواہرات کی بارش ہوگی وہ دیکھیں گے کہ یہ فاتح عالم دنیا کو فتح کرنے نکلا تھا۔ اس نے ڈھیر ساری دولت اکٹھی کر لی لیکن جب دنیا سے رخصت ہوا تو خالی ہاتھ تھا ‘‘ فاتح عالم کا یہ جملہ عبرت اور نصیحت ہے ۔ کیا آج کے بد دیانت حکمران اور مذہبی ٹھیکے دار اس سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ نہیں ، وہ مانگنے والے کی جیب سے بھی ہاتھ ڈال کر اس کی روٹی کے پیسے نکال لیتے ہیں جبکہ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنا دیں گے۔ اسی کش مکش میں پاکستان ٹوٹا۔حالانکہ پاکستان کیوں ٹوٹا ،یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ہم نے بنگالیوں کو غدار کہنے میں دیر نہیں لگائی ،انہیں سمجھا ہی نہیں۔میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ ناانصافی کی اور انہیں اکسانے والوں پر نطر نہیں رکھی۔
میں اپنے ایک آرٹیکل میں اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ حائل سعودی عرب کے شہر میں واکنگ ٹریک پر ایک بنگالی سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے السلام و علیکم کہا جبکہ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ بنگالی یا افریقی ہے کیونکہ کسی عربی کو خاص کر سعودی کو سلام کریں تو جواب ہی نہیں دیتا۔ البتہ بنگالی اور سوڈانی بڑے ملن سار ہوتے ہیں ،وہ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں ، سلام کرنے میں پہل بھی کرتے ہیں۔ میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ تم کس ملک سے ہو تو اس نے کہا بنگلادیش سے ۔میں نے اسے کہا کہ آپ کی وزیراعظم تو پاکستانیوں کو گالیاں دیتی نہیں تھکتیں اور آپ یہاں بڑے اچھے موڈ میں ایک پاکستانی سے بات کررہے ہیں۔ اس نے کہا ہم بھی مسلمان ہیں اور پھر پاکستان کی قرار داد تو بنگالی شخص نے ہی پیش کی تھی۔ بلکہ مسلم لیگ کی بنیاد بھی ڈھاکہ میں رکھی گئی۔ اس پاکستان کے دلدادہ ہیں، وہ کیسے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ یہ ذہن نشیں کر لیں اس نے بغیر تکلف کے کہاتھا ہمارا اصل دشمن ہندو بنیا ہے جو خود تو سامنے نہیں آتا لیکن پڑوسی ملکوں میں اسکے ففتھ کالم کام کر رہے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ مسلمان پڑوسی ملک اکٹھے ہوجائیں ۔اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔حالانکہ 70 سے زیادہ سال گزر چکے ہیں ۔
اس روز اس بنگالی نے میرے ساتھ دوگھنٹے تک بہت سی دل کی باتیں کیں ۔ پھر ایک دن اس بنگالی مسلمان نے بتایا کہ سعودی حکومت بھی ہندوؤں کا زیادہ پاس کرتی ہے۔میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟کہنے لگا کہ سعودی حکومت نے ہر غیر ملکی پر ٹیکس لگا دیا ہے جس کے تحت ہر غیر ملکی جو اپنی بیوی بچوں کو سعودی عرب میں رکھے گا اسے 12000 ریال پر ہیڈ کے لحاظ سے ٹٰیکس اد اکرنا پڑے گا۔ اس میں سعودی نسل موجود نہیں ۔ میں نے کہا کہ ایسا ٹیکس رسول اللہ ﷺ نے غیر مسلموں کے لئے نافذ کیا تھا جس کو ذمیوں پر ٹیکس کا نام دیا گیا تھالیکن وہ تو غیر مسلموں کے لیے تھا مسلمانوں کے لیے نہیں۔ اس نے کہا کہ سعودی حکومت تو بغیر تفریق کے مسلمانوں کو زیادہ رگڑ رہی ہے۔ عربی افسر کہتے ہیں کہ یہ غیر ملکی ہماری ملازمتوں پر بیٹھے ہیں۔ یہ چلے جائیں تو یہ سیٹس ہمیں مل جائیں گی۔ لیکن یہ کہنے کی باتیں ہیں کیونکہ اصل میں ان کے پاس ٹیکنیکل نالج نہیں ۔ اب بنگلہ دیشی مسلمانوں کو ہی لیں جو انتہائی غریب ہیں اور سخت گرمی میں سعودیوں کی سڑکیں صاف کرتے ہیں۔ فرض کرو اگر یہ چلے جائیں تو سعودی ان سڑکوں کو صاف نہیں رکھ سکتے۔ لیکن شاہ کی حکومت کمزور ہے اس نے ان غیر ملکیوں کو انکاموں پر لگایا ہے جو عربی مسلمان خود نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ کیسے کہتے ہیں کہ غیر ملکی ہمارے لئے بوجھ ہیں۔ میں نے کہا کہ بنگلہ دیشی حکومت سعودی گورنمنٹ سے احتجاج کیوں نہیں کرتی؟ اس نے مجھے کہا ہمارے حکومت کو پروا نہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر وہ ڈالر بھیجتے ہیں تو اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں لہٰذا حکومت کو ذرا برابر ہماری پروا نہیں۔ اسی لئے تو ہم پاکستان کو روتے ہیں۔ جسے لالچی لوگوں نے حکومت حاصل کرنے کے لئے اپنے اپنے مفاد کے لئے توڑاہے۔ اگر مجیب بمعہ خاندان قتل ہوا تو بھٹو کو بھی پھانسی ملی۔ان کے کفن میں کون سی جیبیں تھیں ،ان لوگوں نے عبرت نہیں پکڑی۔
اس نے مجھ سے جدا ہونے سے پہلے کہا کہ آپ کے لوگ بھی تو یہاں ہیں ۔ ان کے بیوی بچے بھی ہونگے۔ آپ کیوں اپنی حکومت کونہیں کہتے کہ یہ ٹیکس مسلمانوں پر سے ختم کردو۔ ہاں غیر مسلموں سے لے لیں۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں کوشش کرونگا ۔ میری واپسی مئی میں تھی ۔میں نے اپنے سابق آرمی چیف کو ملنے اور یہ بات کہنے کے لئے ریاض کا سفر کیا۔ آرمی چیف سے پتہ چلا کہ راحیل شریف بیٹے کی شادی پر پاکستان گئے ہوئے ہیں ، لہٰذا ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اب میں مجیب الرحمن شامی صاحب سے التجا کر تا ہوں کہ وہ کچھ کریں۔ وہ اپنے اثرو رسوخ کو بروئے کار لا کر مسلمانوں کی مدد کے لئے جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں،سعودی حکومت کی توجہ اس جانب دلوائیں ۔

نوٹ:  روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

مزید :

بلاگ -