فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر494

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر494
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر494

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی اور لاہور میں بہت سے نئے سنیما گھر تعمیر ہوئے جو دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ فلم بینوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔ بمبینو بھی ایسے ہی بہت بلند معیار اور شاندار سنیما گھروں میں شامل تھے۔
اس سنیما میں انگریزی اور اردو کی بہت اعلٰی معیاری فلموں کی نمائش ہوا کرتی تھی۔ اس زمانے میں کسی سنیما گھر میں ریلیز ہونے والی فلم کے معیار کا اندزہ سنیما گھر سے بھی لگایا جاتاتھا کیونکہ فلم بین جانتے تھے کہ اچھے سنیما والے ہمیشہ اعلیٰ معیاری فلمیں ہی نمائش کے لیے پیش کرتے ہیں۔
ہماری بمبینو سنیما میں اضافی دلکشی اور دلچسپی یہ تھی کہ اس کے منیجر جاوید ہاشمی ہمارے گہرے دوست تھے۔ وہ ہدایت کار بھی تھے۔ فلمی دنیا میں وہ اور ان کے کیمرا مین بھائی سہیل ہاشمی بہت مقبول تھے۔ ہر ایک سے ان کے تعلقات تھے۔ ہم کراچی جاتے تو جاوید صاحب سے بھی ملاقات ہوتی تھی۔ وہ بہت دلچسپ باتیں کرتے تھے۔ بعد میں جب ہم کینیڈا گئے تو ٹورنٹو میں ان سے ملاقات ہو گئی۔ وہاں بھی وہ سنیما منیجر تھے بلکہ بیک وقت تین سنیماؤں کے منیجر تھے۔ چنانچہ ٹورنٹو میں بھی ان کے سنیما اور ان کے گھر پر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ کھلانے کے بہت شوقین تھے۔ خود بھی خوش خوراک تھے اور ان کی بیگم بے حد مزے دار کھانے پکاتی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل جاوید ہاشمی کا انتقال ہوچکا ہے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر 493ُپڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بمبینو سنیما میں جاوید صاحب نے سنیما کے مالک حاکم زرداری صاحب سے ہمیں ملایا تو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ کسی زمانے میں یہ پاکستانی سیاست اور حکومت کے اہم ترین ستون بن جائیں گے۔ ان کے بیٹے آصف علی زرداری کی بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد ان خاندان کے دن بھی بدل گئے اور وہ حکمرانوں میں شامل ہوگئے۔ خود حاکم علی زرداری صاحب بھی انتخاب میں کامیاب ہو کر سینیٹر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اور دسرے اہم عہدوں پر فائز رہے پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کا بیٹا بے نظیر بھٹو کا شوہر تھا اور وہ اپنے شوہر کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی تھیں۔
زمانہ بھی کیسے کیسے روپ بدلتا ہے۔ بمبینو کے خوبصورت دفتر میں وہ سفید لباس میں ملبوس باتیں کرتے رہے۔ پھر باہر تک چھوڑنے آئے۔ یہ ہماری ان سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ کون جانتا تھا کسی وقت وہ پاکستان کے طاقتور ترین افراد میں شامل ہوں گے۔ ہم نے تو انہیں ایک فلم والے یعنی سنیما گھر کے مالک کی حیثیت سے ہی جانا اور ہمیشہ ان کا وہی روپ ہمیں یاد رہا۔
بمبینو کو رؤف شمسی صاحب نے خرید لیا تھا او کافی عرصے یہ سنیما ان کی ملکیت میں رہا۔ اس کے بعد رؤف شمسی اس کے مالک بن گئے۔ جب انہوں نے اپنی فلمی سرگرمیاں ختم کردیں تو سنیما بھی فروخت کر دیا۔ اب اس کے مالک شیخ امتیاز صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ اب اس کے جنرل منیجر منظور جیلانی ہیں۔ ان سے ہماری کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ دراصل جب سے کراچی آمدورفت اور فلم بیٹی کا سلسلہ کم ہوا ہے کراچی کے فلم اور سنیما والوں سے ملاقات نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ الیاس بھائی کی عدم موجودگی میں وہ محفلیں اور ملاقاتیں بھی باقی نہیں رہیں۔
جاوید ہاشمی صاحب 70ء کی دہائی میں میں ہی کینیڈا چلے گئے تھے۔ ان کی جگہ ان کے کزن مظفر ہاشمی اس کے منیجر ہوگئے تھے۔ مظفر ہاشمی سے بھی ہماری ملاقات ہوتی رہتی تھی مگر جاوید صاحب جیسی بے تکلفی نہ تھی۔ مظفر ہاشمی کچھ عرصے بعد نیف ڈیک کے چیئرمین بن گئے تھے۔ بھٹو خاندان نے ہاشمی خاندانی سے اپنے مراسم نبھاتے ہوئے انہیں یہ عہدہ دیا تھا۔
بمبینو کراچی کا مقبول ترین سنیما رہا۔ جب پنجابی فلموں کے ایک طویل دور کے بعد اردو فلموں کا زور شروع ہوا تو یہاں پھر اردو فلموں کی نمائش کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ شمیم آرا کی فلم ’’ منڈا بگڑا جائے ‘‘ اس سنیما میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور بے حد مقبول ہوئی تھی۔ پاکستانی اسکرین کے ممتاز ترین فن کاروں کی فلمیں اس سنیما میں نمائش پذیر ہوتی رہی ہیں۔
ایک قابل ذکر اور دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ 1992ء میں بمبینو میں ایک انگریزی فلم چل رہی تھی۔ انٹرویل میں کسی کی نظر پڑی کہ ایک کرسی کے نیچے ٹائم بم رکھا ہوا ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ بے تحاشا بھاگ کھڑے ہوئے۔ پولیس کو اطلاع دی گئی اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کا عملہ بھاگم بھاگ بمبینو پہنچا مگر ان کی آمد سے پہلے ٹائم بم کا وقت پورا ہوچکا تھا۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور سنیما کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔ آتش زدگی سے فرنیچر تباہ ہوگیا۔ لاکھوں کا نقصان ہوا مگر کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ یہی غنیمت تھا۔ بدقسمتی سے انشورنس والوں نے یہ نقصان پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ کافی عرصے تک یہ سنیما اجاڑ پڑا رہا۔
جب سنیما گھر کو مسمار کر کے پلازااور شاپنگ سینٹر تعمیر کرنے کی لہر چلی تو بمبینو کے مالکوں نے بھی اس سنیما کو شاپنگ مال بنانے کا منصوبہ بنایا لیکن حکومت نے روک دیا۔ اس طرح کراچی والوں کو اپنا ہر دلعزیز سنیما دوبارہ واپس مل گیا۔ اب بمبینو سنیما کی عمر لگ بھگ چالیس سال (پچاس )ہوچکی ہے مگر یہ ہمارے سامنے کا تو بچہ ہے کیونکہ ہماری آنکھوں کے سامنے اس نے جنم لیا تھا۔
**
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بھی چل سکے ساغر چلے
لیجئے ، کیفی اعظم بھی چل دیے۔ پچھلے دنوں علی سردار جعفری کا سوگ منایا تھا۔ اب کیفی اعظمی صاحب کا ماتم کر رہے ہیں۔ عام طور پر کسی مرنے والے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی جگہ اب کبھی پُر نہیں ہوگی۔ جب ہم نوجوان تھے تو اس مقولے پر بالکل یقین نہیں رکھتے تھے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ قدرت کے کارخانے میں جہاں اربوں کی آبادی ہے ، کسی ایک شخص کے دنیا سے جہاں اربوں کی آبادی ہے ، کسی ایک شخص کے دنیا سے رخصت ہونے پر اس کی جگہ ہمیشہ کے لیے خالی ہوجائے؟ لیکن وہ زمانہ عظیم اور قد آور انسانوں کا تھا۔ ہم خود بھی نوجوان تھے۔ جس طرف نظر اُٹھاتے تھے زندگی کے ہر شعبے میں بے شمار ایسی ہستیاں نظر آجاتی تھیں کہ آنکھوں میں چکا چوند ہونے لگتی تھی۔ بڑے بڑے لوگ دنیا سے رخصت ہوتے تھے مگر ان کی جگہ لینے کے لیے دوسرے موجود تھے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری تھا۔
رفتہ رفتہ جب وقت گزرا تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے عظیم ہستیاں پیدا کرنے والے سرچشمے خشک ہونے لگے ہیں جو موجود ہیں ان ہی کا دم بہت غنیمت ہے کہ آگے تو قحط الرجال ہے۔ کہاں دیو قامت لوگوں کو سر اُٹھا کر دیکھو تو سر سے ٹوپیاں گر جاتی تھیں اور ان کے چہروں کے پیچھے آسمان چھپ جایا کرتا تھا ، کہاں اب بونے پیدا ہونے لگے جنہیں دیکھنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے۔ اگریہی حالت رہی تو شاید خوردبین لگا کر دیکھنے کی نوبت آجائے گی مگر کوئی کام کا بندہ نظر نہیں آئے گا۔ گزشتہ پچاس ساٹھ سال کے عرصے میں آخر یہ انقلابِ عظیم کیوں کر پید اہوگیا۔ دھرتی بانجھ پن کیوں ہوگئی۔ ہر شعبے میں ممتاز ، قابل قدر اوریگانہ روزگار لوگ پیدا ہونے کیوں بند ہوگئے؟ انسانوں میں یہ مینو فیکچرنگ ڈیفیکٹ آخر کیوں اور کیسے پیدا ہوگیا کہ جو بھی جاتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آفتاب کا ایک اور ٹکراؤ ٹوٹ کر گم ہوگیا ہے۔ آخر دنیا تاریکیوں کی طرف کیوں بڑھ رہی ہے ؟ روشنی اور چمک دمک کم کیوں ہوتی جار رہی ہے؟ واقعی، ایسا ہو رہا ہے یا ہماری نظری کی کمزوری اور قوتِ شناخت کی کمی ہے؟ وجہ کچھ بھی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ جو بھی جا رہا ہے اس کی جگہ لینے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ آدمیوں کا ہجوم ہے کہ بڑھتا جاتا ہے لیکن انسان ہیں کہ تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جگر مراد آبادی نے ٹھیک ہی تو کہا تھا :
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
انہوں نے لگ بھگ پچاس سال پہلے یہ شعر کہا تھا۔ کچھ تو ضرور محسوس کیا ہوگا تبھی تو یہ شعر کہا۔ اب دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ انسان تو گھٹ ہی گئے ہیں، سائے بھی سمٹتے جا رہے ہیں۔ جب سایہ دار اونچے درخت میں ہی نہ رہیں گے تو سایہ کہاں سے آئے گا؟ جس طرح جدید شہر تعمیر کرنے والے ، سڑکوں کو کشادہ کرنے والے بے دردی سے درخت کاٹ کاٹ کر کاروں کے لیے سڑکیں چوڑی کر رہے ہیں مگر شہر سبزے اور سائے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اسی طرح قد آور ہستیوں کے جانے سے سائے کم ہوتے جا رہے ہیں اسی طرح قد آور ہستیوں کے جانے سے سائے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر طرف چٹیل میدان او صحرا نظر آنے لگے ہیں کہ سبزہ ہے ، نہ تازہ ہوا۔ نہ سایہ، شدید گرمی اور حبس کا عالم ہے۔ میر انیس کے بقول ۔ وہ حبس تھا کہ لوکی دعا مانگتے تھے لوگ۔

(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)