اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 12

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 12

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پھر وہ تیزی سے واپس پلٹی اور بڑی شان سے صراحی دار گردن اٹھائے ، گھنگرؤں کی چھن چھن میں نیم روشن ستونوں کی جانب چلی گئی۔ دیوداسیاں سجدے سے اٹھیں اور باری باری مجھ سے پھول لے کر دیوی دیوتا کے آگئے سر جھکاتی جدھر رقاصہ روکاش گئی تھی ادھر چلی گئیں۔ پوجا کی رسم ختم ہوئی تو میں سونے کی چوکی سے اٹھا۔ میری خدمت پر مامور دو دیوداسیاں لپک کر چبوترے کے پاس آئیں اور میرے بازو تھام کر مجھے نیچے اتارا۔ میں اس مندر کی تمام رسوم و آداب سے غیبی طور پر واقف ہوچکا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ میں اس مندر کا پرانا کاہن اعظم بن چکا تھا جس کو اس مندر کی ایک ایک بات کا علم تھا جو وہاں کے تمام رموز سے آشنا تھا اور جسے سارے خفیہ راستے آتے تھے۔ میں اپنی شاندار کوٹھری میں آ کر سخاب و سمور کے بستر پر لیٹ گیا۔
میرے سامنے صندل کی صندوقچی پر شمع دان مین شمع روشن تھی اور ایک ریت گھڑی رکھی تھی جو ظاہر کر رہی تھی کہ ابھی آدھی رات میں ایک ساعت باقی ہے۔ گھڑی کے اوپر نیچے کے دونوں خانوں کی ریت مساوی نہیں ہوئی تھی۔ گھڑی کے اوپر کے خانے سے ریت کے ذرے آہستہ آہستہ ایک نامعلوم سی پتلی لکیر کی شکل میں نیچے کے خانے میں کر رہے تھے۔ میں بے تاب نگاہوں سے بار بار گھڑی کی طرف دیکھتا۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 11پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

جب دونوں خانوں کی ریت برابر ہوگئی تو میں کوٹھری سے باہر نکل کر تہہ خانے کی طرف چلا۔ مندر کے بڑے اعلان میں فانوس روشن تھے اور سامگریوں میں عود و لوبان سلگ رہا تھا پستہ قدستونوں کی جس راہ داری میں سے میں گزر رہا تھا وہاں نیم اندھیرا اور نیم روشنی تھی میرے قدم اپنے آپ تہہ خانے کو جانے والے راستے کی جانب اٹھ رہے تھے۔
تہہ خانے میں اندھیرا تھا۔ لیکن سیڑھیوں کے آخر میں ایک کونے کی جانب رقاصہ روکاش نے ایک موم بتی روشن کر رکھی تھی۔ میرا دل دھڑک رہا تھا۔ یہ اپسرا رقاصہ کی محبت کی وجہ بھی تھی او اس احساس کا خوف بھی تھا کہ میں ملک کے سب سے بڑے مندر کا سب سے بڑا پجاری ہوں اور وہاں کی رسم کی مطابق کاہن اعظم نہ تو کسی عورت سے شادی کر سکتا تھا اور نہ کسی سے محبت کر سکتا تھا۔ اس کا کسی عورت کی طرف محبت کی نظر سے دیکھنا بھی ایک ایسا جرم تھا جس کی سزا موت تھی۔ یہ حقیقت بھی میری غیبی طاقت نے میری شناخت کے ساتھ ہی مجھ پر منکشف کر دی تھی۔
تہہ خانے کی سیڑھیاں اتر کر میں آخری ستون کی طرف گیا تو رقاصہ روکاش ایک گلابی شعلے کی طرح ستون کے عقب سے نکل کر میرے سامنے آگئی۔ اس نے اپنا جسم سیاہ لبادے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ مگر اس کا گلابی خوبصورت چہرہ موم بتی کی روشنی میں چاند کی طرح دمک رہا تھا۔ میں اس کے قریب جانے کے لئے بے تاب تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جس طرح اس کے تیر نگاہ کا گھائل ہوں اسی طرح وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے اور اس نے مندر کی ہزاروں سالہ قدیم دیومالائی روایات کو میری محبت میں ٹھکرا دیا ہے۔ اس کے سیاہ لبادے اور سیاہ بالوں کی گھٹاؤں میں سے صندل و زعفران کے عطریات کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ میں اس کی چاند جیسی دمکتی پیشانی قریب سے دیکھنے آگے بڑھا تو اس نے بڑی عقیدت سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر کہا۔
’’ مقدس باپ ! تو نے مجھے اپنی بیٹی بنایا ہے تجھے رب بعل اور دیوی اشتری کی قسم ہے مجھے بادشاہ سومر کے ظلم و ستم سے نجات دلاؤ ار مندر سے باہر جا کر مجھے اپنے محبوب شاہی بت تراش موگاش سے ملنے اور اس کے ساتھ فرار ہوجانے کا موقع دو۔‘‘
مجھ پر گویا بجلی سی گر پڑی۔ رقاصہ روکاش نے ایک ہی سانس میں میری محبت کو کئی تیروں سے ہلاک کر دیا تھا۔ پہلا تیر تو مجھے یہ لگا کہ وہ مجھے اپنا محبوب نہیں بلکہ باپ سمجھتی تھی۔ دوسرا تیر اس نے یہ کہہ کر چلایا کہ وہ موہنجودڑو کے بادشاہ سومر کے شاہی بت تراش موگاش سے محبت کرتی تھی جس نے اس کی ڈانسنگ گرل والی مورتی خاص طور پر بادشاہ کے محل کی زینت بننے کے لیے بنائی تھی اور تیسرا تیر میری محبت کے سینے پر یہ لگا کہ وہ موگاش کے ساتھ میرے رقیب کے ساتھ فرار ہونے کے لئے مجھ ہی سے مدد طلب کر رہی تھی۔ میں اس کا منہ نکتے لگا۔
مجھے احساس تھا کہ میں مندر کا کاہن اعظم ہوں اور رقاصہ روکاش سے والہانہ محبت کرتا ہوں مگر یہ نہ بتایا کہ میں اسے اس سے پہلے بیٹی کہہ چکا ہوں۔ میری محبت ہلاک کر دی گئی تھی۔ مجھے تو یہ علم تھا کہ میں کاہن اعظم کی حیثیت سے کسی عورت سے نہ تو شادی کر سکتاہوں اورنہ محبت کر سکتا ہوں۔ مگر جب پوجا کے بعد روکاش نے گلاب کے پھول لیتے وقت میری طرف مسکرا کر دیکھا تھا اور سرگوشی میں مجھ سے تہہ خانے میں آدھی رات کو ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو میں یہ سمجھا تھا کہ اس نے میری محبت میں دیومالائی روایات سے بغاوت کر دی ہے اور وہ میری محبت میں سرشار ہے لیکن اب یہ بساط الٹ گئی تھی۔ وہ مجھ سے آدھی رات کو صرف اس لئے ملنے آئی تھی کہ میں اسے کسی طرح مندر سے فرار ہونے کا موقع فراہم کروں۔ کیونکہ وہ بادشاہ سومر کی منظور نظر رقاصہ دیوداسی تھی۔
بادشاہ مذہبی روایات کے خلاف ایک قدم نہیں اٹھا سکتا تھا لیکن روکاش سے الگ بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ اب ایک ایک بات میرے سامنے کھلتی جا رہی تھی۔ بادشاہ سومر نے مجھے یعنی مندر کے کاہن اعظم کو اعتماد میں لے رکھا تھا اور میں ہر دوسری رات کے اندھیرے میں رقاصہ روکاش کو مندر کے خفیہ راستے سے ماہر بھجوا دیتا تھا۔ جہاں بادشاہ کا جانثار فوجی دستہ سیاہ نقاب پہنے کھڑا ہوتا۔ وہ رقاصہ روکاش کا بادشاہ کے محل میں پہنچا دیتے اور صبح ہونے سے پہلے اپنی زبردست نگرانی میں واپس مندر چھوڑجاتے لیکن رقاصہ روکاش کا بادشاہ سومر سے نفرت تھی اور وہ شاہی بت فراش موگاش پر فدا تھی اور اس کے ساتھ کسی طرح مندر سے فرار ہوکر ملک سے نکل جانا چاہتی تھی۔ یہ کام وہ میری مدد کے بغیر نہیں کر سکتی تھی۔ کیوں کہ مندر کے باہر جلاد قسم کے شاہی سپاہیوں کا پہرہ لگا رہتا تھا۔ صرف میری اجازت سے ہی کوئی دیوداسی مندر سے باہر قدم رکھ سکتی تھی۔
رقاصہ روکاش جس کو میں دل و جان سے چاہتا تھا ہاتھ باندھے میرے سامنے کھڑی گڑگڑاہی تھی کہ میں کسی طرح اسے مندر سے باہر نکلوا دوں تاکہ وہ اپنے محبوب کے ساتھ ملک سے ہمیشہ کے لئے فرار ہوجائے۔ موم بتی کی روشنی میں اس کا حسین چہرہ شعلے کی طرح دمک رہا تھا۔ اس کی بڑی بڑی سرمگیں آنکھوں میں آنسو تھے۔ میرے دل پر ایک اور تیر لگا۔ کاش! یہ آنسو وہ میری وہ محبت میں بہا رہی ہوتی لیکن وہ میرے رقیب روسیا اور اپنے محبوب موگاش کی محبت میں بے قرار ہو کر رو رہی تھی۔ میں ایک عجیب جہنم کی آگ میں دھکیل دیا گیا تھا۔
’’ مقدس باپ عاطون! کیا تم اپنی دکھی بیٹی کی فریاد نہیں سنو گے؟ کیا تم میری نہیں کرو گے؟ میں بادشاہ سے نفرت کرتی ہوں۔ میں اس کے محل کا کھلونا نہیں ہوں۔ میں اپنے محبوب موگاش کی امانت ہوں۔ میرے دل میں صرف اس کی اور اسی کی شمع محبت روشن ہے۔ تم رحم دل باپ ہو۔ تم پر دیو تاؤں کی لاکھوں برکتیں نازل ہوں گی۔ کیا تم دو محبت کرنے والے کو سندھ کی خاک میں پامال ہوتے دیکھتے رہو گے؟‘‘
’’ خاموش؟‘‘میرے منہ سے غصے کی حالت میں نکل گیا۔ رقاصہ روکاش سہم کر ذرا پیچھے ہٹ گئی۔ لگتا تھا کہ اسے مجھ سے اس قسم کے تخاطب کی ہر گز امید نہیں تھی۔ میں نے جلدی سے سنبھلتے ہوئے کہا۔
’’ میرا مطلب ہے روکاش کہ میں تمہارا مدد کا وعدہ نہیں کرتا مگر کوشش کروں گا۔‘‘
اور اس سے پہلے کہ وہ گڑگڑاتے ہوئے میری قدموں پر گرپڑتی۔ میں اپنے دل میں غصے، نفرت ، حسد اور رقابت کے شعلوں کے لئے تہہ خانے کی سیڑھیاں چڑھ کر باہر نکل گیا۔ میرا خون کھول رہا تھا۔ رقاصہ روکاش کی محبت میں ناکامی اور ذلت کے صدمے نے مجھے دیوانہ بنا دیا تھا۔
میں اس سے انتقام لینے کے بارے میں سوچنے لگا لیکن جب اس کی موہنی صورت میری آنکھوں کے سامنے آتی تو میں اس ارادے سے ہاتھ کھینچ لیتا ۔ میں بڑی آسانی سے بادشاہ سومر کو سارا حال بتا کر روکاش رقاصہ کو ہاتھی کے پاؤں تلے کچلوا سکتا تھا لیکن جانے کیوں اس کی محبت مجھے اس خیال سے باز رکھے ہوئے تھی۔ میں نے ساری رات جاگ کر گزار دی۔
دوسرے روز مندر میں پوچا کے جشن کی رات تھی کیونکہ اس رات خود بادشاہ کو مندر میں پوجا کے لئے آنا تھا اور اسی رات رقاصہ روکاش کو بادشاہ کے محل میں پہنچایا جانا تھا۔ مجھے بادشاہ سے بھی نفرت ہوگئی تھی مگر میں اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
وہ پوجا کی رات تھی۔ جشن کی رات تھی۔ مندر میں بادشاہ اپنی ملکہ اور امرائے دربار کے ساتھ موجود تھا۔ سنکھ بج رہے تھے۔ ڈھول پیٹے جا رہے تھے۔ دیوداسیاں رنگ برنگ لباس پہنے، سیاہ بال لہراتیں دیوتا بعل اور دیوی اشتر کے حضور رقص کر رہی تھیں۔ میں سونے کی چوکی پر ریشمی لباس میں ملبوس سامگری ہاتھ میں لئے بیٹھا تھا۔ سامگری میں مشک و عنبر سلگ رہا تھا۔ نفیریوں نے اپنی لے کو بلند کر کے شاہی دیوداسی رقاصہ روکاش کی آمد کا اعلان کیا۔ سب کی نظریں مندر کے نیم روشن ستونوں کی طرف اٹھ گئیں۔ میں نے کنکھیوں سے بادشاہ کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی جگہ پر بے تابی سے پہلو بدلنے لگا تھا۔ رقاصہ روکاش شعلہ جوالہ بنی رقص کرتی، گھنگرو جھنکاتی ستونوں کے پیچھے سے بجلی کی طرح نکل کر دیوتا اور دیوی کے بتوں کے سامنے آکر جھک گئی۔ پھر وہ بادشاہ کی تعظیم بجا لائی۔ اس کے بعد میرے پاس آئی۔ میں نے سونے کے کرمنڈل میں سے پانی لے کر اس کے سر پر چھڑکا۔
رقاصہ روکاش کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ اس کے حسین چہرے پر کنول کے پھولوں کا زرد گل سونے کے ذروں کی طرح دمک رہا تھا۔ اس کی پھولوں میں گندھی ہوئی زلفیں ناگنوں کی طرح اس کے جسم پر لٹک رہی تھی۔ اس نے رقص شروع کر دیا۔ رقص کیا تھا ایک شعلہ سا تھا جو کبھی بھڑک کر اپنے دشمن کو خس و خاشاک کی طرح جلا ڈالنے کے لئے آگے بڑھتا اور کبھی رنگ و بو کا ستون بن کر اپنی جگہ پر ساکت ہوجاتا۔ ڈھول اور مرزنگ کی تال، رقص کے گھنگرؤں کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ روکاش رقاصہ کی زلفیں طوفانی لہروں کی طرح لہرارہی تھیں اور ان میں گندھے ہوئے پھول ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔
اب دیوداسیاں بھی رقص میں شامل ہوگئی تھیں۔ انہوں نے چاند کی ہالے کی طرح رقاصہ روکاش کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ پجاری بلند آوازوں میں مقدس اشلوک پڑھنے لگے تھے۔ بادشاہ کے چہرے پر حرص و ہوس کے سائے امڈ رہے تھے۔ اب خوب معلوم تھا کہ یہ رقص کرتا ہوا شعلہ جوالہ آج رات اس کے محل کی زینت ہوگا۔ رقص اور پوجا کا جشن اپنے عروج پر تھا کہ بڑے دروازے میں سے شاہی بت تراش موگاش اندر داخل ہوا۔ یہ اونچا لمبا نوجوان مردانہ وجاہت کا مثالی نمونہ تھا۔ اس کا لباس زردسلک کا تھا جس میں سونے کی تاروں سے پھول کڑھے ہوئے تھے۔ اس کے گھنگریالے بال شانوں پر لہرارہے تھے۔ بلند پیشانی پرذہانت اور اعلیٰ کردار کی چمک تھی۔ بادشاہ سومر اور اس کے امراء نے ایک نظر اس نوجوان پر ڈالی۔
شاہی بت تراش موگاش بادشاہ سومر کا منظور نظر تھا اور بادشاہ کی طرف سے اسے ہر شاہی دعوت اور جشن میں بلا روک ٹوک آنے کی اجازت تھی لیکن ایک وقت جب کہ بادشاہ کی محبوب رقاصہ اپنے شعلہ صفت رقص کے عروج پر تھی اسے یہ نت تراش موگاش کی آمد اچھی نہیں لگی تھی۔ لیکن اس نے چہرے سے ناراضی کا کوئی اظہار نہیں کیا۔ اب روکاش رقاصہ نے بھی اپنے محبوب موگاش کو دیکھ لیا تھا اور اس کے رقص میں فریفتگی اور والہانہ جذبہ بیدار ہوگیا۔
بت تراش موگاش نے دیوی دیوتا کے بتوں کے آگے ذرا سا جھک کر تعظیم بجا لائی اور پھر اسکے جی میں کیا آئی کہ بڑی بے باکی سے قدم اٹھاتا ہوا رقاصہ روکاش کی طرف بڑھا اور اس کے رقص کرتے بازوؤں کو تھام لیا۔

(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)