مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست
اگر کوئی کہے کہ مریم نواز کو نیب کی پیشی پر بڑی ریلی کی صورت میں جانے کی بجائے اسی سادگی سے جانا چاہئے تھا جیسے شہباز شریف گئے تھے، تو اسے شاید اس فرق کا علم نہیں جو شہباز شریف اور مریم نواز میں موجود ہے۔ مریم نواز، سابق وزیر اعظم نوازشریف کی بیٹی ہی نہیں ان کی سیاسی جانشین بھی ہیں۔ شہباز شریف ہوں یا حمزہ شہباز وہ مریم نواز کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ مریم نواز خاموش تھیں تو مسلم لیگ ن بھی متحرک نہیں تھی، کل وہ نیب میں پیشی کے لئے نکلیں تو جاتی عمرہ سے لے کر نیب آفس تک مسلم لیگی کارکنوں کا جم غفیر نکل آیا گویا یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مریم نواز میں آج بھی یہ صلاحیت موجود ہے کہ اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لا سکیں، جبکہ شہباز شریف اس معاملے میں تہی دست نظر آتے ہیں۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ نیب کو بیٹھے بٹھائے مریم نواز کو طلب کرنے کا خیال کیسے آ گیا وہ خاموش تھیں اور منظر سے بھی غائب تھیں، انہیں منظر پر لانے کی نیب نے جو کوشش کی ہے، اس پر کسے داد دی جائے، یہ سکرپٹ کون لکھتا ہے اور ٹھہرے پانی میں پتھر کون پھینکتا ہے۔ سڑکوں پر طاقت کے مظاہرے کو ترسی ہوئی مسلم لیگ ن نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کے کیا کہ مریم نواز کو ریلی کی صورت نیب آفس لے جانا ہے اس سے ایک بار پھر یہ تاثر قائم ہو گیا کہ مسلم لیگ ن زندہ ہے اور پنجاب کے دل لاہور میں اس کے حامیوں کی تعداد کم نہیں ہوئی۔ نیب کی تفتیش اور تحقیقات کئی کئی سال چلتی ہیں وہ اس معاملے کو بھی التواء میں ڈال سکتا تھا، مگر ایک ایسے موسم میں جب اپوزیشن عوامی حمایت حاصل کرنے کے جتن کر رہی ہے اور اس کے اندر کوئی تحرک نظر نہیں آتا، نیب نے مریم نواز کو بلا کر یہ واضح کر دیا ہے کہ اب بھی مریم نواز چاہے تو سیاسی میدان میں ہلچل مچا سکتی ہے۔ تاہم یہ غالباً شریف خاندان کی مرضی نہیں کہ فی الوقت مریم نواز کے ذریعے کوئی تحریک منظم کی جائے، البتہ طاقت کا مظاہرہ کرنے کے اس موقع سے انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے سب جانتے ہیں کہ نوازشریف کے ساتھ اگر کسی کا مسلسل رابطہ ہے تو وہ مریم نواز ہیں۔
انہوں نے نیب میں پیشی کا فیصلہ بھی نوازشریف کے مشورے سے کیا ہوگا۔ پھر یہ فیصلہ بھی نوازشریف کی مرضی ہی سے ہوا ہوگا کہ انہیں ایک ریلی کی صورت میں نیب آفس جانا چاہئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے شہباز شریف یا حمزہ شہباز کی نیب میں پیشی کے موقع پر کبھی یہ کال نہیں دی گئی کہ کارکن جاتی عمرہ یا ماڈل ٹاؤن اور نیب آفس پہنچ جائیں، ایسا صرف مریم نواز کی پیشی پر کیا گیا، اس کا مطلب ہے مسلم لیگ ن عملاً مریم نواز قیادت میں چل رہی ہے اور مستقبل میں بھی ہر بڑا فیصلہ مریم نواز ہی نوازشریف کی مشاورت سے کریں گی۔ یہ بات بھی کھل گئی ہے کہ مسلم لیگ ن میں کوئی دھڑے بندی نہیں اور ایک ہی دھڑا ہے جسے نوازشریف اور مریم نواز کی حمایت حاصل ہے۔
پاکستانی سیاست میں یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ تمامتر الزامات کے باوجود کوئی سیاسی جماعت عوامی مقبولیت بھی رکھتی ہے اور لوگ اس کے لئے باہر نکلنے کو بھی تیار ہیں، شخصیات کے بارے میں بھی پاکستانی عوام کا رویہ کچھ اسی قسم کا ہے۔ آپ کرپشن کے لاکھ الزامات لگائیں، گرفتار کریں یا سزا دیں، مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس کی بنیاد پر لوگ اس کی حمایت چھوڑ دیں۔ بے نظیر بھٹو شہید کی مثال ہی کو دیکھیں۔ ان پر کتنے الزامات لگے، حکومت تک بدعنوانی پر برطرف کر دی گئی مگر عوام انہیں دوبارہ اقتدار میں لے آئے۔ آصف زرداری کو دیکھیں، مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب پانے والے نے بے نظیر بھٹو کی قیادت کے بعد پیپلزپارٹی سنبھالی، اسے اقتدار دلوایا اور خود بھی صدر مملکت بن گئے۔
نوازشریف بھی بار بار اقتدار میں آئے اور نکالے گئے، لیکن عوام کی حمایت انہیں حاصل رہی اس لئے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کسی سیاستدان کو اسٹیبلشمنٹ گندہ کر کے پاکستان سے نکال باہر کرئے گی تو وہ غلط ہے۔ اسٹیبلشمنٹ صرف حکومت سے باہر کرتی ہے، سیاست سے باہر کرنا اس کے بس کا روگ نہیں پاکستانی عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس بات سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے کہ کس نے کتنا ملک لوٹا ہے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کس نے ان کے لئے کیا کیا ہے۔ آج جب پاکستان میں حد درجہ مہنگائی ہے، بے روز گاری ا ور بھوک ننگ ہے تو انہیں ماضی کا پاکستان یاد آتا ہے، جس میں بے شک لوٹ مار تھی لیکن عوام کو سہولتیں پہنچانے کا ایک طریقہ، کار بھی ساتھ ساتھ رکھا گیا تھا۔
مجھے اس بات پر اکثر ہنسی آتی ہے جب کوئی وزیر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ نوازشریف کی سیاست ختم ہو گئی ہے کسی سیاستدان کا اگر کوئی ایک حمایتی بھی موجود ہے تو اس کی سیاست کیسے ختم ہو سکتی ہے۔ یہاں تو پوری مسلم لیگ ن نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے ملک میں نہ ہونے کے باوجود پارٹی پر انہی کا حکم چل رہا ہے۔ پھر سب نے یہ بھی دیکھا کہ جب نوازشریف پر برا وقت آیا تو مریم نواز ہی ان کے ساتھ کھڑی ہوئیں، ان کے بیانیئے کا ساتھ دیا اور اس کی پاداش میں قید بھی کاٹی، یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ اس لئے مسلم لیگ ن کا کارکن مریم نواز کے حکم سے متحرک ہو جاتا ہے تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جس کے کارکن اس کی بات سنیں، مسلم لیگ ن میں کارکن پہلے بھی نوازشریف کی بات مانتے تھے اور اب بھی ان کے نام کی مالا جپتے ہیں شہباز شریف ہوں یا حمزہ شہباز یا دیگر رہنما ان میں اتنی کشش نہیں کہ پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈال سکیں۔ مریم نواز اس لئے کارکنوں کے دل میں بستی ہیں کہ وہ نوازشریف کی سیاسی جانشینی کا حق ادا کر چکی ہیں انہوں نے نوازشریف کے بیانیئے پر اعتراضات نہیں اٹھائے بلکہ آگے بڑھ کر ان کا ساتھ دیا۔
مسلم لیگ ن کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے پیپلزپارٹی جیسی سہولت حاصل نہیں، پیپلزپارٹی میں بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی وراثت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا، سو انہیں پارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ مسلم لیگ ن میں وراثت چچا اور بھتیجی میں معلق ہے۔ مریم نواز کے پاس عوامی حمایت ہے مگر شہباز شریف ان کی قیادت تسلیم کرنے کو تیار نہیں وہ حمزہ شہباز کی صورت میں پارٹی پر اپنی شاخ کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ خود پارٹی کے اندر انہیں مزاحمت کا سامنا ہے۔ نوازشریف کا دو ٹوک اعلان اس ابہام کو ختم کر سکتا ہے، مگر وہ شاید ابھی اس بکھیڑے میں پڑنا نہیں چاہتے، جس کی وجہ سے پارٹی تعطل اور اتنشار کے زمانے سے گزر رہی ہے، تاہم مریم نواز کی نیب میں پیشی نے اس بات کو پھر ثابت کر دیا ہے کہ مسلم لیگ ن میں اگر سیاسی جان موجود ہے تو وہ مریم نواز کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں پارٹی کارکنوں کی آخری امید ہیں۔