بالآخرمیٹرو کی سنی گئی، وزیر اعظم افتتاح کریں گے
اہل خیبر کوسستی اور برق رفتار سفری سہولیات کی فراہمی کے لئے شروع کئے گئے منصوبے بی آر ٹی کا بالآخر افتتاح ہونے لگا ہے، وزیراعظم عمران خان ایک دو روز میں میٹرو پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی ہوں گے، وزیراعلیٰ محمود خان نے اس تقریب کے لئے اپنے کپتان کو باقاعدہ ملاقات کرکے افتتاح کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ یوم آزادی پر یعنی 14اگست کو بی آر ٹی کا افتتاح کر دیا جائے،جس پر وزیراعظم نے منصوبے کے مختلف خدو خال اور تکمیلی مراحل کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں اور کہا کہ افتتاحی تقریب 13یا 14اگست کو رکھ لی جائے۔ صوبائی حکومت عیدالاضحی کے بعد سے اس منصوبے کے تمام پہلوؤں کی تکمیل پر دن رات ایک کئے ہوئے ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب صحیح معنوں میں پشاور میٹرو مکمل ہو چکی ہے۔قبل ازیں سابق وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی بارہا اس کے افتتاح کی مختلف تاریخیں دے چکے تھے، لیکن اعلانات کے باوجود افتتاحی تقریب منعقد نہ کی جا سکی۔اس دوران کئی اطراف سے منصوبے کے بارے میں اعتراضات بھی سامنے آتے رہے اور بے شمار نقائص کی نشاندہی بھی کی جاتی رہی، پی ٹی آئی حکومت میں شامل بعض اہم رہنما خود یہاں تک کہتے سنے گئے کہ یہ منصوبہ شروع کرکے ہم نے غلطی کی ہے، اس حوالے سے کئی سکینڈل بھی سامنے آتے اور حکومتی ترجمان اس کی وضاحتیں بھی کرتے رہے۔ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق اب جب پشاور میٹرو رواں دواں ہونے لگی ہے پچھلی تمام باتیں فراموش کر کے اس نئے سفر کو انجوائے کرنا چاہئے اور تبدیلی کے مزے لینا چاہئیں۔
بی آر ٹی سمیت چار میگا پراجیکٹس ایسے ہیں جن پر کے پی کے حکومت خوب زور لگا رہی ہے ، وزیر اعلیٰ محمود خان ڈنڈا اٹھائے متعلقہ حکام پر چڑھے ہوئے ہیں اور دن رات ان منصوبوں کی پراگریس رپورٹ بھی حاصل کر رہے ہیں۔ صوبائی محکمہ اطلاعات کے سربراہ بہرا مند خان درانی بھی اپنی ٹیم کے ساتھ ان میگا پراجیکٹس پر دھڑا دھڑ رپورٹیں تیار کر رہے ہیں جو جلد میڈیا سے شیئر کی جائیں گی۔ میٹرو بس سروس کے ساتھ ساتھ ہیلتھ کارڈ کے اجراء، شجر کاری مہم اور ووکیشنل ٹریننگ پراجیکٹس کی تکمیل صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، ان منصوبوں پر خطیر رقم خرچ کی جا چکی ہے اور اب بھی کی جا رہی ہے، معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کے مطابق صوبائی حکومت یہ سارے منصوبے ماہ رواں کے دوران ہی مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک گیر سطح پر ان منصوبوں کا کریڈٹ لینے کا ارادہ رکھتی ہیں، یوں اپوزیشن کی جانب سے کئے جانے والے اعتراضات یا حکومت مخالف مجوزہ تحریک کی شدت میں کمی بھی آ سکتی ہے۔ 9 اگست کو جس ملک گیر شجر کاری مہم کا آغاز کیا گیا تھا اس کا زیادہ تر ٹارگٹ خیبرپختونخوا ہی ہے، ڈیرہ اسماعیل خان اور انظمام شدہ قبائلی اضلاع میں اس مہم کے دوران زیادہ پودے لگائے گئے، نو ضم شدہ ضلع خیبر میں تو شجر کاری کے فوری بعد پودے اکھاڑنے کا افسوسناک واقعہ بھی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی زینت بنا، جس پر بحث و تمحیص تا حال جاری ہے۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ محمود خان نے شجرکاری مہم کے پودے اکھاڑنے کے واقعے کا خود نوٹس لیا اور خیبر کی ضلعی انتظامیہ کو ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی انکوائری کرکے ذمہ داروں کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے کیونکہ شجرکاری کی ملک گیر مہم میں رخنہ ڈالنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا۔ صوبائی حکومت سیاحت اور جنگلات کے فروغ کے لئے بھی خاصی سر گرم دکھائی دے رہی ہے، سوات میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی پر بھی وزراعلیٰ محمود خان نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور ان کی ہدایت پر سیکرٹری جنگلات نے غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ڈی ایف او کالام، ایس ڈی ایف او بحرین، رینجر،2فارسٹر اور 4 فارسٹ گارڈ معطل کر دیئے گئے۔
خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں اکا دکا دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے، بالخصوص جب سے ہمسایہ ملک افغانستان میں امن دشمن سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے یا پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں ردوبدل کیا ہے اس قسم کے واقعات سر اٹھا رہے ہیں، دو روز قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک امام بار گاہ کے متولی اور ٹانک میں سپیشل برانچ کے مقامی سربراہ (ایریا گروپ آفیسر) کا ٹارگٹ کلنگ میں قتل نہایت افسوسناک ہے، اگرچہ ان دونوں واقعات کی پولیس کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے اور خفیہ شعبے بھی تحقیقات کر رہے ہیں لیکن صوبائی محکمہ داخلہ کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کے واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لے اور اصل محرکات کا سراغ لگا کر پس پردہ گروپوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑا جائے کیونکہ اگر یہ معاملہ شدت اختیار کر گیا تو حالات خدانخواستہ قابو سے باہر ہو سکتے ہیں، صوبائی دارالحکومت سمیت خیبر کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی اور حبس کے دوران بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، موسم کی شدت کے ستائے شہری مختلف مقامات پر لوڈشیڈنگ کے خلاف سراپا احتجاج بھی ہیں اور میڈیا پر بھی تنقید جاری ہے اس کا بھی نوٹس لیا جانا چاہئے اور شہریوں کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے جان چھڑانے کی ضرورت بھی ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ سیاحتی مقامات پر آج کل بے پناہ رش کا ہے، جب سے لاک ڈاؤن ختم اور پر فضا مقامات کھولے گئے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں شہریوں نے ان علاقوں کا رخ کیا ہے جہاں شاہراہوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں سیاح پہاڑی سلسلے بھی بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، وادیوں کی صورت حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، بعض مقامات پر اشیائے خورو نوش کی کمیابی کی اطلاعات بھی ہیں جبکہ بعض جگہوں پر کساد بازار سیاحوں کی جیبوں پر خوب ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔یہ عوامی مسئلہ بھی فوری توجہ کا طالب ہے۔